فلم سے حقیقت تک کا سفر
آپ کہیں گے پاکستان کی فلموں میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے، تو جناب اسی بات کا تو رونا ہے۔
ہالی ووڈ کی فلموں میں اداکار یا اداکارائیں جو لباس پہنتی ہیں وہ لباس پہننے آپ کو نیویارک اور برطانیہ کی سڑکوں پر عام مرد و خواتین بھی نظرآجائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بالی ووڈ کی فلموں میں مرد و زن کو جس لباس میں دکھایا جاتا ہے وہ لباس بھارت کے کس کونے میں پہنا جاتا ہے؟ ہندوستان کا وہ کونسا علاقہ ہے جہاں سٹرکوں پر لڑکیاں زیر جامہ پہن کر ناچتی ہیں؟
جی ہاں آپ کہیں گے پاکستان کی فلموں میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے، تو جناب اسی بات کا تو رونا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کچھ لوگ بالی ووڈ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے یہی چیزیں پاکستان میں لارہے ہیں یا شاید لاچکے ہیں۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ہالی ووڈ میں جو اسپائیڈر مین چھتیں پھلانگتا ہے یا سپرمین ہوا میں اڑتا ہے، اس طرح کون سا آدمی ہوا میں اڑتا ہے یا ہاتھ سے جالا نکال کر دیواروں پہ کرتب دکھاتا ہے؟
بے شک ہالی ووڈ کی فلموں میں اسپائیڈر مین چھتیں پھلانگتا ہے لیکن حقیقت میں امریکہ و برطانیہ کے کسی مرد میں یہ خوبی نہیں ہے، مگر یہ بھی تو دیکھئے نا جب وہ چھتیں پھلانگ کر گھر کو جارہا ہوتا ہے تو ایسے لباس میں ہوتا ہے جو کہ ان کی ثقافت کو ظاہر کرتا ہے، جو وہاں کے عام آدمی کا لباس ہوتا ہے، مگر بالی ووڈ کی فلموں میں جو دنیا دکھائی جاتا ہے حقیقت میں اسکا نظارہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتا ہے۔
ہالی ووڈ اگر اپنی فلموں میں اسپائیڈر مین سپرمین دکھاتا ہے تو وہ ایک سائنس فکشن موضوع ہوتا ہے جس میں کہانی کا پلاٹ اسقدر مضبوط ہوتا ہے کہ دیکھنے والا فلم میکر کے ساتھ رضامند ہوتا چلا جاتا ہے کہ واقعی ایسا ہوسکتا ہے۔ مثلاً اسپائیڈرمین اگر چھتیں پھلانگتا ہے تو اسی لئے کہ وہ ایک نارمل لڑکا نہیں رہا ہے وہ سپر ہیرو بن چکا ہے۔ لیکن بالی ووڈ فلموں میں ایک نارمل آدمی سینکڑوں لوگوں کو ہوا میں اُچھال کر روئی کی طرح کیسے دھنک رہا ہوتا ہے؟ وہ تو سپر ہیرو نہیں ہوتا؟ وہ تو نارمل پانچ فٹ چھ نچ قد کا آدمی ہوتا ہے۔ ہیروئن سڑک پر جس لباس میں جارہی ہوتی ہے وہ لباس پورے پاکستان یا بھارت کے کس علاقے کی خواتین پہنتی ہیں؟
بھارت کا وہ کونسا علاقہ ہے جس میں اگر آپ کسی لڑکی کے پیچھے جاکر گانا گائیں تو اردگرد سے سینکڑوں لوگ نکل کر آپ کی کُٹ لگانے کے بجائے آپ کے ساتھ نہ صرف گانا بھی گائیں گے بلکہ جس انداز میں آپ ڈانس کریں گے اس ڈانس کے سارے اسٹیپ بھی ان کو آتے ہوں گے؟ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فلم انڈسٹری دنیا کی ان چند فلم انڈسٹریوں میں سے ایک ہے جس میں عورت کو صرف سیکس سمبل کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کی اپنی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر 20 منٹ میں ایک عورت کے ساتھ ریپ ہوتا ہے۔ ریپ کا تعلق جنسی ہیجان سے ہے اور بی بی سی رپورٹ کے مطابق بالی ووڈ فلموں میں عورت کو صرف جنسی کھلونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سارے کنکشن کے باوجود کچھ لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ بالی ووڈ کو اپنی روش بدلنی چاہیئے۔ بھارت کا اپنا ایک کلچر ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ ہمیں ان کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں تو یہ بات بالکل درست ہے، مگر سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو اندھا دھند بالی ووڈ کی نقل کررہے ہیں ان کا کیا کیا جائے؟
