داعش کون کب اور کیسے

عراقی آثار قدیمہ کے ماہر لامیہ الگیلانی کا کہنا ہے کہ داعش نے ملک کی تاریخ کو کاری ضرب لگائی ہے۔


شعیب واجد March 12, 2015

عراق میں اب وہ بھی ہونا شروع ہو گیا جو بعید از قیاس ہرگز نہ تھا، یعنی داعش (دولت اسلامیہ عراق و شام) نے عراقی شہر نمرود میں بھی اپنا کھیل، کھیل دیا۔ جی ہاں، لیکن اس بار نشانہ آبادی کے نوجوان نہیں، بلکہ آثار قدیمہ بنے۔

اس تاریخی شہر کی بنیاد تیرھویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔ موصل کے پاس واقع اس شہر کے باسیوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جن آثار کی حفاظت وہ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں، جنھیں دیکھنے دنیا بھر سے لوگ آتے تھے، وہ یوں پل میں ملیامیٹ ہو جائیں گے۔ داعش کے ارکان بڑی تعداد میں شہر میں داخل ہوئے، بھاری گاڑیاں اور اسلحہ اور توڑ پھوڑ کا سامان بھی ساتھ لائے، اور پھر شروع کر دیا بربادی کا کھیل۔

عراقی آثار قدیمہ کے ماہر لامیہ الگیلانی کا کہنا ہے کہ داعش نے ملک کی تاریخ کو کاری ضرب لگائی ہے۔ عراقی صوبے نینوا میں واقع یہ کھنڈرات قدیم میسوپوٹیمیا کی آرامینئن یا عاشوری تہذیب کی اہم ترین باقیات میں سے ہیں۔ بربادی کے اس کھیل نے طالبان کے ہاتھوں 2001ء میں افغان صوبے بامیان میں بدھا کے مجسموں کی تباہی کی یاد دلادی۔ اس تنظیم نے جون 2014ء میں عراق کے شہر موصل پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد وہ اس کو اپنے دارالحکومت ٹائپ ٹھکانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

اس گروہ نے قدیم آثار کو تباہ کرنے کی توجیہہ یہ پیش کی کہ وہ ان کے شعار سے مطابقت نہیں رکھتے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قدم کا مقصد دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ لیکن داعش نے اس سے پہلے کچھ وارداتیں ایسی بھی کیں، جن سے عالم اسلام میں بھی صدمے کی لہر دوڑ گئی۔ داعش کے جنگجو عراق اور شام میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں تاریخی نوادرات ہی کو تباہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ انھوں نے صوفیا اور علما کے متعدد مزارات کو بھی گرا دیا ہے۔

جب سے داعش نے موصل پر قبضہ کیا ہے اس کے بعد سے اب تک موصل، کرکوک اور اس کے مضافات میں 30 مزارات اور 9 مساجد کو دھماکوں سے شہید کیا جا چکا ہے۔ یہی نہیں، داعش نے شام اور عراق میں متعدد صحابہ کی آخری آرام گاہوں کو بھی بموں سے تباہ کر دیا۔ لیکن سب سے بڑے سانحات اس وقت ہوئے، جب داعش نے حضرت یونس، حضرت شیث، حضرت جرجیس اور حضرت دانیال علیہم السلام جیسے اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں کے مزارات تک کو شہید کر ڈالا۔ جامعہ الازہر نے ان وحشتناک اقدامات پر کہا کہ داعش نے ثابت کیا ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لوگ پوچھتے ہیں یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے؟

دولت اسلامیہ کی جڑیں اردن کے ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیم سے بھی ملتی ہیں، جس نے 2002ء 'توحید والجہاد' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد اس نے القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔2006ء میں زرقاوی کی ہلاکت کے بعد 'القاعدہ فی العراق' نے 'داعش' کے نام سے تنظیم قائم کی جو عراق میں مزاحمتی گروہوں کی نمایندہ تنظیم تھی۔ عراق سے امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد تنظیم کی سرگرمیوں میں خاصی کمی واقع ہو گئی، تاہم 2010ء میں جب ابوبکر البغدادی تنظیم کا سربراہ بنا تو تنظیم نے نئے سرے سے کارروائیاں شروع کیں۔

ساتھ ہی شام کے مزاحمت کاروں سے بھی اس نے روابط قائم کر لیے، جہاں نئی تنظیم 'النصرہ' قائم کی گئی۔ اپریل 2013ء میں ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنی تنظیموں کو متحد کرنے کا اعلان کیا اور داعش باقاعدہ وجود میں آ گئی۔ داعش کے قیام کا بنیادی مقصد عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک ملک کا قیام ہے۔ ان کے نزدیک عراق اور شام کی 1932ء میں قائم کردہ حدود ناقابل تسلیم ہیں اور وہ دونوں ملکوں کو ایک ریاست میں ضم کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔

امریکا نے عراق کو جن حالات سے دوچار کر دیا تھا، ان کی وجہ سے عراق میں حکومت دور دراز مقامات پر پلنے والی تحریکوں کی طرف توجہ نہیں دے سکی اور پھر 2014ء میں داعش ایک ایسا بڑا خطرہ بن کر ابھری۔ خصوصاً اپنے مخصوص فقہی نظریات کی وجہ سے داعش نے شام میں بشارالاسد کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔

اس دوران اسے عرب ممالک کے بعض چینلز اور بالواسطہ طور پر امریکا سے بھی مدد ملی۔ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں پونے چار برسوں کے دوران مختلف اندازوں کے مطابق دو لاکھ 82 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں سرکاری فوج کے علاوہ داعش سمیت مختلف جنگجو گروہوں کا بھی بڑا کردار تھا۔ تیس لاکھ افراد پناہ گزین بننے پر بھی مجبور کر دیے گئے۔

جون 2014ء میں عراق کی تاریخ کا عجیب دن آیا، جب ابوبکر بغدادی نے خلافت کا اعلان کیا، جس کا کہنا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ سے یورپ تک اپنی خلافت قائم کرے گا۔ 5 نومبر 2014ء کو ابوبکر البغدادی نے القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو ایک پیغام بھیجا کہ وہ اس کے ساتھ اتحاد قائم کریں، تاہم الظواہری نے اس پیغام کا جواب نہیں دیا۔

دولت اسلامیہ کے پاس نہ صرف مختلف انواع کے چھوٹے اور بڑے ہتھیار موجود ہیں، ان ہتھیاروں میں ٹرکوں پر لگی ہوئی مشین گنیں، راکٹ لانچرز، طیارہ شکن بڑی توپیں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں، ان کے پاس وہ ٹینک اور بکتربند گاڑیاں بھی موجود ہیں جو انھوں نے شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دولت اسلامیہ کے پاس دو ارب ڈالر کیش کی شکل میں موجود ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ اس وقت دنیا کا امیر ترین جنگجو گروہ ہے۔

شروع شروع میں لندن، پیرس، برلن اور دیگر مغربی شہروں سے ہجرت کرنے والے نوجوانوں نے عراق اور شام کا رخ اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ ان ملکوں کو آمروں سے نجات دلا سکیں لیکن اب یہ لوگ مکمل طور پر داعش کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ اس بارے میں القاعدہ کی حامی تنظیم النصرہ کا کہنا ہے کہ ان کی تمام تر جدوجہد بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے لیے ہونی چاہیے۔ لیکن داعش اپنی طاقت اور اپنی ریاست قائم کرنے میں زیادہ سنجیدہ ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی بھی ہوئی۔ تاہم 2014ء میں جھڑپیں روک دی گئیں۔

اکتوبر 2014ء میں لیبیا میں بھی داعش کے 800 جنگجوؤں نے شہر درنا کا کنٹرول سنبھال لیا۔ درنا شام اور عراق سے باہر پہلا شہر تھا جو دولت اسلامیہ کا شکار بنا، جس کے بعد عرب ممالک اور دنیا کو داعش کے عزائم کا اندازہ اچھی طرح ہوچکا تھا۔ 2014ء میں داعش کو سعودی عرب، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر اور بھارت کی حکومتوں نے دہشت گرد گروہ مان لیا۔ ترکی، کینیڈا، آسٹریلیا، امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پہلے ہی اسے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر چکے تھے۔

داعش اس وقت شام سے زیادہ بڑا مسئلہ عراق کے لیے بنی ہوئی ہے۔ داعش اس وقت عراق کے چالیس فیصد رقبے پر قابض ہو چکی ہے، اس کے زیراثر رقبے پر 80 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ مغربی دنیا کو داعش نے کئی شہریوں کے سر کاٹ کر بظاہر انتہائی نفرت انگیز پیغام بھیجا، لیکن داعش کے خلاف عالمی کارروائی میں، جس میں امریکا اور یورپ بھی شریک ہیں، سنجیدگی یا بہت زیادہ شدت نظر نہیں آتی۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا داعش کو مکمل ناکارہ نہیں کرے گا اور عرب دنیا میں اسرائیل کی طرح ایک اور الگ طرح کا ناسور چھوڑ دیا جائے گا۔

داعش ہو یا القاعدہ، نائیجیریا کی بوکوحرام ہو یا طالبان، مسلمان ممالک اور مسالک کا بڑا حصہ ایسے گروہوں سے قطع تعلق کا اعلان کر چکا ہے۔ ایسے گروہوں کا ابھرنا دنیائے اسلام کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ اسلام میں خارجیوں سے لے کر اب تک ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں، تاہم اب اس وقت عام مسلمان اپنے حکمرانوں سے ایک ہی سوال کر رہا ہے کہ ان کی مفاد پرستانہ پالیسیوں کے نتائج ہماری اگلی نسلیں کب تک بھگتیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