ایک تھا بادشاہ
مجھے حیرت ہوتی ہے بلکہ رشک آتا ہے کہ کچھ حضرات روزانہ کالم لکھ سکتے ہیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے بلکہ رشک آتا ہے کہ کچھ حضرات روزانہ کالم لکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ ذہنی مشقت کئی برس سے بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ یہ پہاڑ جیسا کام کیسے سرانجام دیتے ہیں؟وہی جانتے ہیں'میں اس کا اندازہ بھی نہیں لگانا چاہتا کیونکہ زندگی میں میرے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔
بہرحال میں ان مسلسل لکھنے والوں کی صلاحیت سے متاثرہوں۔مجھے توہفتے میں محض دوکالم لکھنے ہوتے ہیں۔ ہفتے کے ابتدائی چاردن اس تیزی سے گزرتے ہیں کہ جمعہ آجاتا ہے اورمیں اپنی میزپربیٹھاکالم لکھ رہا ہوتا ہوں۔اگلا روز سوچتے ہوئے گزرتاہے پھراتوارکودوبارہ اس مشق میں مبتلا ہوجاتاہوں۔
پہلی مرتبہ لطیف چوہدری سے ملاقات ہوئی'ان کی تحریک پر قلم اٹھانے کافیصلہ کیاتومجھے قطعاً اندازہ نہیں تھاکہ میرے ساتھ کیاہونے والاہے۔چوہدری صاحب کی معصوم شخصیت سے متاثرہوکرپکاوعدہ کرڈالاکہ یہ بھاری پتھر اٹھاکر رہونگا۔
اب تقریباًدوسال کے بعدمجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے ساتھ دراصل ہواکیاہے۔کئی بار سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو یاد آیا کہ آج کالم بھجوانے کادن ہے۔ لطیف چوہدری نے مجھے ایسے کام پرلگادیاہے کہ باقی دنیاوی کام اورغم بھول چکا ہوں۔دراصل میں لطیف چوہدری کی معصوم شخصیت سے مارکھاگیا۔ مگراب میں اس ادبی زد و کوب کاعادی ہوچکا ہوں۔اس معاملے میں ایازخان کے کیا جذبات ہیں'وہ میں پوچھ کر بتاؤنگاتاہم یہ پٹھان ہونے کے باوجودانتہائی سمجھداراوراعلیٰ انسان ہے۔ انتہائی متوازن اورخوش لباس۔میں کبھی کبھی سوچتاہوں کہ میری زندگی میں چنداچھے واقعات میں،ان دو مخلص انسانوں کاملناایک سنجیدہ حادثہ ہے۔
خیربات کوآگے بڑھاتے ہوئے عرض کروں کہ سینیٹ کے الیکشن سے دوچاردن قبل مجھے ایک امیدوار نے فون کیا۔ ان کا تعلق ہرحکومتی پارٹی سے رہاہے اورخداکے فضل سے وہ آج بھی حکومتی پارٹی کااہم حصہ ہیں۔فرمانے لگے کہ آپکے چند دوست اورعزیزپارلیمنٹ میں ہیں،ان سے درخواست کیجیے کہ وہ انھیں ووٹ دیں۔
موصوف کویقین دلایاکہ میں دوڈھائی سال سے اسٹاف کالج کے خیمے میں پناہ گزین ہوں لہذامیں ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔الیکشن قریب آتاگیا، ان کا اصرار بڑھتاگیابلکہ اس میں کافی حدتک ''دہشت گردی'' عودکر آئی۔ الیکشن سے ایک دن پہلے تشریف لائے تومجھے محسوس ہواکہ یہ ''صوفی حالت ''میں ہیں۔
انھیں یقین دلایاکہ وہ حکومتی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرہیں،انھیں کسی چیزکاکوئی مسئلہ نہیں'وہ توجیتے جتائے ہیں۔آخرمیں نے سوال کیاکہ سینیٹ کے الیکشن میں ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیاہوسکتاہے؟یعنی صرف دوطرح کانتیجہ متوقع ہے۔ایک تووہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کی بدولت جیت سکتے ہیں اوردوسراوہ اپنے بلندکردارکی بدولت ہارسکتے ہیں۔پھرمیں نے انھیںدیرنیہ دوست ''چارلی'' کا قصہ سنایا۔ ہم تمام دوست اَناٹومی کا امتحان دیکر باہر نکلے۔ رنج والم کے بوجھ سے معمورکیونکہ فیل ہونے کے بہت شدید امکانات تھے۔
چارلی نے ریگل چوک سے تھوڑا ساہٹ کرایک تقریرفرمائی۔سننے والوں میں علی حماد اوریہ عاجزتھا۔چارلی کہنے لگاکہ آخر،کیا ہوجائیگا۔ ایک،یہ کہ ہم اس امتحان میں فیل ہوجائینگے۔لہذاہمیں غم دورکرنے کے لیے فلم دیکھنی ہوگی۔دوسرانتیجہ یہ ہوسکتاہے کہ ہم اتفاقیہ پاس بھی ہوسکتے ہیں۔لہذاہمیں خوشی منانے کے لیے بھی فلم دیکھنی ہوگی۔لہذاان ممکنہ نتائج کی موجودگی میں ہمیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہم سب نے چارلی کی بات مانتے ہوئے فوراً ایک اورفلم دیکھ ڈالی۔جب میں نے سینیٹ کے امیدوارکویہ قصہ سنایاتووہ تقریباًسوچکے تھے۔ لہذامجھے انھیں جگاکر یہ قصہ دہرانا پڑا۔ یہ قصہ سننے کے بعد وہ اگلے دن تک بغیر پریشانی کے الیکشن میں شامل رہے۔آج کل وہ'' فلم'' دیکھنے کے لیے غیرملکی دورے پرگئے ہوئے ہیں۔
اب ایک کہانی سنیے' یہ محض ایک کہانی ہے۔اسکاکوئی سبق نہیں ہے۔پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک ملک کاایک بادشاہ تھا۔ہربادشاہ کی طرح وہ بھی ایک بہت اچھا،نیک اورشریف قسم کاحکمران تھا۔اس کی پارسائی اورنیکی کی دھوم ہرطرف تھی۔وجہ صرف یہ تھی کہ اس نے اس کام کے لیے کئی سرکاری ملازم رکھے ہوئے تھے۔
یہ ماہانہ تنخواہ لے کرہرگلی کوچے میں بادشاہ کی اچھائی کاڈھول پیٹتے تھے۔ لیکن ان میں کئی ڈھنڈورچی بہت تنگ تھے کیونکہ انھیں اپنی تنخواہ کابل پاس کروانے کے لیے دفترخزانہ کودوفیصدرشوت دینی پڑتی تھی۔جب بادشاہ کوشکایت کرتے تھے تووہ زارو قطار روتا اور کہتا تھاکہ خزانے والے اس کی تنخواہ سے توپانچ فیصد کمیشن لیتے ہیں،جو سراسرناانصافی ہے۔یہ سن کرتمام ڈھول بجانے والے چپ چاپ دربارسے واپس آجاتے تھے۔ خدا کاشکراداکرتے تھے کہ چلودو فیصد دیکرتنخواہ تومل جاتی ہے۔
بادشاہ کیونکہ بادشاہ تھالہذااسکے کئی وزیربھی تھے۔ان میں ہرطرح کے وزیرتھے۔کسی کاتعلق فارس سے تھا،کسی کاچین سے اورکئی ترک نسل کے تھے۔لیکن ان میں کئی وزیر اورمشیرایسے بھی تھے جنکاتعلق کسی علاقے سے نہیں تھا۔بلکہ بادشاہ اوررعایاکویہ بھی معلوم نہیں تھاکہ وہ کون ہیں؟وزراء میں کئی طرح کی درجہ بندی تھی۔
ایک وزیر با تدبیر تھا۔ بادشاہ اس کی بتائی ہوئی کسی تدبیرپرعمل نہیں کرتا تھا، بلکہ ہرکام ہمسایہ بادشاہ سے پوچھتاتھا۔ اگر ہمسایہ بادشاہ دورے پرہو توپھروہ کسی سے کچھ نہیں پوچھتا تھا۔ خیروزیر باتدبیرسب سے موثروزیرتھا۔ اس سے سب ڈرتے تھے۔ لیکن اس کی غیر موجودگی میں اس وزیرکامذاق اڑاتے تھے کہ یہ بہت بیوقوف ہے۔ اس کی کوئی تجویز معقول نہیں ہوتی۔لیکن ان بے چاروں کومعلوم ہی نہیں تھاکہ بادشاہ کووہ وزیرصرف اس لیے پسندتھا کہ وہ عقل سے پیدل ہے۔
کچھ وزراء قوم کے دردمیں تنخواہ کے بغیرکام کرتے تھے۔انھوں نے یہ بات کئی اخباروں میں بھی پریس ریلیز کے طورپرشایع کررکھی تھی لیکن ان بے چارے وزراء کا گزارامحض ٹھیکوں کی کمیشن پرہوتاتھا۔وہ ہر معاملے میں کمیشن وصول کرناعین حب الوطنی سمجھتے تھے۔ ایک وزیرموصوف توایسے تھے جورشوت کے پیسے کودیکھناتک گناہ سمجھتے تھے۔یہ کام انھوں نے اپنی تیسری بیگم کے حوالے کررکھاتھا۔وہ انتہائی ایمانداری سے پیسے وصول کرکے غیرملکی بینک میں جمع کروادیتی تھی۔