بھارتی فلم انڈسٹری تمام تر بزنس کے باوجود سیکس آئی کون اور چربہ فلم انڈسٹری مانی جاتی ہے، کیونکہ اسکی فلموں کی اکثر کہانیاں اور میوزک ہالی ووڈ سے چوری شدہ ہوتا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہمسائے میں چائنا اور ایران کی دو ایسی فلم انڈسٹریاں ہیں جن کا لوہا دنیا میں مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کا جم غفیر پایا جاتا ہے جو ان کامیاب انڈسٹریوں کی پیروی کرنے یا ان سے سیکھنے کے بجائے بھارت کی فلم انڈسٹری کی پیروی کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جس کا پاکستان سے تو دور کی بات بھارت کے اپنے کلچر یا ملک سے بھی کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے۔
کیا عورت کو تبھی آزاد تسلیم کیا جائے گا جب وہ زیر جامہ پہن کر فلم میں ناچتی نظر آئے گی؟ میری پاک و ہند کے فلم میکرز سے گزارش ہے کہ خدارا عورت ایک باوقار اور مرد کے برابر حقوق رکھتی ہے، اسے فلموں میں جنسی کھیلونے کے طور پر پیش کرنا بند کیا جائے۔ میں پاکستان کے میڈیا اور فلم میکرز حضرات سے بھی گزارش کروں گا کہ اگر آپ نے اچھی فلم بنانی ہے تو بھارت کی چربہ فلم انڈسٹری کی پیروی کرنے کے بجائے دنیا کی بہترین فلم انڈسٹریوں کی پیروی کریں، اُن سے سیکھیں اور پھر فلم میں وہ دکھائیں جو پاکستان کا اصل کلچر ہے۔
اگر آپ یونہی اندھا دھند بالی ووڈ کی پیروی کرتے رہے تو پھر آپ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح خواتین کے لیے غیر محفوظ بنادیں گے۔ کیونکہ جب آپ فلم میں عورت کو جنسی کھلونے کے طور پر پیش کریں گے تو فلم دیکھنے والے بھی نفسیاتی طور پر حقیقت میں عورت کو جنسی کھلونا سمجھ کر ہی اس پر جھپٹیں گے ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جی ہاں آپ کہیں گے پاکستان کی فلموں میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے، تو جناب اسی بات کا تو رونا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کچھ لوگ بالی ووڈ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے یہی چیزیں پاکستان میں لارہے ہیں یا شاید لاچکے ہیں۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ہالی ووڈ میں جو اسپائیڈر مین چھتیں پھلانگتا ہے یا سپرمین ہوا میں اڑتا ہے، اس طرح کون سا آدمی ہوا میں اڑتا ہے یا ہاتھ سے جالا نکال کر دیواروں پہ کرتب دکھاتا ہے؟
بے شک ہالی ووڈ کی فلموں میں اسپائیڈر مین چھتیں پھلانگتا ہے لیکن حقیقت میں امریکہ و برطانیہ کے کسی مرد میں یہ خوبی نہیں ہے، مگر یہ بھی تو دیکھئے نا جب وہ چھتیں پھلانگ کر گھر کو جارہا ہوتا ہے تو ایسے لباس میں ہوتا ہے جو کہ ان کی ثقافت کو ظاہر کرتا ہے، جو وہاں کے عام آدمی کا لباس ہوتا ہے، مگر بالی ووڈ کی فلموں میں جو دنیا دکھائی جاتا ہے حقیقت میں اسکا نظارہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتا ہے۔
