ورلڈ کپ میں ناقص کھیل سے انگلش کرکٹ کے درو دیوار لرز گئے
2019 میں بطور میزبان ایک روزہ کرکٹ کیلیے سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی، ماہرین
ورلڈ کپ میں ناقص کھیل سے انگلش کرکٹ کے درو دیوار لرز گئے، ہیں اور پہلے مرحلے سے اخراج نے ٹیم کی ون ڈے کرکٹ میں خامیوں کو نمایاں کردیا۔
پیر کو ایڈیلیڈ میں بنگلہ دیش نے 15رنز سے کامیاب ہوکر ٹیم کا بوریا بستر گول کردیا تھا، یہ دوسرا موقع ہے جب انگلش ٹیم میگا ایونٹ میں پہلے راؤنڈ کی مہمان بنی، اس سے قبل1999 میں بھی وہ رن ریٹ کی بنیاد پر پہلے مرحلے تک محدود رہ گئی تھی، اگلا ورلڈ کپ 2019 میں ایک مرتبہ پھر انگلینڈ میں منعقد ہوگا لیکن حالیہ ایڈیشن میں مایوس کن پرفارمنس نے ایک روزہ کرکٹ میں ٹیم کے مسائل کو سنگین بنا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق بورڈ کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی، بنگلہ دیش سے شکست پرکوچ پیٹر موریس نے تسلیم کیا کہ سابقہ ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ہمارے لیے 275 کا ہدف حاصل کرنا ممکن تھا لیکن ایسا نہیں کرپائے، انگلش ناکامی کی وجوہات جاننے کیلیے کسی بڑے شماریاتی جائزے کی ضرورت نہیں ہے۔
بنگال ٹائیگرز اگرچہ انٹرنیشنل کرکٹ میں کچھ اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے لیکن انھوں نے مسلسل 2 ورلڈ کپ میں انگلینڈ کیخلاف کامیابی حاصل کرلی، انگلش ٹیم کی ناکامی کا آسان جواب یہ ہے کہ پلیئرزبیٹنگ اور بولنگ میں پھر ناکام رہے، ٹورنامنٹ کا فارمیٹ اس طرح بنایاگیا جس کے تحت ہر گروپ کی ٹاپ فور سائیڈز کیلیے کوارٹر فائنل دشوار نہ ہوتا، پیسر اسٹورٹ براڈ نے جنوری میں کہا تھا کہ اگر ہم کوارٹر فائنل میں جگہ نہیں بنا سکے تو یہ بہت بُری بات ہوگی لیکن انگلینڈ کے ساتھ ایسا ہوگیا، پیر کو بنگال ٹائیگرز کے ہاتھوں شکست سے قبل انھیں آسٹریلیا نے 111 رنز سے ہرایا، نیوزی لینڈ نے 8اور سری لنکا نے 9 وکٹ سے مات دی تھی، جس کے بعد انگلش ٹیم کیلیے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔
ٹورنامنٹ میں ابھی تک ان کی واحد فتح اسکاٹ لینڈ کیخلاف رہی، اب جمعے کو افغانستان سے آخری پول میچ بھی محض رسمی کارروائی بن کر رہ گیا، افغان ٹیم بھی اسکاٹ لینڈ پر ہاتھ صاف کرچکی ہے، ٹیسٹ میں بہترین پرفارم کرنے والی سائیڈ ون ڈے میں بجھی بجھی سی دکھائی دی، بہت سے شائقین کرکٹ کے بانی کی ورلڈ کپ میں حالیہ پرفارمنس پر رنجیدہ بھی ہیں، ان کے برعکس آسٹریلیا نے ٹیسٹ اور ون ڈے میں یکساں معیار رکھا ہے، ٹیم 1999 سے 2007 تک لگاتار تین مرتبہ عالمی کپ کی فاتح بنی،اگرچہ انگلینڈ ابھی تک ون ڈے کپ نہیں جیت پایا لیکن اس نے 1975 سے 1992 تک تین مرتبہ فائنل تک رسائی ضرورحاصل کی ہے۔
1996 کے عالمی کپ کوارٹر فائنل میں سری لنکا سے ہارنے کے بعد انگلش ٹیم سنبھل نہیں پائی، اس مقابلے میں سنتھ جے سوریا نے 67 گیندوں پر 82رنز بٹورے تھے، دباؤ کا شکار انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر پال ڈاؤنٹن نے گذشتہ دن کہا تھا کہ ہمیں اپنے ڈومیسٹک اسٹرکچر پر دھیان دینا ہوگا، جس میں ون ڈے سے زیادہ ٹیسٹ کرکٹ پر زور دیا جاتا ہے، حالانکہ انگلش ٹیم نے ورلڈ کپ سے قبل الیسٹرکک کی چھٹی کرکے ایون مورگن کو ٹیم کی باگ ڈور سونپی تھی، لیکن وہ انفرادی طور پر بھی ایونٹ میں کوئی خاص تاثر قائم نہیں کرپائے۔
بنگلہ دیش کیخلاف وہ صفر کی خفت سے دوچار ہوئے جو رواں برس ان کیلیے بغیر کوئی رن بنائے پویلین واپس لوٹنے کا چوتھا موقع تھا، اسی طرح ون ڈے کے اسپیشلسٹ خیال کیے جانے والے اوپنر الیکس ہیلز کو بھی بنگلہ دیش کیخلاف ہی موقع ملا، وہ اس سے قبل کوئی میچ نہیں کھیل پائے، تجربہ کار جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ ایونٹ میں گیند کو سوئنگ کرنے میں ناکام رہے، ماہرین کے مطابق انھیں اب نئی سوچ اختیار کرنا ہوگی۔
