متفقہ چیئرمین سینیٹ
پاکستان کی جمہوری و پارلیمانی تاریخ میں سینیٹ یعنی ایوان بالا کے نصف اراکین کا الیکشن ہر تین سال بعد ہوتا ہے
پاکستان کی جمہوری و پارلیمانی تاریخ میں سینیٹ یعنی ایوان بالا کے نصف اراکین کا الیکشن ہر تین سال بعد ہوتا ہے جو ایک معمول کی کارروائی رہا ہے لیکن اس مرتبہ ایوان بالا کے انتخابات سے قبل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اراکین اسمبلی کی ہارس ٹریڈنگ، خرید و فروخت، دھاندلی و بدعنوانی کا ایسا شور و غل برپا ہوا کہ جس نے جمہوری و پارلیمانی اخلاقیات و اقدار کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا، حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اپنے اراکین اسمبلی کی ''ہارس ٹریڈنگ'' کا سب سے زیادہ خطرہ تھا ۔
14 اگست 2014ء کے لانگ مارچ اور ڈی چوک پر دھرنا دینے سے لے کر سینیٹ انتخابات سے قبل تک تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری و دیگر رہنماؤں پر الزامات عائد کرتے رہے۔ قومی اسمبلی سے ان کے اراکین نے استعفے بھی پیش کر دیے لیکن ایوان بالا کے انتخابی عمل میں حصہ لینے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے مذکورہ دونوں رہنماؤں سے تعاون مانگتے رہے اور الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد 22 ویں ترمیم کا شوشہ چھوڑا تاہم خان صاحب کو اپنے مطلوبہ مقاصد میں کامیابی نہ مل سکی کیونکہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے سینیٹ الیکشن سے عین قبل محض ایک جماعت کی خواہش کی تکمیل کے لیے پارلیمانی نظام کو اتھل پتھل کرنا مناسب نہ سمجھا۔
یوں بھی پیپلز پارٹی کو اپنے اراکین اسمبلی پر مکمل اعتماد و بھروسا تھا کہ وہ شہید رہنماؤں کے سیاسی نظریے کے امین ہیں اور سینیٹ کے انتخابی نتائج نے پیپلز پارٹی کے موقف کو درست ثابت کر دیا۔ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں 27 نشستیں جیت کر سنگل لارجسٹ پارٹی کا اعزاز حاصل کر لیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) 26 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ ایم کیو ایم 8 سیٹیں جیت کر تیسری بڑی پارٹی بن گئی ہے اے این پی نے 7، جی ٹی آئی نے 6، جے یو آئی (ف) نے 5، مسلم لیگ (ق) نے 4، نیشنل پارٹی نے 3، پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے 3 اور دیگر جماعتوں نے ایک ایک، دو دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 6 آزاد ارکان بھی سینیٹ کے ممبر منتخب ہو گئے۔
ایوان بالا کے انتخابات سے محض چند گھنٹے قبل آدھی رات کو حکمراں جماعت اچانک ''خواب غفلت'' سے بیدار ہو گئی اور ایک صدارتی آرڈیننس کا اجرا کر کے فاٹا کی چار سیٹوں کے انتخابات کا طریقہ کار تبدیل کر دیا۔ مذکورہ آرڈیننس میں اس قدر ابہام تھا کہ الیکشن کمیشن کو فاٹا کی چاروں نشستوں پر انتخاب کو ملتوی کرنا پڑا جس پر فاٹا اراکین و دیگر سیاسی رہنماؤں نے سخت احتجاج کیا۔ رات کی تاریکی میں انتخابی عمل شروع ہونے سے محض چند گھنٹے قبل صدارتی آرڈیننس کے اجرا نے حکومتی اہلیت کا پول کھول دیا۔ آرڈیننس کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے ۔
جس کے حتمی فیصلے تک فاٹا کی نشستوں کے الیکشن ممکن نہیں یوں ایوان کا انتخاب ایک طرح سے نامکمل سمجھا جائے گا۔ ایک اور ناخوشگوار واقعہ کے پی کے میں پیش آیا جس نے سینیٹ انتخابات کو داغ دار کیا وہاں الیکشن عمل کے آغاز ہی میں کے پی کے حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر مبینہ دھاندلی کے الزامات لگانے شروع کر دیے نتیجتاً الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل روک دیا۔ کے پی کے اسمبلی کے اراکین کے درمیان ہاتھا پائی اور شدید ہنگامہ آرائی کے باعث پولنگ رکنے کے بعد بحال ہوئی۔
دراصل پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کو اپنے اراکین اسمبلی پر اعتماد ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں پر ہارس ٹریڈنگ کا بھوت سوار رہا۔ پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے بعض اراکین نے اپنی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ جب کہ کے پی کے اسمبلی پی ٹی آئی کا ایک فارورڈ بلاک موجود ہے جو خان صاحب کی ''حاکمانہ'' انداز قیادت پر نالاں ہیں۔ عمران خان پورے ملک میں ''تبدیلی'' کے خواہاں ہیں۔ 90 دنوں میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
تمام شہریوں کو بلاتفریق انصاف کی فراہمی کی یقین دہانیاں کراتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ اپنی جماعت کے اراکین کی ''صدائے احتجاج'' سننے سے قاصر ہیں ان کی شکایات کا ازالہ کرنے سے گریزاں ہیں جو پی ٹی آئی کی پالیسی تضاد کو نمایاں کرتا ہے جو لیڈر اپنی جماعت اور اپنے صوبے میں انصاف کا نظام قائم نہ کر سکے وہ بھلا پورے ملک کے نظام حکومت کو کس طرح منصفانہ چلا سکتا ہے۔ یہ خان صاحب کے لیے بڑا سوال ہے۔
ان کی آیندہ کی سیاست میں کامیابی و ناکامی کا دار و مدار اسی سوال میں پوشیدہ ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی اپنے طرز حکمرانی پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ ملک کے اہم ترین حلقے بھی ان کے انداز حکمرانی سے شاکی نظر آتے ہیں عوام کو ان کی حکومت کوئی قابل ذکر ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے لوگوں میں مایوسی و بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
اب اگلا مرحلہ سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا ہے جو آج 12 مارچ کو شیڈول ہے ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناتے مذکورہ دونوں عہدوں پر پہلا حق پیپلز پارٹی کا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے درست کہا کہ سنگل لارجسٹ پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے تعاون سے پی پی پی کو ایوان بالا میں بڑی برتری حاصل ہے لہٰذا جمہوری اصولوں کے مطابق سینیٹ کا چیئرمین پیپلز پارٹی کا ہو گا اور (ن) لیگ کو ہماری حمایت کرنی چاہیے۔
بالاخر پی پی پی کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ ایسا متفقہ امیدوار چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی صورت میں نامزد کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس پر وزیراعظم نوازشریف نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر کے جمہوری روایات کو مستحکم کیا۔ سیاسی رہنماؤں اور سیاسی مبصرین نے اسے نواز شریف کا جرات مندانہ اقدام اور دانشمندانہ فیصلہ کہا ہے، اور رضا ربانی کا یہ بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ میثاق جمہوریت کا مسودہ بھی رضا ربانی نے تخلیق کیا ہے۔
14 اگست 2014ء کے لانگ مارچ اور ڈی چوک پر دھرنا دینے سے لے کر سینیٹ انتخابات سے قبل تک تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری و دیگر رہنماؤں پر الزامات عائد کرتے رہے۔ قومی اسمبلی سے ان کے اراکین نے استعفے بھی پیش کر دیے لیکن ایوان بالا کے انتخابی عمل میں حصہ لینے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے مذکورہ دونوں رہنماؤں سے تعاون مانگتے رہے اور الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد 22 ویں ترمیم کا شوشہ چھوڑا تاہم خان صاحب کو اپنے مطلوبہ مقاصد میں کامیابی نہ مل سکی کیونکہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے سینیٹ الیکشن سے عین قبل محض ایک جماعت کی خواہش کی تکمیل کے لیے پارلیمانی نظام کو اتھل پتھل کرنا مناسب نہ سمجھا۔
یوں بھی پیپلز پارٹی کو اپنے اراکین اسمبلی پر مکمل اعتماد و بھروسا تھا کہ وہ شہید رہنماؤں کے سیاسی نظریے کے امین ہیں اور سینیٹ کے انتخابی نتائج نے پیپلز پارٹی کے موقف کو درست ثابت کر دیا۔ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں 27 نشستیں جیت کر سنگل لارجسٹ پارٹی کا اعزاز حاصل کر لیا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) 26 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ ایم کیو ایم 8 سیٹیں جیت کر تیسری بڑی پارٹی بن گئی ہے اے این پی نے 7، جی ٹی آئی نے 6، جے یو آئی (ف) نے 5، مسلم لیگ (ق) نے 4، نیشنل پارٹی نے 3، پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے 3 اور دیگر جماعتوں نے ایک ایک، دو دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 6 آزاد ارکان بھی سینیٹ کے ممبر منتخب ہو گئے۔
ایوان بالا کے انتخابات سے محض چند گھنٹے قبل آدھی رات کو حکمراں جماعت اچانک ''خواب غفلت'' سے بیدار ہو گئی اور ایک صدارتی آرڈیننس کا اجرا کر کے فاٹا کی چار سیٹوں کے انتخابات کا طریقہ کار تبدیل کر دیا۔ مذکورہ آرڈیننس میں اس قدر ابہام تھا کہ الیکشن کمیشن کو فاٹا کی چاروں نشستوں پر انتخاب کو ملتوی کرنا پڑا جس پر فاٹا اراکین و دیگر سیاسی رہنماؤں نے سخت احتجاج کیا۔ رات کی تاریکی میں انتخابی عمل شروع ہونے سے محض چند گھنٹے قبل صدارتی آرڈیننس کے اجرا نے حکومتی اہلیت کا پول کھول دیا۔ آرڈیننس کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے ۔
جس کے حتمی فیصلے تک فاٹا کی نشستوں کے الیکشن ممکن نہیں یوں ایوان کا انتخاب ایک طرح سے نامکمل سمجھا جائے گا۔ ایک اور ناخوشگوار واقعہ کے پی کے میں پیش آیا جس نے سینیٹ انتخابات کو داغ دار کیا وہاں الیکشن عمل کے آغاز ہی میں کے پی کے حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر مبینہ دھاندلی کے الزامات لگانے شروع کر دیے نتیجتاً الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل روک دیا۔ کے پی کے اسمبلی کے اراکین کے درمیان ہاتھا پائی اور شدید ہنگامہ آرائی کے باعث پولنگ رکنے کے بعد بحال ہوئی۔
دراصل پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کو اپنے اراکین اسمبلی پر اعتماد ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں پر ہارس ٹریڈنگ کا بھوت سوار رہا۔ پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے بعض اراکین نے اپنی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ جب کہ کے پی کے اسمبلی پی ٹی آئی کا ایک فارورڈ بلاک موجود ہے جو خان صاحب کی ''حاکمانہ'' انداز قیادت پر نالاں ہیں۔ عمران خان پورے ملک میں ''تبدیلی'' کے خواہاں ہیں۔ 90 دنوں میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
تمام شہریوں کو بلاتفریق انصاف کی فراہمی کی یقین دہانیاں کراتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ اپنی جماعت کے اراکین کی ''صدائے احتجاج'' سننے سے قاصر ہیں ان کی شکایات کا ازالہ کرنے سے گریزاں ہیں جو پی ٹی آئی کی پالیسی تضاد کو نمایاں کرتا ہے جو لیڈر اپنی جماعت اور اپنے صوبے میں انصاف کا نظام قائم نہ کر سکے وہ بھلا پورے ملک کے نظام حکومت کو کس طرح منصفانہ چلا سکتا ہے۔ یہ خان صاحب کے لیے بڑا سوال ہے۔
ان کی آیندہ کی سیاست میں کامیابی و ناکامی کا دار و مدار اسی سوال میں پوشیدہ ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی اپنے طرز حکمرانی پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ ملک کے اہم ترین حلقے بھی ان کے انداز حکمرانی سے شاکی نظر آتے ہیں عوام کو ان کی حکومت کوئی قابل ذکر ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے لوگوں میں مایوسی و بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
اب اگلا مرحلہ سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا ہے جو آج 12 مارچ کو شیڈول ہے ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناتے مذکورہ دونوں عہدوں پر پہلا حق پیپلز پارٹی کا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے درست کہا کہ سنگل لارجسٹ پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے تعاون سے پی پی پی کو ایوان بالا میں بڑی برتری حاصل ہے لہٰذا جمہوری اصولوں کے مطابق سینیٹ کا چیئرمین پیپلز پارٹی کا ہو گا اور (ن) لیگ کو ہماری حمایت کرنی چاہیے۔
بالاخر پی پی پی کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ ایسا متفقہ امیدوار چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی صورت میں نامزد کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس پر وزیراعظم نوازشریف نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر کے جمہوری روایات کو مستحکم کیا۔ سیاسی رہنماؤں اور سیاسی مبصرین نے اسے نواز شریف کا جرات مندانہ اقدام اور دانشمندانہ فیصلہ کہا ہے، اور رضا ربانی کا یہ بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ میثاق جمہوریت کا مسودہ بھی رضا ربانی نے تخلیق کیا ہے۔