کارپوریٹ سرمایہ بکی ہوئیں جمہورتیں لائف اسٹائل
دنیا کے ان ایک فیصد امیر افراد نے دنیا بھر میں ایک ایسا جمہوری نظام دنیا پر مسلط کر رکھا ہے
جنگ، خوف، دہشت، بدامنی، قتل و غارت اور لوٹ مار کے اس عالمی منظر نامے میں کیا کسی کو اندازہ ہے کہ گذشتہ ایک سال قبل یعنی صرف2013میں ارب پتی افراد میں210افراد کا اضافہ ہوا اور یوں ان کی کل تعداد ایک ہزار چار سو چھبیس(1,426) ہوگئی ہے۔ جن کی مجموعی دولت پانچ ہزار چا سو ارب ڈالر ہے۔
یہ تمام ارب پتی ڈالروں کے ارب پتی ہیں جو عالمی سطح پر نظر آتے ہیں۔ ارب پتیوں کی یہ تفصیل ہر سالForbesمیگزین میں شایع ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی2013کے بار ے میں ایک تفصیلی مضمون(Inside 2013 billionaires list) میں دیے گئے ہیں جسےL.K.Rollنے تحریر کیا ہے ۔2014کے بارے میں ابھی تک رپورٹ آنا باقی ہے۔
یہ ارب پتی افراد ہر دوسرے دن کسی نہ کسی فیشن میگزین، ٹی وی کے ٹاک شو یا کسی دوسرے ایسے میڈیا کے واسطے سے نمایاں ہوتے رہتے ہیں اور ان کے خوبصورت اور متمول لائف اسٹائل کے بارے میں گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔ ان میں سے چند ایک کے خیراتی کاموں کو بھی دنیا بھر کا میڈیا یوں اچھال کر پیش کرتا ہے جیسے یہ ان کے خون پسنے کی کمائی تھی جو انھوں نے عوام پر لٹادی۔ لوٹ مار کی کمائی کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کا تصور صدیوں سے عام ہے۔
ایسے ڈاکوؤں کو لوگ بہت پسند کرتے تھے جو امیروں کو لوٹتے اور غریبوں میں تقسیم کرتے۔ برصغیر پاک و ہند کا کردار سلطانہ ڈاکو اسی کی ایک مثال ہے۔
لیکن موجودہ دور کے کارپوریٹ کلچر کے نمایندہ افراد کا کمال یہ ہے کہ وہ پوری دنیا میں غربت، بھوک، بیماری، افلاس اور بے روز گاری کے ذمے دار ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی مصنوعات کے ذریعے انھی مفلوک الحال لوگوں کو لوٹ کر اپنے خزانے بھرتے ہیں، امیر سے امیر ترین ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان سرمایہ داروں میں سے غریبوں سے لوٹی ہوئی دولت کا کچھ حصہ خیرات پر خرچ کر دے تو وہ عظیم ترین انسان کہلاتا ہے۔ سلطانہ ڈاکو کم از کم امیروں کو لوٹ کر غریبوں پر خرچ کرتا تھا،غریبوں کو لوٹ کر،انھی کا مال انھیں کو خیرات کر کے عزت نہیں کماتا تھا۔
دولت کمانے کی یہ دوڑ اب اس قدر خوفناک ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا بھر کے ایک فیصد امیر افراد کے پاس اس وقت ایک سو دس ہزار ارب ڈالر کا سرمایہ ہے جو دنیا کے پچاس فیصد غریب ترین افراد کے کل سرمایہ سے پینسٹھ گنا زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں2008 میں مالی بحران آیا۔ عام آدمی جس نے بینکوں میں اپنی بچت رکھی ہوئی تھی، یا جائیداد خرید کر سرمایہ کاری کی تھی وہ لٹ گیا لیکن اس ایک فیصد سرمایہ داروں کے منافع میں حیران کن اضافہ ہوتا رہا۔
کارپوریٹ منافع بڑھتا رہا، ان کے سربراہوں(CEOs) کی تنخواہوں میں ہو شربا اضافہ ہوتا رہا اور اسٹاک ایکسچینج کا حال یہ ہے کہDow Jones ،117سال کی تاریخ میں سب سے زیادہ بلندیوں پر جاپہنچا۔ یہ وہ چند لوگ ہیں جن کی دولت اکثر حکومتوں کے کل سرمائے سے بھی زیادہ ہے۔ جولائی2013کے(Bloomberg) کے مطابق پوری یورپی یونین کے دس امیر ترین افراد کی دولت یورپی یونین کے تمام ممالک نے جو سرمایہ معاشی بحالی کے لیے خرچ کیا اس سے زیادہ ہے۔
ان دس افراد کے پاس دو سو سترہ ارب یورو تھے جب کہ یورپی یونین کے تمام ممالک اپنی معاشی بحالی کے لیے صرف200 سو ارب یورو نکال سکے۔OXFAMکی وہ مشہور رپورٹ(Working for the few) حیران حقائق بیان کرتی ہے۔(1)دنیا کی آدھی دولت صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے۔(2) ان ایک فیصد افراد کے پاس110ہزار ارب ڈالر ہیں۔(3) دنیا کے 85فیصدغریب افراد کی کل دولت110ہزار ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ گذشتہ 30سال سے جن ملکوں میں غریب اور امیر کا فرق بڑھا ہے، ایسے ملکوں میں دنیا کے ستر فیصد افراد رہتے ہیں۔یعنی غریب ملکوں میں چند لوگوں کو امیر بنانے کا عمل زیادہ تیز ہوا ہے۔
دنیا کے ان ایک فیصد امیر افراد نے دنیا بھر میں ایک ایسا جمہوری نظام دنیا پر مسلط کر رکھا ہے جسے ان تمام افراد نے خریدا ہوا ہے۔ یہ سرمایہ دار سیاست دان نہیں بلکہ پار ٹی فنڈنگ کے ذریعے پوری کی پوری پارٹی خرید لیتے ہیں اور پھر پارٹی وفاداری کو جمہوریت کی معراج سمجھا جاتا ہے ہر کوئی بکی ہوئی پارٹی کی پالیسیوں کا پابند ہوتا ہے۔ آکسفیم کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ1930کے معاشی بحران کے بعد ان تمام افراد نے جو صرف ایک فیصد ہیں، ہر ملک کی سیاسی پارٹیوں کی پالیسیوں کو اپنی دولت سے خریدا ہوا ہے۔ یہ پالیسیاں ان پارٹیوں کے منشور کا حصہ بنتی ہیں اور نافذ ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان تمام ممالک میں مزدورکی تنخواہ کی اوسط چیونٹی سے بھی کم رفتار سے بڑھائی جاتی ہے۔ جہاں سستا مزدور ملے، وہاں فیکٹریاں لے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر بڑے سرمایہ دار کو چھوٹے ملکوں میں کارخانے لگا کر ان کی دولت اپنے ملک میں لے جانے کا اختیار ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں قانون ایسے بنائے جاتے جن سے(Corporate tax Loopholes) یعنی ٹیکس چوری کرنے کے آسان راستے نکل سکیں۔ یہی سرمایہ دار ایک غیر فطری معاشی بحران پیدا کرتے ہیں اور پھر حکومتیں بچت کی طرف چل پڑتی ہیں اور یہ بچت صحت، تعلیم، صاف پانی اور دیگر سہولیات میں ہی ہوتی ہے۔
آکسفیم کی یہ رپورٹ بھارت کی مثال دیتی ہے جو اس بدترین سرمایہ داری کی غلیظ ترین شکل ہے۔ جہاں ایک ارب بیس کروڑ آبادی کے ملک میں صرف ایک درجن افراد کے پاس250ارب ڈالر کی دولت ہے اور باقی تمام بھارت ایک بہت بڑی جھونپڑ پٹی ہے، اور ساتھ ہی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی، جو اپنی جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد صحت پر خرچ کرتی ہے۔ یہ سرمایہ دار جنہوں نے بھارت کی جمہوری پارٹیوں کو خریدا ہوا انھوں نے1985 میں مورثی ٹیکس ختم کر وایا،1993 میں ویلتھ ٹیکس کو نہ ہونے کے برابر کروایا اور اب وہاں براہِ راست ٹیکس صرف37.7فیصد ہیں، باقی سب غرباء کی جیب سے وصول ہوتے ہیں۔
دنیا کے ہر ملک میں ان سرمایہ داروں نے جمہوری اداروں سے معاشی رازداری کے قوانین منظور کروا رکھے ہیں۔ کسی کے بینک اکاؤنٹ، بیرون ملک دولت اور دیگر سرمایہ کے ادھر ادھر کرنے کوخفیہ رکھنے کے قانون منظور ہیں۔ آف شور(Off shore) کمپنیاں جن پر کسی ملک کا قانون لاگو نہیں ہوتا وہاں صرف امریکی سرمایہ داروں کے19ہزار ارب ڈالر پڑے ہیں۔ زیمبیا وہ ملک ہے جہاں سے سرمایہ دار کمپنیاں سالانہ دس ارب ڈالر کا تا نبہ لے کر جاتی ہیں لیکن اس ملک کو اس کے صرف چوبیس کروڑ روپے ملتے ہیں، اور اس ملک میں69فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی آمدن ایک ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے۔
یہ تمام کارپوریٹ سرمایہ دار دو طریقوں سے لوٹ مار کو مستحکم کرتے ہیں، ایک پوری کی پوری جمہوریت کو خرید کر۔ اس سے لوگوں کو یہ یقین دلا یا جاتا ہے کہ یہ تو تمہاری اپنی منتخب کردہ حکومت ہے۔
آمریت ہو تو لوگ احتجاج بھی کریں۔ جمہوریت اور جمہوری حکمران تو عوام کے نمایندہ ہیں، ان کے ذریعے لوٹنا کس قدر آسان اور خوبصورت ہے۔ دوسرا میڈیا کے ذریعے ایک لائف اسٹائل کو جنم دے کر لوگوں کو اپنی مصنوعات کا عادی کرنا تا کہ سرمایہ غریب آدمی کی جیب سے نکل کر ان تک چلا آئے۔
یہ لائف اسٹائل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہن میں راسخ کیا جاتا ہے۔ آپ اپنی25سال پرانی شاپنگ لسٹ نکالیں، اب پچاس فیصد سے زیادہ اشیاء خریدتے تک نہیں تھے۔ میڈیا پوری دنیا کو ایک لائف اسٹائل کا غلام بناتا ہے۔ جس سے اربوں ڈالر کی انڈسٹری چلتی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال دیکھیں، دنیا بھر کے ڈاکٹر اس بات پر متفق ہیں کہ مسواک ٹوتھ پیسٹ سے بہتر ہے کیوں کہ ٹوتھ برش میں جراثیم کی ایک(Repository) یعنی ذخیرہ جمع ہوتا ہے لیکن لائف اسٹائل کی بات ہے کہ میڈیا ٹوتھ پیسٹ ہی استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
وہ بھی کسی غریب ملک کی بنائی ہوئی ٹوتھ پیسٹ نہیں بلکہ ملٹی نیشنل کارپوریشن کی بنی ہوئی۔ کیا ہر ملک اتنی بھی اہلیت نہیں رکھتا کہ ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ بناسکے۔ یہی حال برگر، پیزا، جوتے اور دیگر اشیاء کا ہے۔ ایک جانب دنیا بھر کے غریب لوگ ہیں جن کو ان اشیاء کا لائف اسٹائل کے نام پر عادی کیا جاتا ہے اور پھر ان کی جیب سے سرمایہ ایک فیصد لوگوں کی جیب میں جاتا ہے اور یہ ایک فیصد سرمایہ دار دنیا بھر کی جمہورتیں خرید لیتے ہیں۔