آج کے انسان وقت کے ساتھ چل
قتیل صاحب کے گھر سے معلوم کروایا ہے کہ قتیل صاحب کب تک آئیں گے۔
فلمی دنیا میں فرصت کے اوقات میں فلم آرٹسٹ ، فلمساز، ہدایت کار،موسیقار، رائٹرز غرض ہر شعبے سے وابستہ افراد ''بینک'' کا کھیل بڑی دلچسپی سے کھیلتے تھے اور یہ کھیل تاش کے پتوں ہی سے جڑا ہوا تھا۔ بینک کی ابتدا تو دس روپے سے ہوئی تھی مگر جب اس کھیل میں بڑے بڑے پروڈیوسر، ہدایت کار اور ہیروز شامل ہوجاتے تھے تو یہ رقم ہزاروں تک پہنچ جاتی تھی۔
کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی مشہور ہیرو بینک میں پندرہ بیس ہزار کی رقم ہار گیا تو وہ فلمساز کی کوئی نئی فلم سائن کرلیا کرتا تھا اور ہاری ہوئی رقم سائننگ اماؤنٹ میں شمار ہوجاتی تھی۔ ایک پروڈکشن آفس میں ''بینک'' کا کھیل زور و شور سے جاری تھا ہدایت کار اقبال اختر، شاعر مسرور انور کہانی نویس رشید ساجد اور اقبال رضوی اس کھیل کا حصہ تھے، مجھے اس کھیل کی سدھ بدھ نہیں تھی میں مسرور انور کے برابر بیٹھا یہ کھیل دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
اسی دوران موسیقار کمال احمد کا اسسٹنٹ چندر موہن کمرے میں داخل ہوا اور اس نے مجھے پیغام دیا کہ رنگیلا پروڈکشن میں کمال صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ مسرور انور نے کہا۔ چل بھائی ہمدم! ایک موسیقار کی طرف سے میرا بلاوا آگیا، لگتا ہے کوئی نہ کوئی گیت تیرے انتظار میں ہے۔ میں مسکراتے ہوئے وہاں سے اٹھا کمال احمدکے اسسٹنٹ کے ساتھ رنگیلا پروڈکشن پہنچ گیا وہاں موسیقارکمال احمد اپنا ہارمونیم کھولے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے کہنے لگے اچھا ہوا تم آگئے۔
رنگیلا صاحب کو فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے سنگیتا کی شوٹنگ کی ڈیٹس (تاریخیں) مل گئی ہیں۔آیندہ ہفتے سے مسلسل شوٹنگ ہے اسی اپیل میں رنگیلا کا مزدوروں کے ساتھ انقلابی گیت بھی فلم بند ہونا ہے تم نے اب ایک انقلابی گیت لکھنا ہے۔ آج ہی لکھ دو،اسی ہفتے کسی دن ریکارڈ کرنا ضروری ہے۔ میں نے کمال صاحب سے کہا۔ مگر یہ انقلابی گیت تو رنگیلا صاحب نے کہا تھا وہ قتیل شفائی صاحب سے لکھوائیں گے۔ کمال بولے ہاں پہلے ان کا ارادہ یہی تھا مگر اب شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔
قتیل صاحب کے گھر سے معلوم کروایا ہے کہ قتیل صاحب کب تک آئیں گے۔ پتہ چلا ہے کہ وہ انڈیا میں مشاعروں میں زیادہ مصروف ہیں اور ابھی ان کے جلدی واپس آنے کا موڈ نہیں ہے اور یہاں رنگیلا کی فلم کی شوٹنگ شروع ہے اب رنگیلا ہی نے کہا ہے کہ یہ گانا تم ہی لکھو گے۔ اور ہاں مہدی حسن کی آواز میں ہم نے جو گانا گزشتہ دنوں ریکارڈ کیا تھا۔ اس کے چند انترے ہیروئن کے حساب سے بھی تم نے لکھنے ہیں۔ مکھڑا وہی رہے گا مگر انترے کے ساتھ وہی گیت اب سنگیتا پر بھی فلم بند کیا جائے گا۔
