طاقت اور اقتدار کی سیاست
پاکستان کی سیاست کا ایک مجموعی مزاج طاقت کے حصول اور اقتدار کی حکمرانی کے گرد محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
پاکستان کی سیاست کا ایک مجموعی مزاج طاقت کے حصول اور اقتدار کی حکمرانی کے گرد محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ سیاست کے کھیل میں اقتدار کا حصول بنیادی جز ہوتا ہے۔ کیونکہ بغیر سیاسی طاقت اور اقتدار کے سیاسی ایجنڈے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوتا ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ آپ سیاسی طاقت اور اقتدار کے حصول میں اپنی سیاست کے نظریات، اصول ، پالیسی ، منشور اور اپنی سیاسی کمٹمنٹ پر قائم رہتے ہیں یا سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر ہماری سیاست میں یہ خوشنما نعرے، اصول ، قانون کی حکمرانی ، جمہوری روایات اور اخلاقی سیاست کی روایات کا عمل اب محض کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کی جگہ طاقت کی سیاست نے حاصل کرلی ہے ، اور اس کی بنیاد جائز و ناجائز دونوں عوامل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست کے مسائل میں جمہوریت کا عمل بتدریج کمزور ہوکر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے ۔ایک زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی سیاست غالب تھی ۔ یہ وہ دور تھا جہاں علمی اور فکری مباحث اور سیاسی فکر کو بنیاد بنا کر سیاسی فریقین اپنی اپنی جدوجہد کر رہے تھے۔
مزدور، طلبہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں سمیت میڈیا کے محاذ پرکافی سرگرم سیاسی جدوجہد دکھائی دیتی تھی۔اس جدوجہد میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے محاذ پر سخت مصائب بھی برداشت کیے اور ان مصائب کی بنیاد پر ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔اہل دانش کی سطح پر بھی جو فکری مواد تقریروں ، تحریروں کی صورت میں سامنے آیا ، اس نے لوگوں میں فکر کی بنیاد پر تبدیلی کی جدوجہد کو آگے بھی بڑھایا۔
لیکن اب یہ کام کافی حد تک کمزور ہوگیا ہے کیونکہ ہر طرف طاقت کا راج ہے ۔ وہ طبقہ جو کل تک سیاسی جدوجہد کو بنیاد بنا کر ایک منصفانہ نظام کی جدوجہد کا حصہ تھا، اب وہ طاقت کے حصول کی جنگ کو اپنی سیاست کا بنیادی نقطہ بنا کر ایک نئی فکر کی سیاست کو تقویت دے رہا ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے بھی ہوا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی کمزوری، قیادت کا کمزور فہم اور سیاست کو کاروبار کا ذریعہ سمجھنے کی حکمت نے پوری سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچایا۔سماج کو تبدیل کرنے میں ایک بڑی ذمے داری سیاسی جماعتوں اور سیاسی اشرافیہ کے ساتھ جڑی ہوتی ہے لیکن یہ دونوں فریق اجتماعی طور پر کمزور ہوئے ہیں ۔
بنیادی طور پر ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت جماعتوںکے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط بناکر اپنا کنٹرول چاہتی ہے ۔ اسی طرز عمل میں خاندانی سیاست اور طاقت کو خاندان یا چند وفادار لوگوں تک محدود کرنے کی روش نے سیاسی جماعتوں کی اہمیت اور ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، اس صورتحال کا تجزیہ کیے بغیر ہم اصلاح و احوال کا عمل کیسے شروع کرسکتے ہیں ۔آج ہماری سیاست میں کامیاب سیاسی دان اس کو سمجھا جاتا ہے جو بہت زیادہ شاطر، پس پردہ قوتوں کے ساتھ بہت روابط، جوڑ توڑ کا ماہراور موقع پرست ہوکر اپنے کارڈ اچھا کھیلتا ہے ۔
ہماری سیاسی اشرافیہ میں بھی اسی طرز کی قیادتوں کا سیاسی جواز پیش کیا جاتا ہے ۔ جب ان کو دلیل دی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہورہا ہے تو ان کی منطق ہوتی ہے کہ آپ لوگ خوابی دنیا کے باشندے ہیں اور حقائق سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ بات بجا ہے کہ ہمارے حقائق تلخ ہیں ، لیکن ان تلخ حقائق کو ہمیں بدلنا ہے یا ان ہی خرابیوں کو اور زیادہ سیاسی جواز و طاقت فراہم کرکے ہمیں سیاست کو اور زیاد ہ آلودہ کرنا ہے۔
