پاکستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت دنیا کا مشکل ترین کام ہے مصباح الحق
آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں اورجب وہ پوری نہیں ہوتیں تو پھرتنقید کےتیربرسنا شروع ہوجاتے ہیں، کپتان
KARACHI:
قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت کو دنیا کا مشکل ترین کام قرار دے دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ غیرضروری تنقید جینا دوبھر کردیتی ہے، ٹھنڈے مزاج کا حامل نہ ہوتا تو2دن بھی نہیں ٹک پاتا، مشکل صورتحال کی وجہ سے اکثر دفاعی بیٹنگ پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ مصباح الحق کو کپتانی کرتے5 برس ہوگئے مگر وہ تعریف کے2بول کو ترس رہے ہیں، وہ اچھا کھیلیں اور ٹیم ہار جائے تو انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے، اگر وہ بُرا کھیلیں اور ٹیم جیت بھی جائے تب بھی اعتراضات کا نشانہ وہی بنتے ہیں، اسی وجہ سے وہ پاکستانی ٹیم کی قیادت کو مشکل ترین قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی دنیا میں یہ ٹاپ 5 میں سے ایک مشکل ترین ذمہ داری ہے، آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو پھر تنقید کے تیر برسنا شروع ہوجاتے ہیں، اکثر یہ غیرضروری ہوتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہر دوسرے دن ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے نہ صرف آپ اور ٹیم بلکہ فیملیز بھی متاثر ہوتی ہیں اور کھلاڑیوں کی توجہ اپنے مقصد سے منتشر ہونے لگتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کپتانوں کے خلاف بغاوت کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔ 1980 کی دہائی میں سینئر کھلاڑیوں نے جاوید میانداد کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا، اسی قسم کے رویے کا بعد میں وسیم اکرم کو بھی سامنا کرنا پڑا، 1998 میں عامر سہیل بورڈ سے اختلافات کی وجہ سے ایک ٹیسٹ میچ کی صبح آئے ہی نہیں،2 برس بعد بورڈ نے سیریز کے درمیان میں ہی سعید انور کو قیادت سے ہٹا دیا تھا۔ ورلڈ کپ سے قبل مصباح کیلیے صورتحال زیادہ اچھی نہیں تھی، وہ آؤٹ آف فارم تھے اور پھر انجرڈ بھی ہوگئے لیکن شاہد آفریدی کی صورت میں مضبوط حریف موجود ہونے کے باوجود بورڈ نے ان کا ساتھ دیا۔
مصباح کا کہنا ہے کہ ہر کھلاڑی کا اپنا مائنڈ سیٹ ہوتا ہے اور اسے سنبھالنے کے لیے کپتان کو ہی لچک کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، اگر میں ٹھنڈے مزاج کا حامل نہ ہوتا تو 2 دن بھی نہیں ٹک پاتا۔ اپنی سست بیٹنگ کے بارے میں انھوں نے کہاکہ اکثر جب میں وکٹ پر پہنچتا ہوں تو صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ وہاں زیادہ دیر قیام کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے اپنی قوت کے مطابق نہیں کھیل سکتا۔
قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت کو دنیا کا مشکل ترین کام قرار دے دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ غیرضروری تنقید جینا دوبھر کردیتی ہے، ٹھنڈے مزاج کا حامل نہ ہوتا تو2دن بھی نہیں ٹک پاتا، مشکل صورتحال کی وجہ سے اکثر دفاعی بیٹنگ پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ مصباح الحق کو کپتانی کرتے5 برس ہوگئے مگر وہ تعریف کے2بول کو ترس رہے ہیں، وہ اچھا کھیلیں اور ٹیم ہار جائے تو انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے، اگر وہ بُرا کھیلیں اور ٹیم جیت بھی جائے تب بھی اعتراضات کا نشانہ وہی بنتے ہیں، اسی وجہ سے وہ پاکستانی ٹیم کی قیادت کو مشکل ترین قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی دنیا میں یہ ٹاپ 5 میں سے ایک مشکل ترین ذمہ داری ہے، آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو پھر تنقید کے تیر برسنا شروع ہوجاتے ہیں، اکثر یہ غیرضروری ہوتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہر دوسرے دن ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے نہ صرف آپ اور ٹیم بلکہ فیملیز بھی متاثر ہوتی ہیں اور کھلاڑیوں کی توجہ اپنے مقصد سے منتشر ہونے لگتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کپتانوں کے خلاف بغاوت کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔ 1980 کی دہائی میں سینئر کھلاڑیوں نے جاوید میانداد کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا، اسی قسم کے رویے کا بعد میں وسیم اکرم کو بھی سامنا کرنا پڑا، 1998 میں عامر سہیل بورڈ سے اختلافات کی وجہ سے ایک ٹیسٹ میچ کی صبح آئے ہی نہیں،2 برس بعد بورڈ نے سیریز کے درمیان میں ہی سعید انور کو قیادت سے ہٹا دیا تھا۔ ورلڈ کپ سے قبل مصباح کیلیے صورتحال زیادہ اچھی نہیں تھی، وہ آؤٹ آف فارم تھے اور پھر انجرڈ بھی ہوگئے لیکن شاہد آفریدی کی صورت میں مضبوط حریف موجود ہونے کے باوجود بورڈ نے ان کا ساتھ دیا۔
مصباح کا کہنا ہے کہ ہر کھلاڑی کا اپنا مائنڈ سیٹ ہوتا ہے اور اسے سنبھالنے کے لیے کپتان کو ہی لچک کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، اگر میں ٹھنڈے مزاج کا حامل نہ ہوتا تو 2 دن بھی نہیں ٹک پاتا۔ اپنی سست بیٹنگ کے بارے میں انھوں نے کہاکہ اکثر جب میں وکٹ پر پہنچتا ہوں تو صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ وہاں زیادہ دیر قیام کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے اپنی قوت کے مطابق نہیں کھیل سکتا۔