مسجدوں مندروں و گرجا گھروں والا سندھ

سندھ کی تاریخ کے یہ دو سال اس مذہبی رواداری کے حوالے سے بہت ہی بدترین گزرے۔


جاوید قاضی March 14, 2015
[email protected]

مجھے نہ جانے کیوں فیض کی سطریں ان زمانوں میں امڈ امڈ کے کانوں میں سرگوشیاں کرتی ہوئی سنائی دیتی ہیں ''اس طرح ہے کہ ہر ایک پیڑ کوئی مندر ہے، کوئی اجڑا ہوا بے نور پرانا مندر'' فیض یہ احساس تب ہی پیدا کرسکے ہوں گے جب وہ اپنی آنکھوں میں صدیوں کا درد سمائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے میں بھی سندھ کو صدیوں سے جانتا ہوں۔

میرا بچپن ان میدانوں و مکانوں میں گزرا تھا جہاں ٹالپر کلہوڑو بادشاہ کے لشکر کو شکست دے کر خود بادشاہ بن کے بیٹھ گئے، ان میدانوں کے ایک طرف محراب کی مسجد تھی تو دوسری جانب مندر تھا۔ دونوں شاہکار تھے، اس کے مقابلے کا نہ کوئی اور مندر سندھ میں ہوگا نہ محراب مسجد تھی۔ وہ مندر اب بھی اس آب و تاب سے ہے مگر ویراں ہے، تو محراب مسجد زبوں حال ہے۔

سندھ کی تاریخ کے یہ دو سال اس مذہبی رواداری کے حوالے سے بہت ہی بدترین گزرے۔ یوں ٹوٹے یہ مندر کہ جیسے کچے گھڑے ہوں۔ ہزاروں سال سے پڑی اس رواداری کو ایسا زلزلہ شاید ہی پہلے کبھی لگا ہو۔ وہ مندر توڑنے والے کوئی محمود غزنوی کی طرح یلغار کرتے ہوئے گھوڑوں پر نہیں آئے تھے وہ چپکے سے حملہ کر کے غائب ہوجاتے تھے۔

یہ ہے وہ سندھ جس نے پاکستان بنانے کی پہلی قرار داد پیش کی تھی۔ اور یہ صلہ ملا اس کو اس وفاداری کا۔ بنگالیوں نے مسلمان قوم پرستوں کی بنیاد رکھی اور وہ نظریہ پھیلتا ہوا پورے ہند کے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے اٹھتا ہے۔ شاید جس نے بھی سندھ کو مذہبی انتہاپرستی کے بھنور میں ڈالنے کا منصوبہ بنایا ہے وہ سندھ کی تاریخ سے بہت ناآشنا ہے۔ ان لوگوں کی رگوں میں اہنسا و مذہبی رواداری پڑی ہوتی ہے۔ وہ بنگالیوں کی طرح مڈل کلاس نہیں جاگیرداری شکنجوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

لیکن مذہبی رواداری میں وہ برصغیر کے سارے مسلمانوں سے کوسوں آگے ہیں۔ ادھر کبیر تھا تو ادھر روسی تھے، بھٹائی کی پوری شاعری میں یہ دونوں اس کا لاشعور ہیں۔ ادھر بلھے شاہ، باسو تھے، ادھر سچل، سامی تھے۔ اور تو اور یہاں پر دلی کے مغلوں کے خلاف دہقانوں نے انقلاب برپا کیے۔

لیکن یہ لوگ بھالوں و بندوقوں سے لڑنے میں بالکل الٹ ہیں۔ ہاں یہ خیالوں سے سچ کو پانے کے لیے حد سے گزر جاتے ہیں اور ایاز کہتے ہیں ''میں نے دانش ایسی لائی ہے کہ تنبورے کی طرح تند لڑتی ہے تلواروں سے اور تمہاری ساری گرجتی توپیں بیٹھ جاتی ہیں، تم کتنے خستہ ہو اتنے سارے ہتھیار ہوتے ہوئے بھی۔''

سندھ کے مسلمانوں نے اس بار ایسی ہولی منائی اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ کہ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی نے منصوبہ بندی کرکے یہ عمل نہیں کروایا جس طرح سندھ کو انقلابیانےRadicalize کا کام ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہا ہے یہ سب بے خودی میں، بے ارادہ ہوا ہے۔

چانڈکا میڈیکل کالج سے لے کر سندھ یونیورسٹی تک اور کون سی درسگاہ بچی ہوگی ہولی سے۔ دفتروں میں ہولی، مسلمان ان کے مندروں میں چلے گئے، پریس کلبوں میں ہولی، گلی کوچہ بازاروں میں ہولی اور سوشل میڈیا پر تو حد ہوگئی، چاروں طرف ہولی تھی۔ تو یہ کیا تھا؟ یہ محبتوں سے سندھی مسلمانوں نے اور اس میں کراچی کے نئے سندھی بھی کسی سے پیچھے نہ تھے، یہ سارے مندر جو انھوں نے نفرتوں سے توڑے تھے، دوبارہ بحال کردیے، انھوں نے ہندوؤں کا اعتماد بحال کیا۔

مجھے یقین ہوگیا کہ جب تک پاکستان اپنی اس بیانہ Narrative کے خلاف رد بیانہ Counter Narrative بنا سکے، سندھیوں کے پاس مذہبی جنونیت کے خلاف Counter Narrative بنی پڑی ہے۔

مجھے تو یوں لگتا ہے کہ سندھیوں کے گوشے میں آکر علیحدگی وغیرہ کا خیال آیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان بننے کے بعد خود پاکستانی قیادت نے جناح کے دیے ہوئے روڈ میپ سے انحراف کرتے ہوئے ایسی Narrative بنائی جس نے پاکستان کو کمزور کیا۔ ان سندھیوں میں دوبارہ وہ گوشہ پاکستان سے محبت کرنے والا پیدا ہو رہا ہے، اگر انھیں یہ احساس ہوجائے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اب مذہبی انتہاپرستوں سے یاریاں توڑ دی ہیں اور اب ان کے تعاقب میں ہیں۔

ہولی کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ ایک عجیب حادثہ بھی ہوا۔ سندھ کے، عابدہ پروین کے بعد دوسرے نمبر پر سحر رکھنے والے صوفی گائیک صادق فقیر مدینے میں اپنے خاندان کے ساتھ عمرہ کرتے ہوئے روڈ حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ یہ خبر سندھ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ اب یہ طے کرنا تھا کہ اس کی میت کا کیا جائے۔ سعودی عرب میں موجود صادق کے احباب نے کہا کہ اسے یہاں دفنا دیا جائے اور یہ بہتر ہوگا۔ مگر صادق کے بیٹے کو اپنے ابا کے بارے میں بہت کچھ پتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ ابا اپنے تھر سے بہت پیار کرتے تھے۔

ان تھر کے لوگوں میں زمین سے انتہا درجے کی محبت پائی جاتی ہے۔ بھٹائی نے اپنے ''سر مارئی'' میں اس حقیقت کو بہت خوبصورتی سے نقش کیا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی تھر کا آدمی ملازم ہے تو سچ سمجھیے جب بھی بارشیں ہوں گی اس کو آپ اداس پائیں گے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ بارش شاید تھر میں بھی ہو رہی ہے اور اسے ایک دم تھر میں پہنچ کر اس منظر کو دیکھنا چاہیے کہ کیسے تھر کے صحرا میں ایک دم سے ہریالی آجاتی ہے۔ تھر کی پیاسی زمین کس طرح مچل اٹھتی ہے۔

صادق فقیر کے بڑے بیٹے نزاکت میں جسے اپنے ابا کی روح سما گئی۔ اسے جنت البقیع میں دفنانے والا خیال اچھا نہ لگا۔ یہ سارے تھری لوگ بالکل ہوبہو مارئی کی کاپی ہوتے ہیں۔ حیرانی ہے شاہ بھٹائی نے کیسے ان کے جذبات کو محسوس کیا اور اسے خوبصورت پایا اور ساری حب الوطنی کے خیال کو مارئی کے کردار سے سمجھانے کی کوشش کی۔

