بُک ریویو ’’تاریخِ ساھیوال‘‘
’’تاریخِ ساھیوال ‘‘ نے اس خطے کی تاریخ کو مستند حوالوں سے یکجا کر دیا ہے۔
KARACHI:
انکساری کا یہ اظہار کرنے والا جب تاریخ کی ریاضی کے سوالوں جیسی آنکھوں کی تلاش میں نکلا تو تاریخِ ساھیوال مرتب کرگیا۔ جی میں تاریخِ ساھیوال کے تحقیق کارایم اے اشرف (محمد اسلم اشرٖف) کی بات کررہا ہوں، وہ ہرفن مولا تھے، افسانہ نگار تھے، 1979میں اُن کا افسانوی مجموعہ ''نئی دنیا'' چھپا، سری ادب میں طبع آزمائی کی اوربلینک چیک، شمبالو، مادا مگریشی اور آپریشن پائرس جیسے مقبول جاسوسی ناول تخلیق کئے، ساتھ ہی ڈرامہ نگاری اور کالم نویسی بھی کی۔ دورانِ ملازمت کتابت بھی سیکھی اور پارٹ ٹائم اسے وسیلہِ روز گار بنائے رکھا۔
تاریخِ ساھیوال کے ابتدائیہ میں ایم اے اشرف کے بارے میں راؤ شفیق احمد نے لکھا ہے کہ،
اِس عظیم الشان تحقیقی کام میں ہمارا بھی تھوڑا حصہ ہے، وہ کچھ یوں کہ ایم اے اشرف کے گھر پر چند دوستوں جن میں راؤ شفیق احمد، نعیم نقوی، امین رضا، رؤف عطی، ایزد عزیز، وارث انصاری، پروفیسر ارشد میر، پروفیسر اخلاق احمد اور راقم الحروف شامل تھے۔ اکثر اس تحقیقی کام کے سلسلے میں تذکرہ ہوتا۔ مجھ سمیت تمام دوست کچھ نہ کرسکے لیکن تحقیق کا یہ آئیڈیا ایم اے اشرف کے دل کو چھوگیا اور دس بارہ سال کی تحقیق و جستجو اور عرق ریزی سے تاریخ کے ریک پر ایک ضخیم اور مستند حوالہ رکھ کر اس دنیا سے چلا گئے۔
تاریخِ ساھیوال دراصل تاریخِ انسانی ہے اور تاریخِ خطہِ پاکستان بھی ہے۔ تحقیق کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بلا تبصرہ حقائق بیان کردئیے جائیں اور نتیجہ اخذ کرنے کا کام قاری پر چھوڑ دیا جائے۔ایم اے اشرف ساھیوال کا باسی تو نا تھا، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ خطہِ پاکستان کا باسی تو تھا اس لئے اس نے خطہِ پاکستان کی تاریخ لکھی ہے بلکہ یہ خطہِ پاکستان کی بات بھی نہیں ہے یہ تو دنیا کی تہذیبوں کی کہانی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلے انسان کی جائے تولد کی داستان بھی ہے۔
ایم اے اشرف لکھتے ہیں، روسی عالم سالتھیکوف نے جب یہ کہا کہ سرزمینِ ہند اور پنجاب ہی انسان کی جنم بھومی ہے تو کسے خبر تھی کہ یہ آنے والے کل کا سب سے بٹا سچ ثابت ہوگا، قبل ازیں ماہرینِ نسلیات کا خیال تھا کہ سب سے پہلے انسان نے افریقی کی سرزمین پر آنکھ کھولی۔ اس تحقیق میں 26 لاکھ سال پہلے کے وقت کا تعین کیا گیا تھا، پھر چین، جاوا اور وسطی ایشیا کا نام بھی لیا گیا۔ یہ سب اس دور کی باتیں ہیں جب پنجاب کے پہاڑوں میں ماہرینِ ارضیات کی کاوشوں کے نتائج نہیں آئے تھے۔ علمِ ارضیات نے پنجاب کو پہلے انسان کا مقامِ تولید قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں پہلا آدمی ان شمال مغربی پہاڑی دامنوں میں آباد تھا جنہیں سون اور دریائے ہرو سیراب کرتے تھے۔ ماہرینِ نسلیات نے باشعور آدمی یعنی نیندرتھال کی عمر سوا لاکھ سال اور باشعور آدمی جدید انسان کرومیگنان کی عمر پینتیس ہزار سال بیان کی گئی ہے یہ وہی زمانہ ہے جب حضرت آدم کا ظہور ہوا۔
انسان کی معلوم تاریخ کا زمانہ صرف سات ہزار سال بیان کیا جاتا ہے، اس سے پہلے لاکھوں برسوں پر محیط جدوجہد ایک طویل نامعلوم کہانی ہے۔ پاکستان کی دھرتی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں 9 ہزار سال قبل کی تہذیب کا انکشاف ہوچکا ہے جو ہڑپہ تہذیب کے پسِ منظر اور تسلسل کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
ایم اے اشرف نے تہذیبوں کے ارتقا و زوال کی کہانی بیان کرتے کرتے تاریخِ ساھیوال بھی بیان کردی ہے، یہ وہ علاقہ ہے جو نو ہزار سال پرانا تہذیبی تسلسل رکھتا ہے۔
ہڑپہ (ضلع ساھیوال) تہذیب اپنی ہم عصر تہذیبوں، وادیِ دجلہ وفرات (عراق) اور وادیِ نیل (مصر) کے پہلے تو ہم پلہ قرار دی گئیں، لیکن جب تحقیق و جستجو کا دائرہ وسیع ہوا اور آثار و باقیات سامنے آئیں تو ہڑپہ تہذیب کئی اعتبار سے اپنی ہم عصر تہذیبوں پر فوقیت کی حامل قرار دی گئی۔
ایم اے اشرف کی تحقیق و جستجو انہیں ہر کوچہ و قرینہ میں لئے پھری۔ ان کی اس تحقیق و جستجو نے بشریات کے طالب علموں کے لئے ایک جامع ریفرنس بک کی کمی کو دور کردیا۔ یہ ریسرچ ہماری دھرتی کے حوالے سے ہے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے مزاحمتی ہیروز کی سرگرمیوں اور عملی جدوجہد کا تذکرہ اس انداز سے کیا گیا ہے کہ ساھیوال کی شان میں اضافہ ہوا ہے۔ ساھیوال میں آباد اقوام کا تذکرہ بھی ہے، رسوم و رواج بھی ہیں۔
کتاب کے اشاعت کار پنجاب لوک سجاگ کا کہنا ہے کہ اس ریفرنس بک کی اشاعت کا اول و آخر مقصد ریسرچ اسکالرز کو تاریخ کے ریک پر ایک مستند حوالہ فراہم کرنا ہے۔
''تاریخِ ساھیوال'' قدیم اور جدید خطوط کی روشنی میں وہ کتاب ہے جس نے نا صرف ساھیوال کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا بلکہ اس خطے کی تاریخ کو مستند حوالوں سے یکجا کردیا ہے۔ تاریخ، تہذیب و تمدن اور لسانیات و نسلیات کے طلباء کے لئے ایک مستند کتاب ہے۔
بڑے سائز کے 496 صفحات پر مشتمل یہ کتاب راؤ شفیق احمد کے ایم اے اشرف کے نقوشِ انفاس کے ساتھ پنجاب لوک سجاگ برکت مارکیٹ لاہور نے شائع کی ہے ۔ اس کی قیمت صرف 300 روپے رکھی گئی ہے جو کتاب کے سائز اور صفحات کے اعتبار بہت کم ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میں تو حرفِ تہجی بھی نہیں پڑھ سکتا
اسکی آنکھیں ہیں ریاضی کے سوالوں جیسی
انکساری کا یہ اظہار کرنے والا جب تاریخ کی ریاضی کے سوالوں جیسی آنکھوں کی تلاش میں نکلا تو تاریخِ ساھیوال مرتب کرگیا۔ جی میں تاریخِ ساھیوال کے تحقیق کارایم اے اشرف (محمد اسلم اشرٖف) کی بات کررہا ہوں، وہ ہرفن مولا تھے، افسانہ نگار تھے، 1979میں اُن کا افسانوی مجموعہ ''نئی دنیا'' چھپا، سری ادب میں طبع آزمائی کی اوربلینک چیک، شمبالو، مادا مگریشی اور آپریشن پائرس جیسے مقبول جاسوسی ناول تخلیق کئے، ساتھ ہی ڈرامہ نگاری اور کالم نویسی بھی کی۔ دورانِ ملازمت کتابت بھی سیکھی اور پارٹ ٹائم اسے وسیلہِ روز گار بنائے رکھا۔
تاریخِ ساھیوال کے ابتدائیہ میں ایم اے اشرف کے بارے میں راؤ شفیق احمد نے لکھا ہے کہ،
''وہ ساھیوال کا باسی نہ تھا، یہاں آیا، ٹھہرا اور ساھیوال کو اُس کی مکمل پہچان عطا کرکے دنیا سے چلا گیا''
اِس عظیم الشان تحقیقی کام میں ہمارا بھی تھوڑا حصہ ہے، وہ کچھ یوں کہ ایم اے اشرف کے گھر پر چند دوستوں جن میں راؤ شفیق احمد، نعیم نقوی، امین رضا، رؤف عطی، ایزد عزیز، وارث انصاری، پروفیسر ارشد میر، پروفیسر اخلاق احمد اور راقم الحروف شامل تھے۔ اکثر اس تحقیقی کام کے سلسلے میں تذکرہ ہوتا۔ مجھ سمیت تمام دوست کچھ نہ کرسکے لیکن تحقیق کا یہ آئیڈیا ایم اے اشرف کے دل کو چھوگیا اور دس بارہ سال کی تحقیق و جستجو اور عرق ریزی سے تاریخ کے ریک پر ایک ضخیم اور مستند حوالہ رکھ کر اس دنیا سے چلا گئے۔
تاریخِ ساھیوال دراصل تاریخِ انسانی ہے اور تاریخِ خطہِ پاکستان بھی ہے۔ تحقیق کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بلا تبصرہ حقائق بیان کردئیے جائیں اور نتیجہ اخذ کرنے کا کام قاری پر چھوڑ دیا جائے۔ایم اے اشرف ساھیوال کا باسی تو نا تھا، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ خطہِ پاکستان کا باسی تو تھا اس لئے اس نے خطہِ پاکستان کی تاریخ لکھی ہے بلکہ یہ خطہِ پاکستان کی بات بھی نہیں ہے یہ تو دنیا کی تہذیبوں کی کہانی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلے انسان کی جائے تولد کی داستان بھی ہے۔
ایم اے اشرف لکھتے ہیں، روسی عالم سالتھیکوف نے جب یہ کہا کہ سرزمینِ ہند اور پنجاب ہی انسان کی جنم بھومی ہے تو کسے خبر تھی کہ یہ آنے والے کل کا سب سے بٹا سچ ثابت ہوگا، قبل ازیں ماہرینِ نسلیات کا خیال تھا کہ سب سے پہلے انسان نے افریقی کی سرزمین پر آنکھ کھولی۔ اس تحقیق میں 26 لاکھ سال پہلے کے وقت کا تعین کیا گیا تھا، پھر چین، جاوا اور وسطی ایشیا کا نام بھی لیا گیا۔ یہ سب اس دور کی باتیں ہیں جب پنجاب کے پہاڑوں میں ماہرینِ ارضیات کی کاوشوں کے نتائج نہیں آئے تھے۔ علمِ ارضیات نے پنجاب کو پہلے انسان کا مقامِ تولید قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں پہلا آدمی ان شمال مغربی پہاڑی دامنوں میں آباد تھا جنہیں سون اور دریائے ہرو سیراب کرتے تھے۔ ماہرینِ نسلیات نے باشعور آدمی یعنی نیندرتھال کی عمر سوا لاکھ سال اور باشعور آدمی جدید انسان کرومیگنان کی عمر پینتیس ہزار سال بیان کی گئی ہے یہ وہی زمانہ ہے جب حضرت آدم کا ظہور ہوا۔
انسان کی معلوم تاریخ کا زمانہ صرف سات ہزار سال بیان کیا جاتا ہے، اس سے پہلے لاکھوں برسوں پر محیط جدوجہد ایک طویل نامعلوم کہانی ہے۔ پاکستان کی دھرتی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں 9 ہزار سال قبل کی تہذیب کا انکشاف ہوچکا ہے جو ہڑپہ تہذیب کے پسِ منظر اور تسلسل کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
ایم اے اشرف نے تہذیبوں کے ارتقا و زوال کی کہانی بیان کرتے کرتے تاریخِ ساھیوال بھی بیان کردی ہے، یہ وہ علاقہ ہے جو نو ہزار سال پرانا تہذیبی تسلسل رکھتا ہے۔
ہڑپہ (ضلع ساھیوال) تہذیب اپنی ہم عصر تہذیبوں، وادیِ دجلہ وفرات (عراق) اور وادیِ نیل (مصر) کے پہلے تو ہم پلہ قرار دی گئیں، لیکن جب تحقیق و جستجو کا دائرہ وسیع ہوا اور آثار و باقیات سامنے آئیں تو ہڑپہ تہذیب کئی اعتبار سے اپنی ہم عصر تہذیبوں پر فوقیت کی حامل قرار دی گئی۔
ایم اے اشرف کی تحقیق و جستجو انہیں ہر کوچہ و قرینہ میں لئے پھری۔ ان کی اس تحقیق و جستجو نے بشریات کے طالب علموں کے لئے ایک جامع ریفرنس بک کی کمی کو دور کردیا۔ یہ ریسرچ ہماری دھرتی کے حوالے سے ہے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے مزاحمتی ہیروز کی سرگرمیوں اور عملی جدوجہد کا تذکرہ اس انداز سے کیا گیا ہے کہ ساھیوال کی شان میں اضافہ ہوا ہے۔ ساھیوال میں آباد اقوام کا تذکرہ بھی ہے، رسوم و رواج بھی ہیں۔
کتاب کے اشاعت کار پنجاب لوک سجاگ کا کہنا ہے کہ اس ریفرنس بک کی اشاعت کا اول و آخر مقصد ریسرچ اسکالرز کو تاریخ کے ریک پر ایک مستند حوالہ فراہم کرنا ہے۔
''تاریخِ ساھیوال'' قدیم اور جدید خطوط کی روشنی میں وہ کتاب ہے جس نے نا صرف ساھیوال کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا بلکہ اس خطے کی تاریخ کو مستند حوالوں سے یکجا کردیا ہے۔ تاریخ، تہذیب و تمدن اور لسانیات و نسلیات کے طلباء کے لئے ایک مستند کتاب ہے۔
بڑے سائز کے 496 صفحات پر مشتمل یہ کتاب راؤ شفیق احمد کے ایم اے اشرف کے نقوشِ انفاس کے ساتھ پنجاب لوک سجاگ برکت مارکیٹ لاہور نے شائع کی ہے ۔ اس کی قیمت صرف 300 روپے رکھی گئی ہے جو کتاب کے سائز اور صفحات کے اعتبار بہت کم ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