اسی ہفتے یہ گیت بھی نیرہ نورکی آواز میں ریکارڈ کرنا ہے۔ بس تم آج ہی سے میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ پہلے انقلابی گیت پر کام کریں گے اور پھر نیرہ نور والا گیت مکمل کریں گے۔پھرکمال صاحب نے ہارمونیم پر مجھے ایک دھن سنائی۔ میں کچھ دیر تک دھن سنتا رہا اورکچھ ڈمی بول لکھتا رہا پھر اسی دوران ایک جاندار مکھڑا ذہن میں آگیا۔ اور مزدوروں کی سچویشن کے حساب سے بھی مناسب تھا۔ میں نے کمال صاحب سے کہا، آپ آہستہ آہستہ دھن بجائیں ایک خوبصورت مکھڑا دماغ میں آیا ہے۔ وہ بولے ٹھیک ہے سناؤ۔
کمال صاحب نے دھن بجانی شروع کی اور میں نے مکھڑا اس دھن پر فٹ کرنا شروع کیا، مکھڑا کچھ یوں تھا:
آج کے انسان وقت کے ساتھ چل
وقت ہے بگڑی ہوئی قسمت بدل
آج کے انسان وقت کے ساتھ چل
مکھڑا سن کرکمال صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ارے واہ! بہت خوب پھر سے سناؤ۔ انھوں نے ہارمونیم چھیڑا، ساتھ ساتھ طبلے کی سنگت چلتی رہی پھر کمال صاحب نے مکھڑے کو Okکرتے ہوئے اس کو وائنڈ اپ کرنے کے لیے دوبارہ دھن چھیڑی۔
کمال صاحب نے کہا۔ مکھڑا مکمل تو سمجھو گیت فائنل اب تم تین انترے اور لکھ دو بس کافی ہیں، اسی ہفتے کسی دن بھی ریکارڈنگ رکھ لیتے ہیں۔ پھر میں نے کئی انترے لکھے، ان میں سے ایک انترہ قارئین کی بھی نذر ہے:
مانگنے سے مل نہیں سکتی خوشی
چھوڑ دے یہ بے حسی کی زندگی
سوچ کہ جو آج ہے ہوگا نہ کل
آج کے انسان وقت کے ساتھ چل
اسی دوران رنگیلا بھی اپنی ایک شوٹنگ ختم کرکے آفس آگئے۔ یہاں سے کچھ دیر کے بعد پھر انھیں دوسری فلم کی شوٹنگ کے لیے جانا تھا۔ اس وقفے میں کمال صاحب نے رنگیلا کو وہ انقلابی گیت دھن کے ساتھ سنایا۔ رنگیلا نے بھی سنتے ہی اوکے کردیا۔ پھر رنگیلا نے کہا۔ یارکمال! یہ گیت خاں صاحب ( مہدی حسن )کے ٹائپ کا تو نہیں ہے اور تم نے دھن اتنے اونچے سروں میں بنائی ہے کہ میں بھی لگتا ہے مشکل سے گا سکوں گا۔ کمال احمد بولے۔ آپ یہ گیت گانے کے لیے سوچنا ہی چھوڑ دو، کیونکہ اس گیت کا انداز بالکل الگ ہے۔ رنگیلا نے کہا۔ کیا پھر یہ گیت احمد رشدی سے گواؤ گے۔
کمال صاحب بولے ارے بابا! یہ گیت مسعود رانا گائے گا۔ یہ اسی کو سوٹ کرتا ہے۔ رنگیلا نے کمال احمد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہاں ہاں ٹھیک ہے مسعود رانا کی آواز میں یہ گیت اچھا لگے گا۔ اور اس طرح فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے میرا لکھا ہوا دوسرا گیت بھی دو تین دن کے بعد ریکارڈ کرلیا گیا۔ اسی دوران میں نے کمال صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اس گیت کے انترے بھی لکھ دیے جو نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا جانا تھا۔
اور یہ اس فلم کا میرا لکھا ہوا تیسرا گیت تھا۔ نیرہ نور فلمی دنیا میں بحیثیت نئی گلوکارہ ایک فریش آواز آئی تھی اور وہ بہت سریلی تھی۔ جس ہفتے نیرہ نور کی آواز میں میرا لکھا ہوا گیت ایورنیو اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔ اسی ہفتے فلم ''صبح کا تارا'' کی شوٹنگ بھی اسی اسٹوڈیو میں جاری تھی اور اداکارہ سنگیتا سیٹ پر تھی۔ جب اداکارہ سنگیتا کو پتہ چلا کہ اسی شوٹنگ اپیل میں جو گانا اس پر فلمایا جائے گا اس کی ریکارڈنگ نیرہ نور کی آواز میں ہو رہی تھی تو سنگیتا شوٹنگ کے بریک کے دوران وہ گیت سننے کے لیے آئی۔ اسے گیت کی دھن اور وہ گیت بہت اچھا لگا۔ پھر اس نے موسیقار کمال احمد سے پوچھا یہ گیت قتیل شفائی صاحب نے لکھا ہے۔
کمال بولے نہیں۔ پھر سنگیتا نے کہا خواجہ پرویز نے۔ موسیقار کمال احمد نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میڈم! یہ گیت یونس ہمدم نے لکھا ہے۔ مہدی حسن صاحب کا گایا ہوا اس فلم کا پہلا گیت بھی اس شاعر نے لکھا تھا۔ سنگیتا یہ جان کر بہت خوش ہوئی پھر میرے قریب آکر کہنے لگی ارے بھئی! اب تو ہم بھی تم سے اپنی فلم کے لیے گیت لکھوائیں گے۔
ان دنوں سنگیتا پروڈکشن کی پہلی فلم ''تیرے میرے سپنے'' اپنی شوٹنگ کے آخری مرحلے پر تھی۔ اس فلم کے سوائے ایک آخری گیت کے تمام گیت ریکارڈ ہوچکے تھے اور وہ تمام گیت تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے تھے ''تیرے میرے سپنے'' کے موسیقار بھی کمال احمد ہی تھے۔ سنگیتا نے کمال احمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کمال صاحب! ''تیرے میرے سپنے'' کا آخری گیت میں یونس ہمدم سے لکھواؤں گی۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔
کمال احمد بولے۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ہاں تسلیم فاضلی برا نہ مان جائے کیونکہ فلم کے سارے گیت اسی نے لکھے ہیں۔ سنگیتا نے بے ساختہ کہا۔ ارے بھئی! میں فلم کی پروڈیوسر ہوں۔ فلم میں میری مرضی چلے گی یا اس کی اگر ایک گیت کسی اور شاعر سے لے لیا توکیا فرق پڑتا ہے۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا میری فلم کا آخری گیت اب یونس ہمدم ہی نے لکھنا ہے۔ سنگیتا اپنا فیصلہ سنا کر شوٹنگ کے لیے چلی گئی تو کمال صاحب نے کہا۔ خوش ہوجاؤ یونس ہمدم! فلمساز سنگیتا نے تمہارے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔
کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی مشہور ہیرو بینک میں پندرہ بیس ہزار کی رقم ہار گیا تو وہ فلمساز کی کوئی نئی فلم سائن کرلیا کرتا تھا اور ہاری ہوئی رقم سائننگ اماؤنٹ میں شمار ہوجاتی تھی۔ ایک پروڈکشن آفس میں ''بینک'' کا کھیل زور و شور سے جاری تھا ہدایت کار اقبال اختر، شاعر مسرور انور کہانی نویس رشید ساجد اور اقبال رضوی اس کھیل کا حصہ تھے، مجھے اس کھیل کی سدھ بدھ نہیں تھی میں مسرور انور کے برابر بیٹھا یہ کھیل دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
اسی دوران موسیقار کمال احمد کا اسسٹنٹ چندر موہن کمرے میں داخل ہوا اور اس نے مجھے پیغام دیا کہ رنگیلا پروڈکشن میں کمال صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ مسرور انور نے کہا۔ چل بھائی ہمدم! ایک موسیقار کی طرف سے میرا بلاوا آگیا، لگتا ہے کوئی نہ کوئی گیت تیرے انتظار میں ہے۔ میں مسکراتے ہوئے وہاں سے اٹھا کمال احمدکے اسسٹنٹ کے ساتھ رنگیلا پروڈکشن پہنچ گیا وہاں موسیقارکمال احمد اپنا ہارمونیم کھولے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے کہنے لگے اچھا ہوا تم آگئے۔