پورے سندھ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ ان کا محبوب صوفی راگی تدفین کے لیے اپنی مٹی کو اپنی مٹھی میں دفنانے کے لیے واپس آرہا ہے۔ اس کی میت کو واپس آنے میں وقت لگ گیا تو سندھی طیش میں آگئے کہ سعودی حکومت دیر کرکے ان کے دکھ پر نمک چھڑک رہی ہے۔

اور جب میت آئی تو مٹھی نے اس فقیر کی میت کا وہ والہانہ استقبال کیا کہ شاید اس سے پہلے بھٹوؤں کی میتوں کا کرتی تھی۔ لگ بھگ ساٹھ ہزار لوگ اس کے جنازے میں شریک ہوئے، لیکن صادق فقیر کے مرشد شیخ ایاز کی رحلت پر ہم مشکل سے ہزار بھی نہ تھے، جب اس کی خاک کو بھٹ شاہ کی مٹی میں اتارا تھا۔

صادق فقیر نے سب سے زیادہ شیخ ایاز کو گایا۔ میں جب دو ماہ پہلے مٹھی میں اس کی قبر پر حاضری دینے پہنچا تو پتا چلا کہ وہ بھٹ ہیں صوفی منش انسان بھی تھا۔ بہت بڑا Philanthropist بھی تھا۔ تھر کی روح میں موسیقی سمائی ہوئی ہے۔ یہاں کے لوگ سندھی کو مادری زبان کر کے نہیں بولتے بلکہ ان کی مادری زبان ڈاڑکی ہے۔ اور بہت سے یہ زبان بھول بھی گئے ہیں۔ صادق فقیر ان مفلس فنکاروں کو مالی مدد کیا کرتے تھے۔ عمرہ پر گئے تو بھائی کو بلینک چیک دیا کہ کوئی اگر ضرورت مند میری غیر حاضری میں آئے تو اسے بغیر کچھ دیے جانے نہ دینا۔ اور لوگ اس کے مرنے پر بہت آبدیدہ تھے، میں نے مٹھی کی فضاؤں میں بہت غم دیکھا۔

صادق فقیر موسیقی کو شاہ بھٹائی کے ''تنبورو'' کو ہتھیار بنا کر مذہبی انتہا پرستی کے خلاف میدان میں اترے ہوئے تھے۔ اور وہ سندھ کی اس صوفی جنگ کے شہید ہیں۔ وہ ایاز کی شاعری کو ہتھیار بنانے کی بات کرتے تھے۔ اسے پورا وشواس تھا کہ سندھ میں یہ نفرتوں کا بیج بونا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

کہتے ہیں شاہ بھٹائی ہر سال سیہون سے پیدل ہنگلاج کے لیے نکلتے تھے جہاں کالی ماں کا مندر ہے۔ ایک روایت ہے کہ ان کے والد نے ایک دن غصے میں آکر اپنے بیٹے شاہ بھٹائی کو کہا ''جھوٹے ہیں تیرے سامی، جھوٹی ہیں ان کی مسافتیں، رب تو ہر جگہ رہتا ہے وہ کیسے کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے ہنگلاج میں دیکھا۔'' تو بھٹائی نے اپنے والد کو کہا ''سچے ہیں میرے سامی، سچی ہیں ان کی مسافتیں، رب ہے ہر جگہ مگر انھوں نے اسے ہنگلاج میں دیکھا۔''

بھٹائی کی یہ سطریں ''سر مارئی'' کی تو جیسے لگتا ہے کہ صادق فقیر کے لیے ہوں۔ جب مارئی عمر کی قید میں عمر کو کہتی کہ ''عمر میری میت کو ملیر میں دفنانا، میں اس طرح مر کے بھی زندہ رہوں گی، اگر میری میت کو ملیر کی مٹی نے اپنی آغوش میں لے لیا۔''

صادق فقیر ملیر کا تھا وہ مارئی کے دیس کا تھا۔ وہ مذہبی رواداری کا عکس تھا اور وہ مارئی کی طرح اپنی مٹی سے محبت کرتا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ پوری مٹھی کے ہندوؤں نے صادق فقیر کے دکھ میں اس مرتبہ اپنی ہولی ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں