پاکستانی ’اسٹارز‘ کو سنگاکارا کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت

اگر سری لنکا کوارٹر فائنل میں بھی ہار جاتا ہے تو کمار سنگاکارا کا سر فخر سے بلند ہوگا۔


فہد کیہر March 12, 2015
ایک سوال جو سنگاکارا کی کارکردگی دیکھ کر ذہن میں کلبلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ آخر پاکستان میں ایسی مثالیں کیوں نہیں ملتیں؟ فوٹو: اے ایف پی

لاہور: اگر کرکٹ کی نظر سے دیکھا جائے تو سری لنکا کے کمار سنگاکارا ''قبر میں پاؤں ٹکائے بیٹھے''ہیں، یعنی اپنی کرکٹ کے بالکل آخری ایام میں ہیں اور عالمی کپ 2015ء ہے بھی اُن کا آخری ون ڈے ٹورنامنٹ، لیکن کارکردگی دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے عروج پر ہیں اور ایسے ایسے ریکارڈز اپنے نام کررہے ہیں، جو پچھلی تین دہائیوں میں کوئی نہیں توڑ سکا تھا۔

ورلڈ کپ کے دوران کمار سنگاکارا مسلسل چار میچز میں سنچریاں بنانے والے تاریخ کے پہلے بلے باز بن گئے ہیں۔ ان سے قبل کبھی کوئی کھلاڑی 3 سے زیادہ بار 100 رنز کا ہندسہ عبور نہیں کر پایا تھا۔ 1982ء میں پاکستان کے عظیم بلے باز ظہیر عباس نے بھارت کے خلاف تین سنچریاں بنائی تھیں، جسے 10 سال بعد ہم وطن سعید انور نے برابر کیا۔ ان کے بعد چار مزید بلے باز یہ ریکارڈ برابر کر چکے ہیں لیکن توڑ کوئی نہیں پایا یہاں تک کہ سنگاکارا نے اپنے آخری چند ون ڈے مقابلوں میں اسے توڑ دیا۔

سنگاکارا نے جاری ورلڈ کپ میں اپنی پہلی سنچری بنگلہ دیش کے خلاف ملبورن میں بنائی، جہاں 105 ناٹ آؤٹ رنز بنانے کے بعد انہوں نے ویلنگٹن میں انگلینڈ کے خلاف ناقابل شکست 117 رنز بنائے۔ پھر آسٹریلیا کے خلاف اہم مقابلے میں 104 رنز بنا کر عالمی ریکارڈ برابر کیا اور اب اسکاٹ لینڈ کے سامنے 124 رنز کی اننگز کھیل کر اس مقام پر قدم رکھا جہاں آج تک کوئی بلے باز نہیں پہنچا تھا۔ سمجھ نہیں آتی کہ سنگاکارا آخر کرکٹ چھوڑ کیوں رہے ہیں؟ گزشتہ سال سنگاکارا نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تو سری لنکا نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیت کر انہیں شایانِ شان انداز میں الوداع کہا۔ اب مسلسل دو ورلڈ کپ فائنل مقابلوں میں پہنچنے کے بعد کیا اس بار سری لنکا کو عالمی چیمپئن بنا پائیں گے؟ اس کے جواب کے لیے انتظار کرنا پڑے گا لیکن ایک سوال جو سنگاکارا کی کارکردگی دیکھ کر ذہن میں کلبلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ آخر پاکستان میں ایسی مثالیں کیوں نہیں ملتیں؟

اگر صلاحیتوں کی بات کی جائے تو پاکستان میں سری لنکا سے کہیں زیادہ باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں، اگر پیسے کی بات کی جائے تو پاکستان کرکٹ بورڈ سری لنکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ امیر ہے، اگر بدعنوانی اور بدانتظامی کو وجہ ٹھیرائیں تو سری لنکا میں بھی یہ مسائل اتنے ہی ہیں جتنے کہ پاکستان میں، اگر کھلاڑیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کو قصوروار ٹھیرائیں تو سری لنکا میں تو کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں لیکن کھلاڑی اپنے بنیادی ترین حق سے محروم رہتے ہیں، اس کے باوجود دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کی کارکردگی اور مقابلوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

آخری عالمی کپ کھیلنے والے سری لنکا کے کھلاڑیوں کو دیکھ لیں اور پھر اسی مقام پر موجود پاکستان کے کھلاڑیوں پر نظر ڈالیں۔ ایک ''اسٹار'' پاکستانی آل راؤنڈر، جن کا یہ آخری عالمی کپ ہے، اب تک نہ ہی بیٹنگ میں کوئی جادو جگا پائے ہیں اور نہ ہی باؤلنگ میں کوئی کارِ نمایاں انجام دیا ہے اور اگر، خاکم بدہن، پاکستان کی عالمی کپ مہم اگلے ہی مقابلے میں تمام ہوگئی تو انہیں مایوس کن اعدادوشمار کے ساتھ ہی وطن واپس لوٹنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایک انتہائی تجربہ کار بلے باز بھی ہیں، جن کی عالمی کپ میں کارکردگی اتنی نمایاں نہیں رہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی جگہ ایک نوجوان کے ہاتھوں کھو بیٹھے۔ دوسری جانب اگر سری لنکا کوارٹر فائنل میں بھی ہار جاتا ہے تو کمار سنگاکارا کا سر فخر سے بلند ہوگا کہ انہوں نے بہترین کارکردگی دکھائی، حتی الامکان کوشش کی کہ ملک جیتے، باقی نتیجہ تو قسمت کی بات ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عظیم ترین کھلاڑی بھی کرکٹ چھوڑنے کے لیے درست وقت کا انتخاب نہیں کرپاتے۔ جاوید میانداد سے لے کر انضمام الحق، وسیم اکرم سے لے کر شعیب اختر اور وقار یونس سے لے کر ثقلین مشتاق تک، ہر لیجنڈ کھلاڑی نے تب کرکٹ کو خیرباد کہا جب یا تو وقت گزر چکا تھا، یا پھر ان کے پاس کرکٹ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ عالمی کپ 2015ء کے بعد ون ڈے کرکٹ چھوڑنے والے پاکستان کھلاڑیوں کو اپنی کارکردگی کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا، بصورت ان کا نام بھی اسی فہرست میں ہوگا جو ''بہت بے آبرو ہوکر'' نکالے گئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |