شاعر کا عبرت ناک سفر آخرت
یہ دیوتا صفت انسان کس کوشش میں، کس وقت کے ساتھ، کس حاجت کے لیے پلنگ سے اٹھا ہو گا۔
پچھلے دنوں دلی جانا ہوا وہاں ایک محفل میں مجید امجد کے مداحوں کو دیکھا۔ انھیں شکایت یہ تھی کہ پاکستان میں مجید امجد کی قدر نہیں ہوئی۔ اتنا اچھا شاعر اور اسے کس طرح نظر انداز کیا گیا ہے حیرت ہوتی ہے۔
ہم نے یہ سن کر کہا کہ برادر کس زمانے کی بات کر رہے ہو۔ اس وقت تو وہاں ان کا طوطی بول رہا ہے۔ آپ لوگ ادھر شایع ہونے والے رسالے اور کتابیں نہیں دیکھتے۔ کتنا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ گویا ان کی زندگی میں ان کی شاعری سے جتنی بے اعتنائی برتی گئی تھی اب اس سے بڑھ کر ان کی شخصیت اور شاعری پر توجہ صرف کی جا رہی ہے۔ گویا گزشتہ بے اعتنائی کی تلافی کی جا رہی ہے۔
مگر ادھر ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی جو کتاب 'مجید امجد: حیات، شعریات، اور جمالیات، شایع ہوئی ہے اس میں ان کے آخری ایام کا احوال پڑھ کر ہمیں کتنی حیرت ہوئی اور کتنا افسوس۔ اب تو جس طرح مجید امجد سے عقیدت کا اظہار ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ان آخری ایام میں ان کے مداح ان کے خدمت گزار بنے ہوئے تھے۔ مگر ڈاکٹر عباس نیر نے کچھ اور ہی نقشہ پیش کیا ہے۔
لکھتے ہیں کہ ''مجید امجد'' 11 مئی 74 ء کو فوت ہوئے۔ ان کی وفات کسمپرسی کی حالت میں ہوئی... ان کے پاس کوئی عزیز رشتہ دار تھا نہ ان کی محبت کا دم بھرنے والے احباب میں سے کوئی۔ ان کی بیماری کی خبر سب کو تھی۔ ان کے خاندان کے لوگوں کو اور ساہیوال کے دوستوں کو مگر ان کی تیمارداری کی توفیق کسی کو نہ ہوئی۔
ان کا ملازم بھی انھیں گھر میں مقفل کر کے باہر چلے جانے میں کوئی ہرج نہیں دیکھتا تھا۔ 11 مئی کو غالباً سہ پہر کے وقت کچھ لوگوں نے کھڑکی سے اندر جھانکا تو انھیں مجید امجد فرش پر مردہ حالت میں نظر آئے۔ وہ دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے اور میت کو تکریم دی۔ اسے چار پائی پر ڈالا۔ اس وقت ساہیوال کے وہ سارے احباب کہاں تھے جو آج مجید امجد سے اپنی محبت اور عقیدت کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔
اسی ذیل میں انھوں نے ایک بیان نقل کیا ہے۔ یہ مولانا محمد امین کا بیان ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ جمعہ کو چھ بجے شام ان کی عیادت کے لیے گئے تھے۔ دیکھا کہ ان کے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند تھیں۔ آگے فرماتے ہیں کہ ''میں نے دروازے سے کان لگائے تو آہستہ آہستہ پنکھا چلنے کی آواز سنائی دی خاکم بدہن مجھے شک گزرا۔ میں نے جرات کر کے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی، کون۔ میں مولانا امین ہوں۔ ٹھہرو، میں دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک نحیف آواز آئی۔ مولانا صاحب میں دروازہ نہیں کھول سکتا۔ میری آواز سنتے ہو۔ میں کانپ اٹھا''۔
یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد ڈاکٹر نیر نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ چاہیے تھا کہ وہ بھاگ کر کسی ڈاکٹر کو بلا لائیں۔ ساہیوال کے سب احباب کو جمع کریں اور اس خرقہ پوش کے آخری لمحات میں ان کے ساتھ رہیں۔ اگلا پورا دن گزرا۔ امین صاحب یا ساہیوال کے دیگر احباب ان کی بیمار پرسی کو نہ آئے۔ کسی نے جھنگ میں ان کے خاندان کے لوگوں کو امجد کے دم واپسیں ہونے کی اطلاع دی نہ خود چوبیس گھنٹے امجد کے سرہانے بیٹھے رہنے کی زحمت کی''۔
آگے چل کر ڈاکٹر نیر لکھتے ہیں۔ ''یہ دیوتا صفت انسان کس کوشش میں، کس وقت کے ساتھ، کس حاجت کے لیے پلنگ سے اٹھا ہو گا۔ اور پھر جانے کس طرح کی جان لیوا کش مکش کے بعد فرش خاک پر گر پڑا ہو گا''۔
ڈاکٹر نیر نے آگے یوں رقم کیا ہے ''امجد صاحب کی وفات کے فوری بعد کے واقعات اس سے بھی زیادہ الم ناک ہیں اور ہماری سماجی اخلاقیات کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہیں۔ ساہیوال میں ان دنوں جاوید قریشی ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے موجود تھے۔ ان کا بیان جو یہاں نقل کیا گیا وہ اس طرح ہے۔
''عصر کے لگ بھگ مجھے اطلاع ملی کہ مجید امجد کا انتقال ہو گیا ہے۔ اب فوری طور پر مسئلہ یہ تھا کہ انھیں دفن کہاں کیا جائے۔ ساہیوال میں جہاں انھوں نے ایک عمر بتائی یا جھنگ میں جو ان کا آبائی وطن تھا۔ باہمی صلاح و مشورے سے یہی طے ہوا کہ ان کی میت کو جھنگ بھیجا جائے''۔
جھنگ یہ میت کیسے بھیجی گئی اس کا احوال جاوید قریشی صاحب نے جیسا کہ اس کتاب میں نقل کیا گیا ہے یوں بیان کیا ہے۔
''اسٹیڈیم ہوٹل ساہیوال کے بابا جوگی نے ایک ٹرک کا بندوبست کر دیا۔ اس ٹرک کو جب میں نے دیکھا تو مجھے بہت ہی رنج ہوا۔ ایک تو مجید امجد صاحب کی موت خود ہی کوئی چھوٹا سانحہ نہ تھا۔ دوسرے جس بے سروسامانی میں انھوں نے جان دی وہ وجہ کرب بنی ہوئی تھی۔ اور پھر یہ ٹرک جس میں مجید امجد صاحب کی میت کو ساہیوال اور جھنگ کے درمیان آخری سفر طے کرنا تھا گندگی اور غلاظت سے پاک نہ تھا۔ غالباً اسے مویشیوں کی باربرداری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
چنانچہ میں نے ٹرک کو دھلوایا اور صاف کروا کے ایک دری اس میں بچھوا دی۔ ادھر ادھر برف کی سلیں رکھوا کے ٹرک کو مجید امجد کی میت کے لیے تیار کروا لیا گیا... پندرہ بیس افراد جن میں ایک بھی مجید امجد کا دوست نہ تھا اور جو خدا جانے کیسے اس جگہ میت کی خبر سن کر جمع ہو گئے تھے یا ڈپٹی کمشنر کی موجودگی دیکھ کر مجید امجد کو خدا حافظ کہا۔ مغرب کے وقت ٹرک مجید امجد صاحب کی میت ان کے دیرینہ ملازم کی نگرانی میں لے کر جھنگ کے لیے روانہ ہوا''۔
ڈاکٹر نیر لکھتے ہیں ''مجید امجد کی وفات سے لے کر ان کی میت کی جھنگ روانگی تک ساہیوال کے ادبا و شعرا کی عدم موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے''۔
تو کیا اب جو مجید امجد سے بڑھ بڑھ کر عقیدت و محبت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے یہ اسی بے حسی کی تلافی کی کوشش تو نہیں ہے مگر ع
ایسی باتوں سے کہیں درد جگر جاتا ہے