اگر سیاسی اشرافیہ کا طبقہ معاشرے میں موجود خرابیوں کے سامنے دیوار بننے اور لوگوں کو اس بیماری کے خلاف کھڑا کرنے کے بجائے خود ان مسائل کا حصہ بن کر اپنی طاقت میں اضافہ کرنا شروع کردے تو معاشرہ بانجھ پن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ملک کی سیاست میں 2007ء کے بعد ایک مفاہمتی سیاست کا نیا بیج بویا گیا ۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کا عمل جمہوری سیاست کو مضبوط کرنے کا سبب بنے گا لیکن عملی طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن( کے درمیان شروع ہونے والے مفاہمت کے کھیل میں دیگر جماعتیں بھی حصہ دار بنیں ۔ لیکن نتیجہ محض اقتدار اور جوڑ توڑ کی سیاست میں اپنے اپنے سیاسی حصہ کی جنگ کا تھا ۔
اس نئی مفاہمت کے کھیل نے عملی طور پر ملک سے حزب اختلاف کے کردار کو محدود کردیا اور سب کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کی سیاست کے حصہ دار بن گئے ہیں ۔ اب جب بھی سیاسی محاذ گرم ہوتا ہے تو سارے بڑے چھوٹے فریق ایک دوسرے کی حمایت اور مخالفت میں اپنے اپنے سیاسی کارڈ کھیلتے ہیں ، اور ان کارڈز کا تعلق محض ان کی ذاتی اور خاندانی سیاست تک محدود ہوتا ہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کی روائتی اور طاقت کی سیاست کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑے ہوں ۔ لیکن یہ لڑائی کسی بندوق کے زور پر نہیں بلکہ ہمیں پرامن سیاسی جدوجہد اور منظم و فعال مزاحمت کے ساتھ اپنی تحریک کو آگے بڑھانا ہوگا۔یہ کام آسان نہیں ، لیکن مشکل بھی نہیں ۔ کیونکہ جہاں جہاں سماج بدلتے ہیں اس میں بنیادی بات یہ ہی ہوتی ہے کہ لوگ جو طاقت کی سیاست کے نتیجے میں استحصال کا شکار ہوتے ہیں، وہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب ہمیں اپنے آپ کو بھی بدلنا ہے ۔
اگرچہ تبدیلی کا عمل سیاسی جماعتوں اور قیادت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ، لیکن سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کو بیدار کرنا اور ان کی روائتی سیاست کے سامنے دباؤ کی سیاست بڑھانا بھی ہماری ہی ذمے داری ہے ۔ اس لیے اگر ہم اپنی طاقت کو پہچانیں اور واقعی ایک ایسی سیاسی جدوجہد کا حصہ بنیں جو واقعی سماج کو بدلنا چاہتے ہیں تو اس کا فائدہ انفرادی سطح پر لوگوں کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو مہذب اور ذمے دار معاشرے میں تبدیل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
عمومی طور پر ہماری سیاست میں یہ خوشنما نعرے، اصول ، قانون کی حکمرانی ، جمہوری روایات اور اخلاقی سیاست کی روایات کا عمل اب محض کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کی جگہ طاقت کی سیاست نے حاصل کرلی ہے ، اور اس کی بنیاد جائز و ناجائز دونوں عوامل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست کے مسائل میں جمہوریت کا عمل بتدریج کمزور ہوکر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے ۔ایک زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی سیاست غالب تھی ۔ یہ وہ دور تھا جہاں علمی اور فکری مباحث اور سیاسی فکر کو بنیاد بنا کر سیاسی فریقین اپنی اپنی جدوجہد کر رہے تھے۔
مزدور، طلبہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں سمیت میڈیا کے محاذ پرکافی سرگرم سیاسی جدوجہد دکھائی دیتی تھی۔اس جدوجہد میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے محاذ پر سخت مصائب بھی برداشت کیے اور ان مصائب کی بنیاد پر ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔اہل دانش کی سطح پر بھی جو فکری مواد تقریروں ، تحریروں کی صورت میں سامنے آیا ، اس نے لوگوں میں فکر کی بنیاد پر تبدیلی کی جدوجہد کو آگے بھی بڑھایا۔
لیکن اب یہ کام کافی حد تک کمزور ہوگیا ہے کیونکہ ہر طرف طاقت کا راج ہے ۔ وہ طبقہ جو کل تک سیاسی جدوجہد کو بنیاد بنا کر ایک منصفانہ نظام کی جدوجہد کا حصہ تھا، اب وہ طاقت کے حصول کی جنگ کو اپنی سیاست کا بنیادی نقطہ بنا کر ایک نئی فکر کی سیاست کو تقویت دے رہا ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے بھی ہوا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی کمزوری، قیادت کا کمزور فہم اور سیاست کو کاروبار کا ذریعہ سمجھنے کی حکمت نے پوری سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچایا۔سماج کو تبدیل کرنے میں ایک بڑی ذمے داری سیاسی جماعتوں اور سیاسی اشرافیہ کے ساتھ جڑی ہوتی ہے لیکن یہ دونوں فریق اجتماعی طور پر کمزور ہوئے ہیں ۔