رنگیلا صاحب کو فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے سنگیتا کی شوٹنگ کی ڈیٹس (تاریخیں) مل گئی ہیں۔آیندہ ہفتے سے مسلسل شوٹنگ ہے اسی اپیل میں رنگیلا کا مزدوروں کے ساتھ انقلابی گیت بھی فلم بند ہونا ہے تم نے اب ایک انقلابی گیت لکھنا ہے۔ آج ہی لکھ دو،اسی ہفتے کسی دن ریکارڈ کرنا ضروری ہے۔ میں نے کمال صاحب سے کہا۔ مگر یہ انقلابی گیت تو رنگیلا صاحب نے کہا تھا وہ قتیل شفائی صاحب سے لکھوائیں گے۔ کمال بولے ہاں پہلے ان کا ارادہ یہی تھا مگر اب شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔
قتیل صاحب کے گھر سے معلوم کروایا ہے کہ قتیل صاحب کب تک آئیں گے۔ پتہ چلا ہے کہ وہ انڈیا میں مشاعروں میں زیادہ مصروف ہیں اور ابھی ان کے جلدی واپس آنے کا موڈ نہیں ہے اور یہاں رنگیلا کی فلم کی شوٹنگ شروع ہے اب رنگیلا ہی نے کہا ہے کہ یہ گانا تم ہی لکھو گے۔ اور ہاں مہدی حسن کی آواز میں ہم نے جو گانا گزشتہ دنوں ریکارڈ کیا تھا۔ اس کے چند انترے ہیروئن کے حساب سے بھی تم نے لکھنے ہیں۔ مکھڑا وہی رہے گا مگر انترے کے ساتھ وہی گیت اب سنگیتا پر بھی فلم بند کیا جائے گا۔
اسی ہفتے یہ گیت بھی نیرہ نورکی آواز میں ریکارڈ کرنا ہے۔ بس تم آج ہی سے میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ پہلے انقلابی گیت پر کام کریں گے اور پھر نیرہ نور والا گیت مکمل کریں گے۔پھرکمال صاحب نے ہارمونیم پر مجھے ایک دھن سنائی۔ میں کچھ دیر تک دھن سنتا رہا اورکچھ ڈمی بول لکھتا رہا پھر اسی دوران ایک جاندار مکھڑا ذہن میں آگیا۔ اور مزدوروں کی سچویشن کے حساب سے بھی مناسب تھا۔ میں نے کمال صاحب سے کہا، آپ آہستہ آہستہ دھن بجائیں ایک خوبصورت مکھڑا دماغ میں آیا ہے۔ وہ بولے ٹھیک ہے سناؤ۔
کمال صاحب نے دھن بجانی شروع کی اور میں نے مکھڑا اس دھن پر فٹ کرنا شروع کیا، مکھڑا کچھ یوں تھا:
آج کے انسان وقت کے ساتھ چل
وقت ہے بگڑی ہوئی قسمت بدل
آج کے انسان وقت کے ساتھ چل
مکھڑا سن کرکمال صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ارے واہ! بہت خوب پھر سے سناؤ۔ انھوں نے ہارمونیم چھیڑا، ساتھ ساتھ طبلے کی سنگت چلتی رہی پھر کمال صاحب نے مکھڑے کو Okکرتے ہوئے اس کو وائنڈ اپ کرنے کے لیے دوبارہ دھن چھیڑی۔
کمال صاحب نے کہا۔ مکھڑا مکمل تو سمجھو گیت فائنل اب تم تین انترے اور لکھ دو بس کافی ہیں، اسی ہفتے کسی دن بھی ریکارڈنگ رکھ لیتے ہیں۔ پھر میں نے کئی انترے لکھے، ان میں سے ایک انترہ قارئین کی بھی نذر ہے:
مانگنے سے مل نہیں سکتی خوشی
چھوڑ دے یہ بے حسی کی زندگی
سوچ کہ جو آج ہے ہوگا نہ کل
آج کے انسان وقت کے ساتھ چل
اسی دوران رنگیلا بھی اپنی ایک شوٹنگ ختم کرکے آفس آگئے۔ یہاں سے کچھ دیر کے بعد پھر انھیں دوسری فلم کی شوٹنگ کے لیے جانا تھا۔ اس وقفے میں کمال صاحب نے رنگیلا کو وہ انقلابی گیت دھن کے ساتھ سنایا۔ رنگیلا نے بھی سنتے ہی اوکے کردیا۔ پھر رنگیلا نے کہا۔ یارکمال! یہ گیت خاں صاحب ( مہدی حسن )کے ٹائپ کا تو نہیں ہے اور تم نے دھن اتنے اونچے سروں میں بنائی ہے کہ میں بھی لگتا ہے مشکل سے گا سکوں گا۔ کمال احمد بولے۔ آپ یہ گیت گانے کے لیے سوچنا ہی چھوڑ دو، کیونکہ اس گیت کا انداز بالکل الگ ہے۔ رنگیلا نے کہا۔ کیا پھر یہ گیت احمد رشدی سے گواؤ گے۔
کمال صاحب بولے ارے بابا! یہ گیت مسعود رانا گائے گا۔ یہ اسی کو سوٹ کرتا ہے۔ رنگیلا نے کمال احمد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہاں ہاں ٹھیک ہے مسعود رانا کی آواز میں یہ گیت اچھا لگے گا۔ اور اس طرح فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے میرا لکھا ہوا دوسرا گیت بھی دو تین دن کے بعد ریکارڈ کرلیا گیا۔ اسی دوران میں نے کمال صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اس گیت کے انترے بھی لکھ دیے جو نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا جانا تھا۔
اور یہ اس فلم کا میرا لکھا ہوا تیسرا گیت تھا۔ نیرہ نور فلمی دنیا میں بحیثیت نئی گلوکارہ ایک فریش آواز آئی تھی اور وہ بہت سریلی تھی۔ جس ہفتے نیرہ نور کی آواز میں میرا لکھا ہوا گیت ایورنیو اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔ اسی ہفتے فلم ''صبح کا تارا'' کی شوٹنگ بھی اسی اسٹوڈیو میں جاری تھی اور اداکارہ سنگیتا سیٹ پر تھی۔ جب اداکارہ سنگیتا کو پتہ چلا کہ اسی شوٹنگ اپیل میں جو گانا اس پر فلمایا جائے گا اس کی ریکارڈنگ نیرہ نور کی آواز میں ہو رہی تھی تو سنگیتا شوٹنگ کے بریک کے دوران وہ گیت سننے کے لیے آئی۔ اسے گیت کی دھن اور وہ گیت بہت اچھا لگا۔ پھر اس نے موسیقار کمال احمد سے پوچھا یہ گیت قتیل شفائی صاحب نے لکھا ہے۔
کمال بولے نہیں۔ پھر سنگیتا نے کہا خواجہ پرویز نے۔ موسیقار کمال احمد نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میڈم! یہ گیت یونس ہمدم نے لکھا ہے۔ مہدی حسن صاحب کا گایا ہوا اس فلم کا پہلا گیت بھی اس شاعر نے لکھا تھا۔ سنگیتا یہ جان کر بہت خوش ہوئی پھر میرے قریب آکر کہنے لگی ارے بھئی! اب تو ہم بھی تم سے اپنی فلم کے لیے گیت لکھوائیں گے۔
ان دنوں سنگیتا پروڈکشن کی پہلی فلم ''تیرے میرے سپنے'' اپنی شوٹنگ کے آخری مرحلے پر تھی۔ اس فلم کے سوائے ایک آخری گیت کے تمام گیت ریکارڈ ہوچکے تھے اور وہ تمام گیت تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے تھے ''تیرے میرے سپنے'' کے موسیقار بھی کمال احمد ہی تھے۔ سنگیتا نے کمال احمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کمال صاحب! ''تیرے میرے سپنے'' کا آخری گیت میں یونس ہمدم سے لکھواؤں گی۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔
کمال احمد بولے۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ہاں تسلیم فاضلی برا نہ مان جائے کیونکہ فلم کے سارے گیت اسی نے لکھے ہیں۔ سنگیتا نے بے ساختہ کہا۔ ارے بھئی! میں فلم کی پروڈیوسر ہوں۔ فلم میں میری مرضی چلے گی یا اس کی اگر ایک گیت کسی اور شاعر سے لے لیا توکیا فرق پڑتا ہے۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا میری فلم کا آخری گیت اب یونس ہمدم ہی نے لکھنا ہے۔ سنگیتا اپنا فیصلہ سنا کر شوٹنگ کے لیے چلی گئی تو کمال صاحب نے کہا۔ خوش ہوجاؤ یونس ہمدم! فلمساز سنگیتا نے تمہارے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