یہ آرزو دھواں دھواں
وہی بے ڈھنگی چال۔تقسیم سے پہلے اور بعد علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے پورے برصغیر کو جگا دیا،
لکھنے اور پڑھنے کی ابتدا یقیناً اس وقت سے ہوئی جب چھپائی شروع ہوئی۔ کتابیں چھپیں، اخبارات شایع ہونا شروع ہوئے اور پھر میگزین منظرعام پر آئے۔ سب کا مقصد قارئین تک تازہ معلومات اور خبریں کم وقت میں پہنچانا تھا۔ پھر ٹیلی وژن اور اب انٹرنیٹ کیا آ گیا کہ دنیا ہماری مٹھی میں بند ہو گئی۔
برصغیر میں اخبارات کے بعد جب کتابیں شایع ہونی شروع ہوئیں تو شاعری کے دیوان، ناول، افسانوی مجموعے اور ڈرامے شایع ہوئے۔ غالب، میر تقی میر، داغ کے کلام لوگوں نے سر آنکھوں پر رکھے۔ کچھ کا مقصد محض شاعری کرنا تھا اور کچھ کا مشن تھا کہ معاشرہ سدھارا جائے۔ تفریحی ناول اور افسانے عبدالحلیم شرر، عظیم بیگ چغتائی، اے آر خاتون، شوکت تھانوی، شفیق الرحمٰن، فکر تونسوی، ابراہیم جلیس اور ابن انشا نے لکھے، پڑھنے والوں سے داد پائی اور دل کو شاد کام کیا، مگر معاشرتی انحطاط اور تنزلی کسی طرح سے دور نہ ہوئی۔
وہی بے ڈھنگی چال۔تقسیم سے پہلے اور بعد علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے پورے برصغیر کو جگا دیا، ہماری آنکھیں وا ہو گئیں۔ علامہ نے زندہ رہنے کا مقصد بتایا اور زندگی سے آگاہی کی تعلیم دی۔ وہ صرف ایک شاعر نہیں، بلکہ ریفارمر بھی تھے۔ انھوں نے مشاعروں میں داد پانے کے لیے شاعری نہیں کی۔ اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا۔ لیکن آزادی مل گئی، وطن مل گیا، اس کے بعد اقبال صرف پی ایچ ڈی کے مقالات لکھنے کے لیے رہ گئے۔ ہر سال کئی کتابیں چھپ جاتی ہیں۔ کلام اقبال کے نئے ایڈیشن بک اسٹالوں پر آ جاتے ہیں، مگر نئی نسل ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ اس لیے کہ اب اقبال کا شاہین اس کا آئیڈیل نہیں رہا ہے۔ خدا اس کا اقبال بلند رکھے، اس پر دبئی اور انگلینڈ جانے کی دھن سوار ہے۔
معاشرتی اور جھنجوڑنے والی تحریریں، زہریلے افسانے ناولیں، کرشن چندر، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی، منٹو، شوکت صدیقی، احمد ندیم قاسمی نے لکھیں۔ لوگ ان کے افسانے اور ناولیں پڑھ کر تڑپ تڑپ اٹھتے تھے۔ منٹو کو کئی بار عدالت کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔ کاٹ دار شاعری حبیب جالب، فیض، مجاز اور جوش نے پیش کی۔ حبیب جالب ملک کے کونے کونے میں مشہور ہوئے، ان کی باغیانہ اور زہریلی شاعری زبان زد عام ہوئی۔ انھوں نے اہل سیاست پر بھی چھینٹے اچھالے۔ پڑھنے والوں نے اعتراف کیا کہ ان کے قلم کی زد میں جب کوئی آتا تھا تو وہ اسے خوب رگیدتے تھے۔
مگر پھر حکومت نے انھیں رگڑا اور وہ پابند سلاسل رہے۔ نتیجہ کیا نکلا، ڈھاک کے تین پات۔ ہماری روش میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہم نے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔اصلاحی ناول نگاروں کی مساعی جمیلہ بھی کچھ کم نہیں تھیں۔ نسیم احمد حجازی، صادق حسین سردھنوی۔ رئیس احمد جعفری اور عنایت اللہ نے تاریخ کے ساتھ اصلاح کی آمیزش کی اور پڑھنے والوں کو راہ مستقیم پر چلانے کی کوشش کی۔ ان کا انداز ناصحانہ کے بجائے دوستانہ تھا، لیکن ناول کو قارئین نے ناول کی حیثیت سے پڑھا۔
