طالبان اور خان

جنوبی وزیرستان سے متصل ٹانک کی مین روڈ اگرچہ توڑ دینے کی اطلاعات ہیں۔


Abbas Athar October 07, 2012
جنوبی وزیرستان سے متصل ٹانک کی مین روڈ اگرچہ توڑ دینے کی اطلاعات ہیں۔

جنوبی وزیرستان سے متصل ٹانک کی مین روڈ اگرچہ توڑ دینے کی اطلاعات ہیں۔

تاکہ عمران خان وزیرستان میں داخل نہ ہو سکیں لیکن اس کے باوجود امید رکھنی چاہیے کہ عمران خان اپنا قافلہ لے کر آج خیرخیریت سے کوٹ کئی (جنوبی وزیرستان) پہنچ جائیں گے۔ ادھر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قافلے پر کسی نے حملہ کر دیا تو بدنامی ہو گی اور یہ تاثر ملے گا کہ وزیرستان میں امن قائم نہیں ہوا۔ اخبار کا خیال ہے کہ عمران خان بند گلی کی طرف جا رہے ہیں۔ دوسری طرف طالبان نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کا خیرمقدم نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مغرب زدہ اور لبرل ہیں۔

خدا نہ کرے کہ ان کے قافلے پر کوئی حملہ کرے۔ انتظامیہ کی جان پر تو پہلے ہی بنی ہوئی ہے۔ پہلے تو وہ اپنی حد تک ایسا بندوبست کرے گی کہ کوئی وقوعہ نہ ہو سکے، اگر سیکیورٹی کا انتظام نہ کر سکی ہو تو کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گی۔ طالبان کے منفی بیان سے انتظامیہ کا یہ مؤقف بظاہر مضبوط ہوا ہے کہ قافلہ جنوبی وزیرستان گیا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ ان کے اس قافلے سے وزیرستان کے بارے میں حکومتی پالیسی تبدیل کرانے میں مدد ملے گی لیکن امریکی اخبار نے یہ خیال مسترد کر دیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں ووٹنگ ضرور ہوتی ہے لیکن فیصلہ سازی کا اختیار اب بھی سیکیورٹی حکام اور خفیہ ایجنسیوں کے پاس ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ عمران خان کی مہم سے حکومت پر دباؤ تو ضرور پڑے گا لیکن پالیسی اس لیے نہیں بدلے گی کہ فیصلے ووٹنگ سے نہیں کسی اور جگہ، کسی اور طریقے سے ہوتے ہیں۔

مارچ سے حاصل کیا ہو گا؟ اس سوال کا واضح جواب تو عمران خان کی مہم ختم ہونے کے بعد ہی مل سکے گا۔ یہ بھی بعد میں پتہ چلے گا کہ کس پر کتنا دباؤ پڑا اور کس کی صحت کتنی متاثر ہوئی۔ بہرحال طالبان کے بیان نے عمران خان کے مداحوں کو بہت مایوس کیا ہے۔ جب تک کرکٹر تھے، ان کا طرز زندگی مغربی یا لبرل ضرور تھا لیکن اس کے بعد تو وہ اسلام کے علمبردار بن گئے اور اس حد تک کہ کسی نے ان کے بارے میں یہ فقرہ بھی کہہ دیا کہ ان کے اندر جماعت اسلامی رچی ہوئی ہے۔ حیرت ہے کہ طالبان ان کا اسلامی تشخص قبول نہیں کر رہے جو اتنا سچا ہے کہ جلسہ عام کی کارروائی روک کر پورے ہجوم کو نظر آنے والی جگہ پر اکیلے نماز پڑھنے لگتے ہیں اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ سامعین وحاضرین جلسہ ان کے پیچھے جماعت کھڑ ی کریں گے یا نہیں۔

ابھی کل ہی انٹرنیٹ پر عمران خان کی ایک کمپیوٹرائزڈ تصویر آئی تھی جس میں انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور سر پر صافہ بھی باندھ رکھا تھا۔ ممکن ہے طالبان کا خیال ہو کہ جب تک یہ فرضی تصویر اصلی نہیں ہو جاتی، وہ عمران خان کو اسلام کا علمبردار نہیں مانیں گے اور مغرب زدہ ہی سمجھتے رہیں گے۔ خیر طالبان کا مؤقف اس حد تک ہی رہے تو گزارا ہو جائے گا ورنہ طالبان اپنی مرضی کے مالک ہیں، وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب تک عمران خان خود کش جیکٹ پہن کر کوئی ''معرکہ'' سر نہیں کرلیتے، ان کی اسلام کے ساتھ وابستگی مشکوک ہی رہے گی۔

عمران خان نے تو اپنی تصویر سازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ سیاسی اور معاشی پالیسیوں کے بارے میں ملک کو اسلامی' فلاحی ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں اور احتساب کے کڑے اسلامی تصور کو نافذ کرنے کا نعرہ بھی لگاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے اس روپ میں عام آدمی کے لیے اس وقت کمی رہ جاتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ان کے اردگرد خورشید قصوری اور شاہ محمود قریشی جیسے روشن خیال موجود ہیں۔ ممکن ہے طالبان کے ذہن میں یہ بات ہو اور وہ یہ رعایت دینے پر تیار نہ ہوں کہ پاکستان میں ذہن راتوں رات بدل جاتے ہیں اور یوں بھی ہو جاتا ہے کہ روشن خیال حضرات بھی اندر سے ''جماعت اسلامی'' بن چکے ہوتے ہیں لیکن ظاہر نہیں کرتے۔ طالبان عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ظاہری حالت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں،انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ عمران خان کی اسلام پسندی کو پورا نہ سہی جزوی طور پرہی قبول کر لیں۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ خان صاحب ان کی بے رخی سے برہم ہو کر پھر سے سابقہ طرز زندگی اپنا لیں۔ ایسا ہوا تو پاکستان کا سیاسی مستقبل ایک ''روشن خیال'' طالبان رہنما سے محروم ہو جائے گا۔ روشن خیالی اور مغرب زدہ ہونے کی تعریف کیا ہے، یہ طے کرنا آسان نہیں۔ ہمارے معاشرے میں وہ بھی روشن خیال کہلاتا ہے جو اخلاقیات کو ناروا قید تصور کرتا ہے۔ اخلاقی طور پر انارکسٹ حضرات بھی خود کو روشن خیال تصور کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی روشن خیال پکارے جاتے ہیں جو سب کیلیے سماجی اور معاشی انصاف کی بات کریں۔ ان مختلف قسم کے روشن خیالوں میں بہت فاصلہ ہے لیکن جس طرح ہمارے ہاں بعض مذہبی جنونی سارے مذہبی حلقوں کے لیے بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں یا اخلاقی انارکسٹوں کی وجہ سے ہمارا کنزرویٹو طبقہ سارے روشن خیالوں کو قابل گردن زدنی قرار دے دیتا ہے، وہ فارمولا عمران خان پر لاگو نہیں کرنا چاہیے۔

ضروری نہیں کہ جو شخص مغربی لائف اسٹائل اختیار کیے ہو، رنگین زندگی گزارتا ہو بلکہ استحصالی طبقے کا حصہ سمجھا جاتا ہو، اس کو روشن خیال کہا جائے۔ عام معنوں میں روشن خیالی کا مطلب برداشت اور رواداری کے علاوہ سماجی سہولیات کی یکساں فراہمی کی سوچ اور معاشی انصاف کی حمایت ہے۔

مختصر الفاظ میں جو شخص معاشرے میں انصاف ، ترقی اور سماجی برابری کی حمایت کرے ،وہ روشن خیال ہے۔ چاہے وہ کٹر مسلمان ہو' چاہے گرجا میں باقاعدگی سے حاضری دینے والا عیسائی ہو یا سرے سے غیرمذہبی ہو۔ جو ظلم کا حامی ہے ،وہ روشن خیال نہیں ہو سکتا۔ بات دور نکل گئی' اصل مدعا یہ تھا کہ عمران خان جن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یا جن کو اپنی حمایت فراہم کرنے کے لیے نکلے ہیں، انھوں نے تو الٹا انھیں مسترد کر دیا ہے۔ اب تو خیر تاخیر ہو گئی ہے ورنہ انھیں مشورہ دیا جا سکتا تھا کہ وزیرستان مارچ کو کسی اور روشن صبح کے لیے اٹھا رکھیں۔ فی الحال پاکستان کے باقی علاقوں میں کوئی امن مارچ کریں یا خوشحالی ریلی نکالیں، انھیں وزیرستان سے زیادہ پذیرائی ملے گی۔ تھوڑے بہت ووٹ بھی پلے باندھنے میں کامیاب ہوں گے۔

پچھلے اکتوبر میں عمران خان نے ''سونامی'' شروع کی تھی تو جلسوں جلوسوں کاایک سلسلہ چل نکلا تھا لیکن جنوبی وزیرستان کے سونامی کی زد میں آنے کے بعد کون کون سی جماعت خان صاحب کی تقلید کرتی ہے،اس کا ابھی انتظار کرنا چاہیے ۔ ووٹ بنک نہ سہی ''خبریں' سرخیاں اور جھلکیاں'' وافر تعداد میں مل سکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں