سنگاکارا کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت

سنگا کارا ایسے ایسے ریکارڈ اپنے نام کر رہے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کوئی نہیں توڑ سکا تھا۔

ہمارے ہاں تب کرکٹ کو خیرباد کہا جب یا تو وقت گزر چکا تھا، یا پھر ان کے پاس کرکٹ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

اگر کرکٹ کی نظر سے دیکھا جائے تو سری لنکا کے کمار سنگاکارا ''قبر میں پاؤں ٹکائے بیٹھے'' ہیں، یعنی اپنی کرکٹ کے بالکل آخری ایام میں ہیں اور عالمی کپ 2015ء ہے بھی اْن کا آخری ون ڈے ٹورنامنٹ، لیکن کارکردگی دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے عروج پر ہیں اور ایسے ایسے ریکارڈز اپنے نام کر رہے ہیں، جو پچھلی تین دہائیوں میں کوئی نہیں توڑ سکا تھا۔

ورلڈ کپ کے دوران کمار سنگاکارا مسلسل چار میچز میں سنچریاں بنانے والے تاریخ کے پہلے بلے باز بن گئے ہیں۔ ان سے قبل کبھی کوئی کھلاڑی 3 سے زیادہ بار 100 رنز کا ہندسہ عبور نہیں کر پایا تھا۔ 1982ء میں پاکستان کے عظیم بلے باز ظہیر عباس نے بھارت کے خلاف تین سنچریاں بنائی تھیں، جسے 10 سال بعد ہم وطن سعید انور نے برابر کیا۔ ان کے بعد چار مزید بلے باز یہ ریکارڈ برابر کر چکے ہیں لیکن توڑ کوئی نہیں پایا یہاں تک کہ سنگاکارا نے اپنے آخری چند ون ڈے مقابلوں میں اسے توڑ دیا۔

سنگاکارا نے جاری ورلڈ کپ میں اپنی پہلی سنچری بنگلہ دیش کے خلاف ملبورن میں بنائی، جہاں 105 ناٹ آؤٹ رنز بنانے کے بعد انھوں نے ویلنگٹن میں انگلینڈ کے خلاف ناقابل شکست 117 رنز بنائے۔ پھر آسٹریلیا کے خلاف اہم مقابلے میں 104 رنز بنا کر عالمی ریکارڈ برابر کیا اور اب اسکاٹ لینڈ کے سامنے 124 رنز کی اننگز کھیل کر اس مقام پر قدم رکھا جہاں آج تک کوئی بلے باز نہیں پہنچا تھا۔ سمجھ نہیں آتی کہ سنگاکارا آخر کرکٹ چھوڑ کیوں رہے ہیں؟

گزشتہ سال سنگاکارا نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تو سری لنکا نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیت کر انھیں شایانِ شان انداز میں الوداع کہا۔ اب مسلسل دو ورلڈ کپ فائنل مقابلوں میں پہنچنے کے بعد کیا اس بار سری لنکا کو عالمی چیمپئن بنا پائیں گے؟ اس کے جواب کے لیے انتظار کرنا پڑے گا لیکن ایک سوال جو سنگاکارا کی کارکردگی دیکھ کر ذہن میں کلبلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ آخر پاکستان میں ایسی مثالیں کیوں نہیں ملتیں؟


اگر صلاحیتوں کی بات کی جائے تو پاکستان میں سری لنکا سے کہیں زیادہ باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں، اگر پیسے کی بات کی جائے تو پاکستان کرکٹ بورڈ سری لنکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ امیر ہے، اگر بدعنوانی اور بدانتظامی کو وجہ ٹھیرائیں تو سری لنکا میں بھی یہ مسائل اتنے ہی ہیں جتنے کہ پاکستان میں، اگر کھلاڑیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کو قصوروار ٹھیرائیں تو سری لنکا میں تو کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں لیکن کھلاڑی اپنے بنیادی ترین حق سے محروم رہتے ہیں، اس کے باوجود دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کی کارکردگی اور مقابلوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

آخری عالمی کپ کھیلنے والے سری لنکا کے کھلاڑیوں کو دیکھ لیں اور پھر اسی مقام پر موجود پاکستان کے کھلاڑیوں پر نظر ڈالیں۔ ایک ''اسٹار'' پاکستانی آل راؤنڈر، جن کا یہ آخری عالمی کپ ہے، اب تک نہ ہی بیٹنگ میں کوئی جادو جگا پائے ہیں اور نہ ہی باؤلنگ میں کوئی کارِ نمایاں انجام دیا ہے اور اگر، خاکم بدہن، پاکستان کی عالمی کپ مہم اگلے ہی مقابلے میں تمام ہو گئی تو انھیں مایوس کن اعداد و شمار کے ساتھ ہی وطن واپس لوٹنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایک انتہائی تجربہ کار بلے باز بھی ہیں، جن کی عالمی کپ میں کارکردگی اتنی نمایاں نہیں رہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی جگہ ایک نوجوان کے ہاتھوں کھو بیٹھے۔

دوسری جانب اگر سری لنکا کوارٹر فائنل میں بھی ہار جاتا ہے تو کمار سنگاکارا کا سر فخر سے بلند ہو گا کہ انھوں نے بہترین کارکردگی دکھائی، حتی الامکان کوشش کی کہ ملک جیتے، باقی نتیجہ تو قسمت کی بات ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عظیم ترین کھلاڑی بھی کرکٹ چھوڑنے کے لیے درست وقت کا انتخاب نہیں کر پاتے۔ جاوید میانداد سے لے کر انضمام الحق، وسیم اکرم سے لے کر شعیب اختر اور وقار یونس سے لے کر ثقلین مشتاق تک، ہر لیجنڈ کھلاڑی نے تب کرکٹ کو خیرباد کہا جب یا تو وقت گزر چکا تھا، یا پھر ان کے پاس کرکٹ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ عالمی کپ 2015ء کے بعد ون ڈے کرکٹ چھوڑنے والے پاکستان کھلاڑیوں کو اپنی کارکردگی کے ذریعے ثابت کرنا ہو گا، بصورت ان کا نام بھی اسی فہرست میں ہو گا جو ''بہت بے آبرو ہو کر'' نکالے گئے۔

www.cricnama.com
Load Next Story