بنیادی طور پر ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت جماعتوںکے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط بناکر اپنا کنٹرول چاہتی ہے ۔ اسی طرز عمل میں خاندانی سیاست اور طاقت کو خاندان یا چند وفادار لوگوں تک محدود کرنے کی روش نے سیاسی جماعتوں کی اہمیت اور ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، اس صورتحال کا تجزیہ کیے بغیر ہم اصلاح و احوال کا عمل کیسے شروع کرسکتے ہیں ۔آج ہماری سیاست میں کامیاب سیاسی دان اس کو سمجھا جاتا ہے جو بہت زیادہ شاطر، پس پردہ قوتوں کے ساتھ بہت روابط، جوڑ توڑ کا ماہراور موقع پرست ہوکر اپنے کارڈ اچھا کھیلتا ہے ۔
ہماری سیاسی اشرافیہ میں بھی اسی طرز کی قیادتوں کا سیاسی جواز پیش کیا جاتا ہے ۔ جب ان کو دلیل دی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہورہا ہے تو ان کی منطق ہوتی ہے کہ آپ لوگ خوابی دنیا کے باشندے ہیں اور حقائق سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ بات بجا ہے کہ ہمارے حقائق تلخ ہیں ، لیکن ان تلخ حقائق کو ہمیں بدلنا ہے یا ان ہی خرابیوں کو اور زیادہ سیاسی جواز و طاقت فراہم کرکے ہمیں سیاست کو اور زیاد ہ آلودہ کرنا ہے۔
اگر سیاسی اشرافیہ کا طبقہ معاشرے میں موجود خرابیوں کے سامنے دیوار بننے اور لوگوں کو اس بیماری کے خلاف کھڑا کرنے کے بجائے خود ان مسائل کا حصہ بن کر اپنی طاقت میں اضافہ کرنا شروع کردے تو معاشرہ بانجھ پن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ملک کی سیاست میں 2007ء کے بعد ایک مفاہمتی سیاست کا نیا بیج بویا گیا ۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کا عمل جمہوری سیاست کو مضبوط کرنے کا سبب بنے گا لیکن عملی طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن( کے درمیان شروع ہونے والے مفاہمت کے کھیل میں دیگر جماعتیں بھی حصہ دار بنیں ۔ لیکن نتیجہ محض اقتدار اور جوڑ توڑ کی سیاست میں اپنے اپنے سیاسی حصہ کی جنگ کا تھا ۔
اس نئی مفاہمت کے کھیل نے عملی طور پر ملک سے حزب اختلاف کے کردار کو محدود کردیا اور سب کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کی سیاست کے حصہ دار بن گئے ہیں ۔ اب جب بھی سیاسی محاذ گرم ہوتا ہے تو سارے بڑے چھوٹے فریق ایک دوسرے کی حمایت اور مخالفت میں اپنے اپنے سیاسی کارڈ کھیلتے ہیں ، اور ان کارڈز کا تعلق محض ان کی ذاتی اور خاندانی سیاست تک محدود ہوتا ہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کی روائتی اور طاقت کی سیاست کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑے ہوں ۔ لیکن یہ لڑائی کسی بندوق کے زور پر نہیں بلکہ ہمیں پرامن سیاسی جدوجہد اور منظم و فعال مزاحمت کے ساتھ اپنی تحریک کو آگے بڑھانا ہوگا۔یہ کام آسان نہیں ، لیکن مشکل بھی نہیں ۔ کیونکہ جہاں جہاں سماج بدلتے ہیں اس میں بنیادی بات یہ ہی ہوتی ہے کہ لوگ جو طاقت کی سیاست کے نتیجے میں استحصال کا شکار ہوتے ہیں، وہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب ہمیں اپنے آپ کو بھی بدلنا ہے ۔
اگرچہ تبدیلی کا عمل سیاسی جماعتوں اور قیادت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ، لیکن سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کو بیدار کرنا اور ان کی روائتی سیاست کے سامنے دباؤ کی سیاست بڑھانا بھی ہماری ہی ذمے داری ہے ۔ اس لیے اگر ہم اپنی طاقت کو پہچانیں اور واقعی ایک ایسی سیاسی جدوجہد کا حصہ بنیں جو واقعی سماج کو بدلنا چاہتے ہیں تو اس کا فائدہ انفرادی سطح پر لوگوں کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو مہذب اور ذمے دار معاشرے میں تبدیل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