پیر کو ایڈیلیڈ میں بنگلہ دیش نے 15رنز سے کامیاب ہوکر ٹیم کا بوریا بستر گول کردیا تھا، یہ دوسرا موقع ہے جب انگلش ٹیم میگا ایونٹ میں پہلے راؤنڈ کی مہمان بنی، اس سے قبل1999 میں بھی وہ رن ریٹ کی بنیاد پر پہلے مرحلے تک محدود رہ گئی تھی، اگلا ورلڈ کپ 2019 میں ایک مرتبہ پھر انگلینڈ میں منعقد ہوگا لیکن حالیہ ایڈیشن میں مایوس کن پرفارمنس نے ایک روزہ کرکٹ میں ٹیم کے مسائل کو سنگین بنا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق بورڈ کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی، بنگلہ دیش سے شکست پرکوچ پیٹر موریس نے تسلیم کیا کہ سابقہ ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ہمارے لیے 275 کا ہدف حاصل کرنا ممکن تھا لیکن ایسا نہیں کرپائے، انگلش ناکامی کی وجوہات جاننے کیلیے کسی بڑے شماریاتی جائزے کی ضرورت نہیں ہے۔
بنگال ٹائیگرز اگرچہ انٹرنیشنل کرکٹ میں کچھ اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے لیکن انھوں نے مسلسل 2 ورلڈ کپ میں انگلینڈ کیخلاف کامیابی حاصل کرلی، انگلش ٹیم کی ناکامی کا آسان جواب یہ ہے کہ پلیئرزبیٹنگ اور بولنگ میں پھر ناکام رہے، ٹورنامنٹ کا فارمیٹ اس طرح بنایاگیا جس کے تحت ہر گروپ کی ٹاپ فور سائیڈز کیلیے کوارٹر فائنل دشوار نہ ہوتا، پیسر اسٹورٹ براڈ نے جنوری میں کہا تھا کہ اگر ہم کوارٹر فائنل میں جگہ نہیں بنا سکے تو یہ بہت بُری بات ہوگی لیکن انگلینڈ کے ساتھ ایسا ہوگیا، پیر کو بنگال ٹائیگرز کے ہاتھوں شکست سے قبل انھیں آسٹریلیا نے 111 رنز سے ہرایا، نیوزی لینڈ نے 8اور سری لنکا نے 9 وکٹ سے مات دی تھی، جس کے بعد انگلش ٹیم کیلیے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔
ٹورنامنٹ میں ابھی تک ان کی واحد فتح اسکاٹ لینڈ کیخلاف رہی، اب جمعے کو افغانستان سے آخری پول میچ بھی محض رسمی کارروائی بن کر رہ گیا، افغان ٹیم بھی اسکاٹ لینڈ پر ہاتھ صاف کرچکی ہے، ٹیسٹ میں بہترین پرفارم کرنے والی سائیڈ ون ڈے میں بجھی بجھی سی دکھائی دی، بہت سے شائقین کرکٹ کے بانی کی ورلڈ کپ میں حالیہ پرفارمنس پر رنجیدہ بھی ہیں، ان کے برعکس آسٹریلیا نے ٹیسٹ اور ون ڈے میں یکساں معیار رکھا ہے، ٹیم 1999 سے 2007 تک لگاتار تین مرتبہ عالمی کپ کی فاتح بنی،اگرچہ انگلینڈ ابھی تک ون ڈے کپ نہیں جیت پایا لیکن اس نے 1975 سے 1992 تک تین مرتبہ فائنل تک رسائی ضرورحاصل کی ہے۔
1996 کے عالمی کپ کوارٹر فائنل میں سری لنکا سے ہارنے کے بعد انگلش ٹیم سنبھل نہیں پائی، اس مقابلے میں سنتھ جے سوریا نے 67 گیندوں پر 82رنز بٹورے تھے، دباؤ کا شکار انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر پال ڈاؤنٹن نے گذشتہ دن کہا تھا کہ ہمیں اپنے ڈومیسٹک اسٹرکچر پر دھیان دینا ہوگا، جس میں ون ڈے سے زیادہ ٹیسٹ کرکٹ پر زور دیا جاتا ہے، حالانکہ انگلش ٹیم نے ورلڈ کپ سے قبل الیسٹرکک کی چھٹی کرکے ایون مورگن کو ٹیم کی باگ ڈور سونپی تھی، لیکن وہ انفرادی طور پر بھی ایونٹ میں کوئی خاص تاثر قائم نہیں کرپائے۔
بنگلہ دیش کیخلاف وہ صفر کی خفت سے دوچار ہوئے جو رواں برس ان کیلیے بغیر کوئی رن بنائے پویلین واپس لوٹنے کا چوتھا موقع تھا، اسی طرح ون ڈے کے اسپیشلسٹ خیال کیے جانے والے اوپنر الیکس ہیلز کو بھی بنگلہ دیش کیخلاف ہی موقع ملا، وہ اس سے قبل کوئی میچ نہیں کھیل پائے، تجربہ کار جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ ایونٹ میں گیند کو سوئنگ کرنے میں ناکام رہے، ماہرین کے مطابق انھیں اب نئی سوچ اختیار کرنا ہوگی۔