اس وزیرکی پارسائی اورایمانداری کے قصے گلی گلی میں مشہور تھے۔ مگر چند ناہنجارباغی قسم کے لوگ وزیروں کے غیرملکی اکاونٹس کی فہرست عوام کوتھمادیتے تھے۔ حکومت کے خلاف ان نابکارلوگوں کودن میں بولنے کی اجازت نہیں تھی۔لہذاوہ یہ کام شام کوٹی وی چینلوں پرکرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے تھے۔ان کی ناکامی دیکھ کربادشاہ کے قریبی دوست روز بغلیں بجاتے تھے۔کئی دوست توبغلیں بجابجاکر تھک چکے تھے۔ اور اس کام کے لیے انھوں نے سرکاری افسر رکھ لیے تھے۔
وزیرباتدبیربہت مختلف انسان تھا۔اس میں کسی قسم کی منافقت اورریاکاری نہیں تھی۔وہ ڈبل تنخواہ لیتاتھا۔ایک اپنی اورایک اپنے ملازم کے نام پر۔وہ رشوت اورکمیشن کوبہت براسمجھتاتھا۔وہ تقریریں کرتاتھاکہ اس برائی سے ملک کے عوام اورنظام کوبہت نقصان پہنچاہے۔جب بھی وہ تقریر کرتاتھا،لوگ احتراماًٹی وی بندکردیتے تھے۔اس ایماندار وزیر کو اللہ کی زمین سے ازحدمحبت تھی۔اپنی وزارت میںحکم دے رکھاتھاکہ خداکی زمین پرجوبھی کارنرپلاٹ نظرآئے،فوری طور پراسے الاٹ کروادیاجائے۔
بادشاہ ضرورت سے زیادہ انصاف پسندتھااور یہ بات صرف ملکہ کومعلوم تھی۔ بادشاہ نے ملکہ کو بھی کئی امور میں بے خبر رکھا تھا۔ راز کی باتیں صرف بادشاہ کے سفیدفام غلام یاقوت کومعلوم تھی۔یاقوت اس رازکوپوشیدہ رکھنے کی کوئی قیمت وصول نہیں کرتاتھا۔وہ بادشاہ کاازحدوفادار تھا۔ اس نے ایمانداررہنے کی قسم اٹھارکھی تھی۔لہذاوہ صرف اپنے قابل بھروسہ رشتہ داروں کے نام پرکشش ٹھیکے حاصل کرتا تھا۔تمام وزراء اس غلام سے ڈرتے تھے۔ مگروزیرباتدبیرسے یاقوت ڈرتاتھا۔
بہرحال بات بادشاہ کے انصاف کی ہورہی تھی۔اکثر بادشاہ بھیس بدل کرسارا دن سڑکوں پر گھومتا رہتا تھا۔ایسا اس لیے کرتا تھا کہ رات کوڈاکوگھومتے تھے۔ ایک اور مسئلہ بھی تھا کہ بادشاہ جس دن بھیس بدل کر نکلتا تھا، اس سے پہلے خفیہ اہلکارعام لوگوں کو خبرکردیتے تھے۔
یہ خبرڈاکوؤں کوبھی پہنچاتے تھے۔ یوںتمام حفاظتی اقدامات وہ کرتے تھے۔بادشاہ کوعام آدمیوں کے مسائل سے بہت محبت تھی۔وہ ان کے تمام مسائل انتہائی غورسے سنتاتھا ۔اس نے ایک درباری فرمان جاری کر رکھاتھاکہ ہرعوامی مسئلہ سناجائے مگراسے حل نہ کیاجائے۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اگرعوامی مسائل حل ہوگئے تواس کی بادشاہت کاکیابنے گا۔لہذاوہ خودوزیربے تدبیرکو کہتا رہتاتھاکہ لوگوں کے مسائل بڑھاؤ تاکہ انکوسناجاسکے!
بادشاہ کواپنی جان اورحفاظت کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔لیکن وہ رات کو محل سے باہرنہیں نکلتاتھا۔اس کی ایک وجہ تویہ تھی کہ ایک دن اپنی اہلیہ کے ساتھ سیرکر رہا تھاکہ شہرکے نئے داروغہ نے اس سے نکاح نامہ طلب کرلیا۔ بادشاہ نے کیونکہ بھیس بدلا ہوا تھا لہذااس نے نئے داروغہ کودس اشرفی رشوت دیکرجان بچائی۔
تین دن کے بعد دربارخاص الخاص میں داروغہ کوطلب کیااور بیس اشرفیاں وصول کیں۔مغرب کے بعدمحل سے باہرنہ نکلنے کی دوسری وجہ بتائی نہیں جاسکتی۔کیونکہ شام کے بعدمختلف تاجر، درباری ،سردار، نواب، پیسوں سے بھرے ہوئے بریف کیس، اورتحفہ لے کرآتے تھے۔اس کی واحدوجہ بادشاہ کی انصاف پسندی اورایمانداری تھی!
اس بے مقصد کہانی کابقیہ تمام حصہ میں کسی اورکالم میں عرض کرونگا۔تاریخ میں ایسے بہت سے بادشاہوں کا دور گزرا ہے جن کی کہانی تو دلچسپ ہوتی ہے لیکن اس میں مقصد نہیں ہوتا۔میری کہانی کو بھی ایسا ہی سمجھ لیں۔