اس کے اندراجات اور پیغام کو خود میں جذب کرنے اور اس کا مفہوم جاننے کی کسی نے سعی نہیں کی۔ گویا قارئین صرف ٹائم پاس کرنا چاہتے تھے۔ انھیں اصلاح سے کوئی غرض نہیں تھی۔ انھیں اسلامی ہیرو بننے میں کوئی دلکشی نظر نہیں آئی۔ البتہ جیمز بانڈ اور سپرمین ہماری آنکھوں کا تارہ بن گئے۔
گزشتہ ستر برس سے بدعنوانیاں، معاشرتی کوڑھ پن، بھوک، افلاس اور ناہمواریاں ہمارے شاعروں، افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے قلم کی زد میں آتے رہے ہیں۔ وہ انھیں بے نقاب کرتے رہے ہیں۔ صحافیوں نے اپنا کردار انصاف سے نبھایا اور دارورسن کی بھینٹ بھی چڑھے۔ انھوں نے حق سچ بیان کیا اور اس کی پاداش میں سزائیں پائیں اور موت کو گلے لگایا۔ گزشتہ دس برس میں 42 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک کر دیے گئے، جن میں سے 29 کو کھلے عام قتل کیا گیا۔
2011ء میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد سات تھی۔ صحافیوں نے آزادی صحافت کے لیے جان لڑا دی۔ سچ کی علمبرداری کے لیے پابہ جولاں ہوئے، لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے اور شعور کی آنکھ سے جائزہ لیتے ہیں تو نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کی صورت میں نکلتا ہے۔ بلند و بالا عمارات تعمیر ہو گئیں، کشادہ سڑکیں بن گئیں، پلوں کا جال بچھ گیا، نت نئے تعلیمی ادارے کھل گئے، مگر اخلاقیات کے پیمانے سے پیمائش کی جائے تو ہمارا گراف گزشتہ کے مقابلے میں قعر مزلت میں جا رہا ہے۔
مسجدوں کی تعداد بھی ماشاء اللہ سے بڑھتی جا رہی ہے۔ مبلغ اچھائی اور برائی تلقین کر رہے ہیں۔ نیک کیا ہے اور بد کیا، اسے گہرائیوں اور گیرایوں سے سمجھا رہے ہیں۔ مبلغوں میں مولانا مودودی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شاہ احمد نورانی، شاہ بلیغ الدین اور نعیم صدیقی نے اپنی سی کوششیں کر ڈالیں، لیکن کوئی معنی خیز نتیجہ نہ نکل سکا۔ اب مدارس بھی کھل چکے ہیں اور کچھ لوگ (آٹے میں نمک کے برابر) آمادہ جہاد بھی نظر آ رہے ہیں۔
جہادی تنظیموں کے علاوہ تبلیغی تنظیمیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ سب کی کوشش یہی ہے کہ معاشرے کی اصلاح ہو جائے، نمازیوں کی تعداد میں (رمضان کے علاوہ) اضافہ ہو جائے۔ لوگ خدا کی وحدانیت سے واقف ہو جائیں اور آنحضرتﷺ کی سنت کی پیروی کریں۔ لہو و لعب سے کنارہ کشی اختیار کریں، گمراہی چھوڑ دیں، سیدھے سچے بن جائیں مگر زندگی کے ہر موڑ پر دوسرے بے راہ رو اور کافر دکھائی دیتے ہیں اور ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ نہ کوئی تحریر اثر کرتی ہے اور نہ کوئی وعظ ہمیں صحیح مسلمان بنا پاتا ہے۔
گھوسٹ اسکول یعنی بھوت اسکول محکمہ تعلیم کے کھاتوں میں ان کا اندراج تو تھا، لیکن روئے زمین پر ان کا کوئی وجود نہ تھا۔ حکومت پنجاب نے ان بھوتوں کو ختم کرنے کے لیے حتمی اور دو ٹوک اقدامات کیے۔ صورت حال میں اس کے بعد مثبت تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ گھوسٹ اسکول نہیں رہے اور اب جو بچے ہیں وہ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ نئی الجھن یہ پیدا ہو چکی ہے کہ معلم گھوسٹ بن چکے ہیں۔ کبھی کلاس میں آنا اور کبھی نہ آنا، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ کبھی کبھار ہی آنا۔ اسکول کو ملنے والی امداد گھوسٹ معلموں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسکول کی خستہ عمارت اپنی زبوں حالی پر آنسو بہاتی ہے اور ٹاٹ پر بیٹھنے والے معصوم طالب علموں کے سروں پر اس کی چھت گر جاتی ہے۔ وطن عزیز میں تعلیم کا حصول دشوار بلکہ ہولناک ہے۔ نواحی بستیوں کے جو طالبعلم اس مرحلے سے گزر جاتے ہیں اور میٹرک کا درجہ لڑھک لڑھکا کر پاس بھی کر لیتے ہیں تو دفتروں میں کوٹے کی بنیاد پر کلرک بن جاتے ہیں۔ پھر وہی کچھ کرتے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے۔
کوئی بھی کام ہو اور آپ نے قانونی تقاضے بھی پورے کر لیے ہوں، لیکن جب تک مٹھی گرم نہ کر دی جائے، چڑیا نہیں بیٹھتی اور فائل آگے نہیں سرکتی۔ کالم نویسوں نے اس کے بارے میں لکھ لکھ کر کالم سیاہ کر دیے۔ مگر مثبت نتیجہ نہیں نکلا، سب کچھ سیاہ تھا اور اب بھی سیاہ ہے۔لکھنے والے معاشرے کی بدعنوانیوں اور ناہمواریوں پر کالم پہ کالم گھسیٹے جا رہے ہیں، کہیں سے کچھ درست نہیں ہوتا۔ کسی بھی دن کا کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔
لوگوں کی ہلاکت کی خبریں صفحہ اول پر مل جائیں گی۔ قانون کی سربلندی اور سرفرازی ہمیں حاصل ہی نہیں ہو پاتی۔ اخبارات و رسائل کے علاوہ چینلز خفیہ فلمیں بنا کر سارا کچا چٹھا پیش کرتے ہیں۔ کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ لے دے کے معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی صحافی نہ مانے اور سچ بولنے کی قسم کھا لے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو شہد کی مکھیوں کے چھتے کو ہاتھ لگانے پر ہوتا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم لکھ لکھ کر طومار کیوں باندھے جا رہے ہیں؟ برطانیہ میں کرسٹائن کیلر اور پرفیومو اسکینڈل کے بارے میں پریس میں خبریں شایع ہوتے ہی ان کی ساری کابینہ کو استعفیٰ دینا پڑا۔
امریکا میں پریس نے بل کلنٹن اور مونیکا کے عشق پر ہا ہو مچائی تو بل کلنٹن کو ساری قوم سے معافی مانگنا پڑی۔ امریکا ہی میں جب امپائر اسٹیٹ بلڈنگ کا مالک ایک کرپشن کیس میں ملوث ہوا اور اس کے بارے میں اخبارات میں مواد شایع ہوا تو پولیس نے اسے ہتھکڑی لگا دی اور اس کی تصاویر بڑے اہتمام سے شایع کی گئیں۔
جاپان میں وزیراعظم کے خلاف اخبارات میں بدعنوانیوں پر مضامین شایع ہوئے۔ انھوں نے ساری کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا۔ ہمارے ہاں پریس کی آزادی کا خوب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، لیکن کیا لکھنے لکھانے سے کچھ درست ہو سکا ہے؟ تو پھر ہم کیوں لکھتے ہیں؟ ہم لکھے جا رہے ہیں اور آپ پڑھے جا رہے ہیں۔ سب کچھ دھواں بن کر فضا میں کیوں اڑ رہا ہے؟
برصغیر میں اخبارات کے بعد جب کتابیں شایع ہونی شروع ہوئیں تو شاعری کے دیوان، ناول، افسانوی مجموعے اور ڈرامے شایع ہوئے۔ غالب، میر تقی میر، داغ کے کلام لوگوں نے سر آنکھوں پر رکھے۔ کچھ کا مقصد محض شاعری کرنا تھا اور کچھ کا مشن تھا کہ معاشرہ سدھارا جائے۔ تفریحی ناول اور افسانے عبدالحلیم شرر، عظیم بیگ چغتائی، اے آر خاتون، شوکت تھانوی، شفیق الرحمٰن، فکر تونسوی، ابراہیم جلیس اور ابن انشا نے لکھے، پڑھنے والوں سے داد پائی اور دل کو شاد کام کیا، مگر معاشرتی انحطاط اور تنزلی کسی طرح سے دور نہ ہوئی۔
وہی بے ڈھنگی چال۔تقسیم سے پہلے اور بعد علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے پورے برصغیر کو جگا دیا، ہماری آنکھیں وا ہو گئیں۔ علامہ نے زندہ رہنے کا مقصد بتایا اور زندگی سے آگاہی کی تعلیم دی۔ وہ صرف ایک شاعر نہیں، بلکہ ریفارمر بھی تھے۔ انھوں نے مشاعروں میں داد پانے کے لیے شاعری نہیں کی۔ اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا۔ لیکن آزادی مل گئی، وطن مل گیا، اس کے بعد اقبال صرف پی ایچ ڈی کے مقالات لکھنے کے لیے رہ گئے۔ ہر سال کئی کتابیں چھپ جاتی ہیں۔ کلام اقبال کے نئے ایڈیشن بک اسٹالوں پر آ جاتے ہیں، مگر نئی نسل ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ اس لیے کہ اب اقبال کا شاہین اس کا آئیڈیل نہیں رہا ہے۔ خدا اس کا اقبال بلند رکھے، اس پر دبئی اور انگلینڈ جانے کی دھن سوار ہے۔
معاشرتی اور جھنجوڑنے والی تحریریں، زہریلے افسانے ناولیں، کرشن چندر، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی، منٹو، شوکت صدیقی، احمد ندیم قاسمی نے لکھیں۔ لوگ ان کے افسانے اور ناولیں پڑھ کر تڑپ تڑپ اٹھتے تھے۔ منٹو کو کئی بار عدالت کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔ کاٹ دار شاعری حبیب جالب، فیض، مجاز اور جوش نے پیش کی۔ حبیب جالب ملک کے کونے کونے میں مشہور ہوئے، ان کی باغیانہ اور زہریلی شاعری زبان زد عام ہوئی۔ انھوں نے اہل سیاست پر بھی چھینٹے اچھالے۔ پڑھنے والوں نے اعتراف کیا کہ ان کے قلم کی زد میں جب کوئی آتا تھا تو وہ اسے خوب رگیدتے تھے۔
مگر پھر حکومت نے انھیں رگڑا اور وہ پابند سلاسل رہے۔ نتیجہ کیا نکلا، ڈھاک کے تین پات۔ ہماری روش میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہم نے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔اصلاحی ناول نگاروں کی مساعی جمیلہ بھی کچھ کم نہیں تھیں۔ نسیم احمد حجازی، صادق حسین سردھنوی۔ رئیس احمد جعفری اور عنایت اللہ نے تاریخ کے ساتھ اصلاح کی آمیزش کی اور پڑھنے والوں کو راہ مستقیم پر چلانے کی کوشش کی۔ ان کا انداز ناصحانہ کے بجائے دوستانہ تھا، لیکن ناول کو قارئین نے ناول کی حیثیت سے پڑھا۔
اس کے اندراجات اور پیغام کو خود میں جذب کرنے اور اس کا مفہوم جاننے کی کسی نے سعی نہیں کی۔ گویا قارئین صرف ٹائم پاس کرنا چاہتے تھے۔ انھیں اصلاح سے کوئی غرض نہیں تھی۔ انھیں اسلامی ہیرو بننے میں کوئی دلکشی نظر نہیں آئی۔ البتہ جیمز بانڈ اور سپرمین ہماری آنکھوں کا تارہ بن گئے۔
گزشتہ ستر برس سے بدعنوانیاں، معاشرتی کوڑھ پن، بھوک، افلاس اور ناہمواریاں ہمارے شاعروں، افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے قلم کی زد میں آتے رہے ہیں۔ وہ انھیں بے نقاب کرتے رہے ہیں۔ صحافیوں نے اپنا کردار انصاف سے نبھایا اور دارورسن کی بھینٹ بھی چڑھے۔ انھوں نے حق سچ بیان کیا اور اس کی پاداش میں سزائیں پائیں اور موت کو گلے لگایا۔ گزشتہ دس برس میں 42 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک کر دیے گئے، جن میں سے 29 کو کھلے عام قتل کیا گیا۔
2011ء میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد سات تھی۔ صحافیوں نے آزادی صحافت کے لیے جان لڑا دی۔ سچ کی علمبرداری کے لیے پابہ جولاں ہوئے، لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے اور شعور کی آنکھ سے جائزہ لیتے ہیں تو نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کی صورت میں نکلتا ہے۔ بلند و بالا عمارات تعمیر ہو گئیں، کشادہ سڑکیں بن گئیں، پلوں کا جال بچھ گیا، نت نئے تعلیمی ادارے کھل گئے، مگر اخلاقیات کے پیمانے سے پیمائش کی جائے تو ہمارا گراف گزشتہ کے مقابلے میں قعر مزلت میں جا رہا ہے۔
مسجدوں کی تعداد بھی ماشاء اللہ سے بڑھتی جا رہی ہے۔ مبلغ اچھائی اور برائی تلقین کر رہے ہیں۔ نیک کیا ہے اور بد کیا، اسے گہرائیوں اور گیرایوں سے سمجھا رہے ہیں۔ مبلغوں میں مولانا مودودی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شاہ احمد نورانی، شاہ بلیغ الدین اور نعیم صدیقی نے اپنی سی کوششیں کر ڈالیں، لیکن کوئی معنی خیز نتیجہ نہ نکل سکا۔ اب مدارس بھی کھل چکے ہیں اور کچھ لوگ (آٹے میں نمک کے برابر) آمادہ جہاد بھی نظر آ رہے ہیں۔
جہادی تنظیموں کے علاوہ تبلیغی تنظیمیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ سب کی کوشش یہی ہے کہ معاشرے کی اصلاح ہو جائے، نمازیوں کی تعداد میں (رمضان کے علاوہ) اضافہ ہو جائے۔ لوگ خدا کی وحدانیت سے واقف ہو جائیں اور آنحضرتﷺ کی سنت کی پیروی کریں۔ لہو و لعب سے کنارہ کشی اختیار کریں، گمراہی چھوڑ دیں، سیدھے سچے بن جائیں مگر زندگی کے ہر موڑ پر دوسرے بے راہ رو اور کافر دکھائی دیتے ہیں اور ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ نہ کوئی تحریر اثر کرتی ہے اور نہ کوئی وعظ ہمیں صحیح مسلمان بنا پاتا ہے۔
گھوسٹ اسکول یعنی بھوت اسکول محکمہ تعلیم کے کھاتوں میں ان کا اندراج تو تھا، لیکن روئے زمین پر ان کا کوئی وجود نہ تھا۔ حکومت پنجاب نے ان بھوتوں کو ختم کرنے کے لیے حتمی اور دو ٹوک اقدامات کیے۔ صورت حال میں اس کے بعد مثبت تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ گھوسٹ اسکول نہیں رہے اور اب جو بچے ہیں وہ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ نئی الجھن یہ پیدا ہو چکی ہے کہ معلم گھوسٹ بن چکے ہیں۔ کبھی کلاس میں آنا اور کبھی نہ آنا، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ کبھی کبھار ہی آنا۔ اسکول کو ملنے والی امداد گھوسٹ معلموں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسکول کی خستہ عمارت اپنی زبوں حالی پر آنسو بہاتی ہے اور ٹاٹ پر بیٹھنے والے معصوم طالب علموں کے سروں پر اس کی چھت گر جاتی ہے۔ وطن عزیز میں تعلیم کا حصول دشوار بلکہ ہولناک ہے۔ نواحی بستیوں کے جو طالبعلم اس مرحلے سے گزر جاتے ہیں اور میٹرک کا درجہ لڑھک لڑھکا کر پاس بھی کر لیتے ہیں تو دفتروں میں کوٹے کی بنیاد پر کلرک بن جاتے ہیں۔ پھر وہی کچھ کرتے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے۔
کوئی بھی کام ہو اور آپ نے قانونی تقاضے بھی پورے کر لیے ہوں، لیکن جب تک مٹھی گرم نہ کر دی جائے، چڑیا نہیں بیٹھتی اور فائل آگے نہیں سرکتی۔ کالم نویسوں نے اس کے بارے میں لکھ لکھ کر کالم سیاہ کر دیے۔ مگر مثبت نتیجہ نہیں نکلا، سب کچھ سیاہ تھا اور اب بھی سیاہ ہے۔لکھنے والے معاشرے کی بدعنوانیوں اور ناہمواریوں پر کالم پہ کالم گھسیٹے جا رہے ہیں، کہیں سے کچھ درست نہیں ہوتا۔ کسی بھی دن کا کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔
لوگوں کی ہلاکت کی خبریں صفحہ اول پر مل جائیں گی۔ قانون کی سربلندی اور سرفرازی ہمیں حاصل ہی نہیں ہو پاتی۔ اخبارات و رسائل کے علاوہ چینلز خفیہ فلمیں بنا کر سارا کچا چٹھا پیش کرتے ہیں۔ کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ لے دے کے معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی صحافی نہ مانے اور سچ بولنے کی قسم کھا لے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو شہد کی مکھیوں کے چھتے کو ہاتھ لگانے پر ہوتا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم لکھ لکھ کر طومار کیوں باندھے جا رہے ہیں؟ برطانیہ میں کرسٹائن کیلر اور پرفیومو اسکینڈل کے بارے میں پریس میں خبریں شایع ہوتے ہی ان کی ساری کابینہ کو استعفیٰ دینا پڑا۔
امریکا میں پریس نے بل کلنٹن اور مونیکا کے عشق پر ہا ہو مچائی تو بل کلنٹن کو ساری قوم سے معافی مانگنا پڑی۔ امریکا ہی میں جب امپائر اسٹیٹ بلڈنگ کا مالک ایک کرپشن کیس میں ملوث ہوا اور اس کے بارے میں اخبارات میں مواد شایع ہوا تو پولیس نے اسے ہتھکڑی لگا دی اور اس کی تصاویر بڑے اہتمام سے شایع کی گئیں۔
جاپان میں وزیراعظم کے خلاف اخبارات میں بدعنوانیوں پر مضامین شایع ہوئے۔ انھوں نے ساری کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا۔ ہمارے ہاں پریس کی آزادی کا خوب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، لیکن کیا لکھنے لکھانے سے کچھ درست ہو سکا ہے؟ تو پھر ہم کیوں لکھتے ہیں؟ ہم لکھے جا رہے ہیں اور آپ پڑھے جا رہے ہیں۔ سب کچھ دھواں بن کر فضا میں کیوں اڑ رہا ہے؟