ہالی ووڈ اگر اپنی فلموں میں اسپائیڈر مین سپرمین دکھاتا ہے تو وہ ایک سائنس فکشن موضوع ہوتا ہے جس میں کہانی کا پلاٹ اسقدر مضبوط ہوتا ہے کہ دیکھنے والا فلم میکر کے ساتھ رضامند ہوتا چلا جاتا ہے کہ واقعی ایسا ہوسکتا ہے۔ مثلاً اسپائیڈرمین اگر چھتیں پھلانگتا ہے تو اسی لئے کہ وہ ایک نارمل لڑکا نہیں رہا ہے وہ سپر ہیرو بن چکا ہے۔ لیکن بالی ووڈ فلموں میں ایک نارمل آدمی سینکڑوں لوگوں کو ہوا میں اُچھال کر روئی کی طرح کیسے دھنک رہا ہوتا ہے؟ وہ تو سپر ہیرو نہیں ہوتا؟ وہ تو نارمل پانچ فٹ چھ نچ قد کا آدمی ہوتا ہے۔ ہیروئن سڑک پر جس لباس میں جارہی ہوتی ہے وہ لباس پورے پاکستان یا بھارت کے کس علاقے کی خواتین پہنتی ہیں؟
بھارت کا وہ کونسا علاقہ ہے جس میں اگر آپ کسی لڑکی کے پیچھے جاکر گانا گائیں تو اردگرد سے سینکڑوں لوگ نکل کر آپ کی کُٹ لگانے کے بجائے آپ کے ساتھ نہ صرف گانا بھی گائیں گے بلکہ جس انداز میں آپ ڈانس کریں گے اس ڈانس کے سارے اسٹیپ بھی ان کو آتے ہوں گے؟ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فلم انڈسٹری دنیا کی ان چند فلم انڈسٹریوں میں سے ایک ہے جس میں عورت کو صرف سیکس سمبل کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کی اپنی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر 20 منٹ میں ایک عورت کے ساتھ ریپ ہوتا ہے۔ ریپ کا تعلق جنسی ہیجان سے ہے اور بی بی سی رپورٹ کے مطابق بالی ووڈ فلموں میں عورت کو صرف جنسی کھلونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سارے کنکشن کے باوجود کچھ لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ بالی ووڈ کو اپنی روش بدلنی چاہیئے۔ بھارت کا اپنا ایک کلچر ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ ہمیں ان کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں تو یہ بات بالکل درست ہے، مگر سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو اندھا دھند بالی ووڈ کی نقل کررہے ہیں ان کا کیا کیا جائے؟
بھارتی فلم انڈسٹری تمام تر بزنس کے باوجود سیکس آئی کون اور چربہ فلم انڈسٹری مانی جاتی ہے، کیونکہ اسکی فلموں کی اکثر کہانیاں اور میوزک ہالی ووڈ سے چوری شدہ ہوتا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہمسائے میں چائنا اور ایران کی دو ایسی فلم انڈسٹریاں ہیں جن کا لوہا دنیا میں مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کا جم غفیر پایا جاتا ہے جو ان کامیاب انڈسٹریوں کی پیروی کرنے یا ان سے سیکھنے کے بجائے بھارت کی فلم انڈسٹری کی پیروی کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جس کا پاکستان سے تو دور کی بات بھارت کے اپنے کلچر یا ملک سے بھی کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے۔
کیا عورت کو تبھی آزاد تسلیم کیا جائے گا جب وہ زیر جامہ پہن کر فلم میں ناچتی نظر آئے گی؟ میری پاک و ہند کے فلم میکرز سے گزارش ہے کہ خدارا عورت ایک باوقار اور مرد کے برابر حقوق رکھتی ہے، اسے فلموں میں جنسی کھیلونے کے طور پر پیش کرنا بند کیا جائے۔ میں پاکستان کے میڈیا اور فلم میکرز حضرات سے بھی گزارش کروں گا کہ اگر آپ نے اچھی فلم بنانی ہے تو بھارت کی چربہ فلم انڈسٹری کی پیروی کرنے کے بجائے دنیا کی بہترین فلم انڈسٹریوں کی پیروی کریں، اُن سے سیکھیں اور پھر فلم میں وہ دکھائیں جو پاکستان کا اصل کلچر ہے۔
اگر آپ یونہی اندھا دھند بالی ووڈ کی پیروی کرتے رہے تو پھر آپ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح خواتین کے لیے غیر محفوظ بنادیں گے۔ کیونکہ جب آپ فلم میں عورت کو جنسی کھلونے کے طور پر پیش کریں گے تو فلم دیکھنے والے بھی نفسیاتی طور پر حقیقت میں عورت کو جنسی کھلونا سمجھ کر ہی اس پر جھپٹیں گے ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