آر ایس ایس کی دہشت گردی آخری حصہ
ہندوؤں نے لارڈ کرزن کے بیان کا پورا اثر لیا اور انھوں نے ہندو اتحاد اور ہندو قوم پرستی کے لیے بھرپورکوششیں شروع کردیں۔
WASHINGTON:
ہندوؤں نے لارڈ کرزن کے بیان کا پورا پورا اثر لیا اور انھوں نے ہندو اتحاد اور ہندو قوم پرستی کے لیے بھرپورکوششیں شروع کردیں۔ موقع سے فائدہ اٹھاکر بندہ گھوش بنگالی، ہردیال سنگھ دہلوی اور دامودر ساورکر جیسے انتہا پسند ہندو لیڈر نئے تقاضے کے مطابق ہندوؤں میں جارحیت پسندی اور مسلمانوں سے نفرت کا پرچار کرنے لگے۔
قوم پرستی کے نعرے سے ان پڑھ ہندو تو کیا لکھے پڑھے ہندو بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آہستہ آہستہ اس رجحان نے ایک تنظیم کی شکل اختیارکرلی اور 1915 میں پہلی ہندو قوم پرست تنظیم قائم ہوگئی جس کا نام ہندو مہاسبھا رکھا گیا۔اس تنظیم کا اصل مقصد ہندوستان میں رام راج قائم کرنا اور ہندو تہذیب کو فروغ دینا تھا۔اس تنظیم کا مسلمانوں اور برصغیر کی دیگر اقلیتوں کے بارے میں نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ اپنے مذہب کوچھوڑ کر ہندو بن جائیں یا پھر ہندوستان کو چھوڑ دیں۔
اگرچہ اس تنظیم کو اصل جنگ ہندوستان پر قابض انگریز حکومت سے کرنا چاہیے تھی مگر انگریزوں سے ملی بھگت کی وجہ سے وہ کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا زہر اگلنے لگی اور مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی اسکیمیں بنانے لگی۔ اس مسلم کش تنظیم کے سرکردہ لیڈروں میں مشہور مسلم دشمن ویرساورکر، لالہ بچت رائے لاہوری اور ڈاکٹر مونجے مرہٹہ تھے۔ ویرساورکر اس کا پہلا صدر تھا۔
اس تنظیم کی زہر فشانی کی وجہ سے 1922 میں محرم کے موقعے پر ملتان میں پہلا ہندو مسلم فساد برپا ہوا۔ پھر اس کے بعد تو ہندو مسلم فسادوں کا تانتا بندھ گیا۔ یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تمام فسادات میں یہی تنظیم ملوث تھی۔ انجمن انسداد گؤ کشی کی بنیاد بھی سب سے پہلے اسی تنظیم نے رکھی تھی۔
1925میں مہاسبھا کی کوکھ سے ایک اور زیادہ سخت ہندو قوم پرست اور مسلم دشمن تنظیم نے راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)کے نام سے جنم لیا۔ اس کا سربراہ ایک انتہا پسند مرہٹہ ڈاکٹر ہجویر تھا۔ اسے قائم کرنے کا مقصد مسلمانوں سے برصغیر پر ان کے ایک ہزار سالہ اقتدارکا بدلہ لینا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے مقاصد میں ہندو مذہب کے احیا اورہندو اقتدار کے لیے مسلح جدوجہد کرنا بھی شامل تھا۔ یہ ہندومہاسبھا کی ذیلی تنظیم بعد میں مسلم دشمنی میں آگے نکل کر ہندومہاسبھا سے زیادہ خوفناک بن گئی۔
یہ تنظیم ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف حد درجہ نفرت پھیلانے اور مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لیے مسلح تربیت دینے میں ہندوستان کی تمام مسلم دشمن تنظیموں پر سبقت لے گئی تھی۔ آزادی کے بعد یہ ایک زمانے تک بھارت کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی رہی تاکہ بھارت میں رام راج قائم کرسکے مگرکانگریسی ٹولے نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔
اس نے ہندوستان میں مسلم آزار سرگرمیوں کی انتہا کردی تھی۔ اسی نے اسکولوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو ہندو قوم پرستانہ ترانہ وندے ماترم پڑھنے پر مجبور کیا تھا اس جماعت نے شہر شہر اکھاڑے کھولے جہاں ہندو نوجوانوں کو ورزش کے ساتھ ساتھ چاقو، خنجر اور پستول کا استعمال سکھایا جاتا تھا۔ اس کے کارکنوں کو مسلمانوں کی خون ریزی کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے لیڈروں کا انگریزوں سے گہرا رابطہ تھا۔ اس نے انگریزوں کی شے پر ہندو مسلم اتحاد کو فنا کرنے کے لیے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بلوے کروائے۔ 1946 میں بہار میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام میں ہی جماعت پیش پیش تھی۔
اسی جماعت نے دیگرکٹر مسلم دشمن جماعتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ہندو بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا مگر اس مکروہ تحریک کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا کیوں کہ ہندوستان کے ان پڑھ اور غریب ترین مسلمان بھی اس مکروہ تحریک سے متاثر نہ ہوسکے۔ اس ناکامی کے بعد اس جماعت نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر توہین رسالتؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ کتابیں لکھوانا شروع کیں۔
مسلمان آنحضرتؐ کی ذات بہ برکات سے غیر متزلزل اور والہانہ عقیدت رکھتے ہیں وہ آپؐ کی شان میں آدھا گستاخانہ لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ پہلے تو مسلمانوں نے ان مذموم اشتعال انگیزکتابوں کے خلاف قانونی طریقہ اختیار کیا مگر جب انگریز عدالتیں انتہاپسند ہندوؤں کو قرار واقعی سزا دینے سے قاصر رہیں تو پھر مسلمانوں نے اس فتنے سے خود نمٹنے کا فیصلہ کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اس فتنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔
اس ضمن میں کچھ عاشقان رسولؐ کے واقعات جرأت و شہادت اس طرح ہیں کہ 1927 میں کٹر اسلام و مسلم دشمن شردھانند نے دہلی میں آنحضرتؐ کی حرمت کے منافی ایک گستاخانہ کتاب لکھی جس کا جواب کاتب غازی عبدالرشید نے اپنی پستول کی گولیوں سے دے کر اسے جہنم رسید کردیا اور پھر عدالت میں شایان شان طریقے سے اقبال جرم کرکے پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے لگا لیا، یہ واقعہ 17 دسمبر 1927 کو پیش آیا تھا۔ پھر دوسرا واقعہ 24 اپریل 1929 کو پیش آیا جب ایک عاشق رسولؐ غازی علم الدین لاہوری نے ناموس رسالتؐ کے خلاف مہاشے کرشن کی لکھی گئی کتاب کے ناشر لالہ بچت رائے کو واصل جہنم کردیا تھا۔
لاہور کے مسلمانوں نے مہاشے کرشن کی کتاب کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا مگر لاہور ہائی کورٹ کے جج دلیپ سنگھ نے ملزم کو سزا دینے کے بجائے باعزت رہا کردیا تھا مسلمانوں میں اس حرکت پر سخت تشویش پھیل گئی۔ بالآخر غازی علم الدین نے اپنے سینے میں سلگتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے لالہ بچت رائے جو مہاسبھا کا ایک سرکردہ لیڈر بھی تھا اسے جہنم رسید کردیا۔ تیسرا واقعہ کلکتہ میں پیش آیا جب ایک بھولا ناتھ نامی انتہا پسند ہندو نے آنحضرتؐ کے خلاف ایک کتاب لکھی جس کے مندرجات سے مشتعل ہوکر ایک عاشق رسولؐ عبداللہ لاہوری نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ تو بچ گیا مگر اس کا نوکر مارا گیا۔
ملتان میں ویربھان نامی ایک انتہا پسند ہندو نے شان رسالت مآبؐ کے خلاف ایک کتاب لکھی اسے عاشق رسولؐ غازی محمد بخش نے جہنم رسید کیا۔ 1933 میں آریہ سماج حیدر آباد سندھ کے سیکریٹری نتھو رام نے ایک کتابچہ بعنوان ''تاریخ اسلام'' شایع کیا۔ یہ کتابچہ اس سے قبل برصغیر کے دوسرے شہروں میں شایع ہونے والی ناموس رسالتؐ کے خلاف کتابوں سے ماخوذ تھا۔
اس کتابچے کے خلاف سندھ کے مسلمانوں نے کراچی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا تھا پیشی والے دن جب نتھو رام کراچی ہائی کورٹ میں موجود تھا، کراچی کے ایک غیور نوجوان غازی عبدالقیوم نے بھری عدالت میں اسے قتل کرکے واصل جہنم کردیا اور پھر اقبال جرم کرکے کراچی سینٹرل جیل میں بخوشی پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ آپ کا مزار میوہ شاہ قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔
اس وقت آر ایس ایس اپنی قائم کردہ اور حالیہ الیکشن کے نتیجے میں برسر اقتدار بھارتی جنتا پارٹی کے پس پردہ بھارت میں اپنی حکمرانی چلا رہی ہے۔ اس سے قبل اس نے مودی کے گجرات کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے 2002 میں وہاں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا اور اب مودی کے پورے بھارت کا وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی حکومت کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں پر شدھی فتنے کا عذاب نازل کیا ہے مگر اب مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی ہندو بنانے کی مہم جاری ہے۔
دراصل یہ سارا کھیل آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کے حکم پر کھیلا جا رہا ہے۔ موہن بھگوت نے چند دن قبل بڑی ڈھٹائی سے دعویٰ کیا تھا کہ پورے بھارت میں اب تک کئی ہزار مسلمانوں اور عیسائیوں کو ''گھر واپسی'' پروگرام کے تحت ہندو بنالیا گیا ہے اور اس ضمن میں مزید کارروائی جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رجعت پسند ہندو تنظیمیں نریندرمودی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد سے اتنی طاقت اور شے پا چکی ہیں کہ وہ کھلے عام مسجدوں اور چرچوں پر حملے کر رہے ہیں۔
بھارت کے طول و عرض میں اب تک کئی چرچوں کو جلانے کے علاوہ ان میں توڑپھوڑ کی گئی ہے۔ عیسائی اس تشدد پر سخت برہم ہیں۔ انھوں نے چند دن قبل دہلی اور دیگر شہروں میں بڑے احتجاجی جلوس نکالے ہیں مگر افسوس کہ نریندر مودی آر ایس ایس کے رہنماؤں کے خوف سے اس دہشت گردی کے خلاف بولنے سے کتراتے رہے ہیں لیکن اوباما کے احتجاج پر انھوں نے لب کشائی کرتے ہوئے بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی دہشت گردی پر ہلکا سا مذمتی بیان دیا تھا ۔
اب دہلی کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی زبردست کامیابی نے نریندر مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس لیے کہ کیجری وال نے سیکولر ازم کے نام پر الیکشن جیتا ہے۔ لگتا ہے نریندر مودی کا ہندوتوا کا نعرہ آہستہ آہستہ اپنی ساکھ کھوتا جا رہا ہے اس لیے بھی کہ لوگ بڑھتی ہوئی مذہبی دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں چنانچہ مبصرین وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی کے تمام ارمان اور بھارت کا عظیم وزیر اعظم بننے کا خواب اب بالآخر مسلمانوں اور عیسائیوں کی نفرت کی بھینٹ چڑھنے والا ہے۔