باقی اس کتاب میں مجید امجد کی سیرت و شخصیت کا تجزیہ کیا گیا ہے اور شاعری کو جس بصیرت کے ساتھ جانچا پرکھا گیا ہے اس پر تو ہم پہلے تبصرہ کر چکے ہیں اور مصنف کو داد دے چکے ہیں۔
ہم نے یہ سن کر کہا کہ برادر کس زمانے کی بات کر رہے ہو۔ اس وقت تو وہاں ان کا طوطی بول رہا ہے۔ آپ لوگ ادھر شایع ہونے والے رسالے اور کتابیں نہیں دیکھتے۔ کتنا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ گویا ان کی زندگی میں ان کی شاعری سے جتنی بے اعتنائی برتی گئی تھی اب اس سے بڑھ کر ان کی شخصیت اور شاعری پر توجہ صرف کی جا رہی ہے۔ گویا گزشتہ بے اعتنائی کی تلافی کی جا رہی ہے۔
مگر ادھر ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی جو کتاب 'مجید امجد: حیات، شعریات، اور جمالیات، شایع ہوئی ہے اس میں ان کے آخری ایام کا احوال پڑھ کر ہمیں کتنی حیرت ہوئی اور کتنا افسوس۔ اب تو جس طرح مجید امجد سے عقیدت کا اظہار ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ان آخری ایام میں ان کے مداح ان کے خدمت گزار بنے ہوئے تھے۔ مگر ڈاکٹر عباس نیر نے کچھ اور ہی نقشہ پیش کیا ہے۔
لکھتے ہیں کہ ''مجید امجد'' 11 مئی 74 ء کو فوت ہوئے۔ ان کی وفات کسمپرسی کی حالت میں ہوئی... ان کے پاس کوئی عزیز رشتہ دار تھا نہ ان کی محبت کا دم بھرنے والے احباب میں سے کوئی۔ ان کی بیماری کی خبر سب کو تھی۔ ان کے خاندان کے لوگوں کو اور ساہیوال کے دوستوں کو مگر ان کی تیمارداری کی توفیق کسی کو نہ ہوئی۔
ان کا ملازم بھی انھیں گھر میں مقفل کر کے باہر چلے جانے میں کوئی ہرج نہیں دیکھتا تھا۔ 11 مئی کو غالباً سہ پہر کے وقت کچھ لوگوں نے کھڑکی سے اندر جھانکا تو انھیں مجید امجد فرش پر مردہ حالت میں نظر آئے۔ وہ دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے اور میت کو تکریم دی۔ اسے چار پائی پر ڈالا۔ اس وقت ساہیوال کے وہ سارے احباب کہاں تھے جو آج مجید امجد سے اپنی محبت اور عقیدت کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔
اسی ذیل میں انھوں نے ایک بیان نقل کیا ہے۔ یہ مولانا محمد امین کا بیان ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ جمعہ کو چھ بجے شام ان کی عیادت کے لیے گئے تھے۔ دیکھا کہ ان کے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند تھیں۔ آگے فرماتے ہیں کہ ''میں نے دروازے سے کان لگائے تو آہستہ آہستہ پنکھا چلنے کی آواز سنائی دی خاکم بدہن مجھے شک گزرا۔ میں نے جرات کر کے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی، کون۔ میں مولانا امین ہوں۔ ٹھہرو، میں دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک نحیف آواز آئی۔ مولانا صاحب میں دروازہ نہیں کھول سکتا۔ میری آواز سنتے ہو۔ میں کانپ اٹھا''۔
یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد ڈاکٹر نیر نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ چاہیے تھا کہ وہ بھاگ کر کسی ڈاکٹر کو بلا لائیں۔ ساہیوال کے سب احباب کو جمع کریں اور اس خرقہ پوش کے آخری لمحات میں ان کے ساتھ رہیں۔ اگلا پورا دن گزرا۔ امین صاحب یا ساہیوال کے دیگر احباب ان کی بیمار پرسی کو نہ آئے۔ کسی نے جھنگ میں ان کے خاندان کے لوگوں کو امجد کے دم واپسیں ہونے کی اطلاع دی نہ خود چوبیس گھنٹے امجد کے سرہانے بیٹھے رہنے کی زحمت کی''۔
آگے چل کر ڈاکٹر نیر لکھتے ہیں۔ ''یہ دیوتا صفت انسان کس کوشش میں، کس وقت کے ساتھ، کس حاجت کے لیے پلنگ سے اٹھا ہو گا۔ اور پھر جانے کس طرح کی جان لیوا کش مکش کے بعد فرش خاک پر گر پڑا ہو گا''۔
ڈاکٹر نیر نے آگے یوں رقم کیا ہے ''امجد صاحب کی وفات کے فوری بعد کے واقعات اس سے بھی زیادہ الم ناک ہیں اور ہماری سماجی اخلاقیات کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہیں۔ ساہیوال میں ان دنوں جاوید قریشی ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے موجود تھے۔ ان کا بیان جو یہاں نقل کیا گیا وہ اس طرح ہے۔
''عصر کے لگ بھگ مجھے اطلاع ملی کہ مجید امجد کا انتقال ہو گیا ہے۔ اب فوری طور پر مسئلہ یہ تھا کہ انھیں دفن کہاں کیا جائے۔ ساہیوال میں جہاں انھوں نے ایک عمر بتائی یا جھنگ میں جو ان کا آبائی وطن تھا۔ باہمی صلاح و مشورے سے یہی طے ہوا کہ ان کی میت کو جھنگ بھیجا جائے''۔
جھنگ یہ میت کیسے بھیجی گئی اس کا احوال جاوید قریشی صاحب نے جیسا کہ اس کتاب میں نقل کیا گیا ہے یوں بیان کیا ہے۔
''اسٹیڈیم ہوٹل ساہیوال کے بابا جوگی نے ایک ٹرک کا بندوبست کر دیا۔ اس ٹرک کو جب میں نے دیکھا تو مجھے بہت ہی رنج ہوا۔ ایک تو مجید امجد صاحب کی موت خود ہی کوئی چھوٹا سانحہ نہ تھا۔ دوسرے جس بے سروسامانی میں انھوں نے جان دی وہ وجہ کرب بنی ہوئی تھی۔ اور پھر یہ ٹرک جس میں مجید امجد صاحب کی میت کو ساہیوال اور جھنگ کے درمیان آخری سفر طے کرنا تھا گندگی اور غلاظت سے پاک نہ تھا۔ غالباً اسے مویشیوں کی باربرداری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
چنانچہ میں نے ٹرک کو دھلوایا اور صاف کروا کے ایک دری اس میں بچھوا دی۔ ادھر ادھر برف کی سلیں رکھوا کے ٹرک کو مجید امجد کی میت کے لیے تیار کروا لیا گیا... پندرہ بیس افراد جن میں ایک بھی مجید امجد کا دوست نہ تھا اور جو خدا جانے کیسے اس جگہ میت کی خبر سن کر جمع ہو گئے تھے یا ڈپٹی کمشنر کی موجودگی دیکھ کر مجید امجد کو خدا حافظ کہا۔ مغرب کے وقت ٹرک مجید امجد صاحب کی میت ان کے دیرینہ ملازم کی نگرانی میں لے کر جھنگ کے لیے روانہ ہوا''۔
ڈاکٹر نیر لکھتے ہیں ''مجید امجد کی وفات سے لے کر ان کی میت کی جھنگ روانگی تک ساہیوال کے ادبا و شعرا کی عدم موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے''۔
تو کیا اب جو مجید امجد سے بڑھ بڑھ کر عقیدت و محبت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے یہ اسی بے حسی کی تلافی کی کوشش تو نہیں ہے مگر ع
ایسی باتوں سے کہیں درد جگر جاتا ہے
باقی اس کتاب میں مجید امجد کی سیرت و شخصیت کا تجزیہ کیا گیا ہے اور شاعری کو جس بصیرت کے ساتھ جانچا پرکھا گیا ہے اس پر تو ہم پہلے تبصرہ کر چکے ہیں اور مصنف کو داد دے چکے ہیں۔