کرکٹ دو قومی نظریہ اور بھارتی کرودھ

پاک بھارت مقابلے کھیل سے زیادہ دو ملکوں کی جنگ بن جاتے ہیں۔

کرکٹ برصغیرکا مقبول ترین کھیل ہے۔ پاک بھارت مقابلے کھیل سے زیادہ دو ملکوں کی جنگ بن جاتے ہیں۔ خاص سیاسی، مذہبی اور عسکری پس منظر رکھنے والے یہ ملک کھیل کے میدان کو جنگ کا میدان قرار دے دیتے ہیں۔ 1999 ورلڈ کپ میں بھارتی چینلز نے نصف اسکرین پہ کرکٹ میچ اور نصف اسکرین پہ کارگل محاذ پہ پاک بھارت جنگ کے مناظر پیش کرکے کھیل کے میدان کو نفسیاتی جنگ کا ہتھیار بنادیا تھا۔

پاکستان، بھارت کے لیے ناقابل برداشت حقیقت ہے۔ یہ شدید نفرت بھارتی خارجہ پالیسی میں بھی نظر آتی ہے اور عسکری معاملات میں بھی عیاں ہوتی ہے۔ فنون لطیفہ کی محافل ہوں یا کھیل کا میدان ''بھارتی کرودھ'' چھپائے نہیں چھپتا۔

تیسرے درجے کے بھارتی فنکارکو پاکستان میں سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے جب کہ غلام علی، راحت فتح علی خان کے پائے کے فنکار شیوسینا کی غنڈہ گردی کا شکار بنتے ہیں۔ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارتی ٹیم کی شکست پہ گالم گلوچ اور پرتشدد رویہ کون بھول سکتا ہے۔ کبڈی عالمی کپ میں سینہ زوری سے کی گئی بے ایمانی ابھی کل کی بات ہے۔

ICC پہ سٹے بازوں اور عالمی سرمایہ کاروں کی سرپرستی میں بھارتی اجارہ داری کو کیا نام دیا جائے۔ شرفا کا کھیل کرکٹ اب عالمی جواریوں کی چراگاہ بن چکا ہے۔ اور IPLکی آڑ میں جوئے کی سب سے بڑی گنگا بھارت میں بہتی ہے۔ ICC کے معزز سربراہ سری نواسن کا داماد اس عالمی جوئے بازی کا روح رواں ہے اور یہ معاملہ بھارتی عدالت میں ثابت بھی ہوچکا ہے۔ دو قومی نظریہ آج برصغیر میں ہندو شدت پسندانہ روش کی بدولت زندہ ہے۔

بھارت نے نہ قیام پاکستان کو تسلیم کیا اور نہ ہی اسے استحکام پاکستان گوارہ ہے۔ ہماری وحدت کو نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی آگ میں جھلسانے والا بھارت ہمیں کھیل کے میدان میں حاصل ہونے والی خوشیوں سے بھی محروم رکھنا چاہتا ہے۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پہ حملے نے پاکستان سے عالمی کرکٹ ختم کردی۔

دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ کسے نظر نہیں آتا؟ اگر شک ہے تو ''اجیت دوول'' کے واشگاف انکشافات ضرور سن اور پڑھ لیے جانے چاہئیں۔ پاکستان میں کرکٹ ختم ہوگئی لیکن پاکستان آج بھی کرکٹ کے میدان میں کھڑا ہے۔ اور بھارت کے سینے پہ مونگ دل رہا ہے۔ چند برس قبل IPLکی بولی میں جو کچھ پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ہوا۔ کیا وہ ایک اتفاق تھا؟

ورلڈ کپ2011 سے کچھ قبل پاکستانی باؤلر محمد عامر اور محمد آصف اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں دھر لیے گئے۔ اور 2015 ورلڈ کپ سے کچھ پہلے عالمی شہرت یافتہ اسپنر سعید اجمل کے بالنگ ایکشن کو مشکوک قرار دے دیا گیا۔ عمران خان کے بقول وسیم اکرم کرکٹ تاریخ کا سب سے باصلاحیت اور خطرناک ترین لیفٹ آرم باؤلر ہے۔


لیکن اس مقام پہ پہنچنے کے لیے وسیم اکرم نے اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں شدید محنت کی۔ جب کہ محمد عامر اپنے کیریئر کے آغاز سے ہی وسیم اکرم سے کہیں زیادہ بہتر صلاحیتوں کا حامل فاسٹ باؤلر تھا۔ اس ایک جملے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محمد عامر کس پائے کا باؤلر تھا۔ اسی طرح محمد آصف دنیا کے چند بہترین swingers اور Natural فاسٹ باؤلرز میں شمار ہوتا تھا۔ سعید اجمل موجودہ عالمی کرکٹ میں عظیم مرلی دھرن کے بعد سب سے بڑا آف اسپنر قرار دیا جاتا ہے۔ کیا ان کھلاڑیوں کی گزشتہ دو عالمی کپ سے پہلے پابندیاں ایک اتفاق ہیں۔

حسن اتفاق یا بداتفاقی کہیے کہ 6 مرتبہ عالمی کپ میں پاکستان اور بھارت مد مقابل آئے، فتح پاکستان سے روٹھ گئی، بھارت فاتح ٹھہرا۔ بالکل کچھ ایسا ہی معاملہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان بھی ہے۔

3 مرتبہ عالمی کپ مد مقابل ہوئے اور ہر مرتبہ شکست بھارت کا مقدر ٹھہری۔ اس اتفاق کی بنیاد پہ بہرحال نہ بھارت کو underestimate کیا جانا چاہیے اور نہ ہی جنوبی افریقہ کو بے وجہ overestimate۔ لیکن کیا کیجیے! کے ورلڈ کپ کی 40 سالہ تاریخ میں 6 مرتبہ ہونے والے عالمی کپ کے میچز کی جیت کو بھارت کے حق میں کچھ زیادہ ہی اچھالا گیا۔ اعداد و شمار بہرحال کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان دونوں روایتی حریفوں کے درمیان مجموعی طور پہ 124 ایک روزہ میچ ہوچکے ہیں 72 کا فاتح پاکستان اور 51 کا فاتح بھارت ٹھہرا جب کہ ایک میچ Tie رہا۔ ٹیسٹ میچز میں 12 کا فاتح پاکستان اور 9 کا فاتح بھارت جب کہ 39 میچز ڈرا رہے۔

بھارت دو مرتبہ عالمی کپ کا فاتح ٹھہرا۔ لیکن عالمی سطح پہ اسے کبھی بھی تجزیہ نگاروں نے اس اعزاز کا جائز حقدار نہیں گردانا۔ آئیے اس مختصر لیکن دلچسپ تجزیے کی جانب۔ ویسٹ انڈین کرکٹ تاریخ کی مضبوط ترین ٹیم 83ورلڈ کے فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ خوش قسمت کپتان کپل دیو کی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو 183 رنز کا ہدف دیا جو انتہائی غیر متوقع طور پہ ویسٹ انڈین ٹیم حاصل نہ کرسکی۔ بھارت فائنل میں اچھا نہیں کھیلا لیکن اس کی قسمت بہت اچھی تھی لہٰذا ویسٹ انڈینز اپنی برتری کے غرور میں بھارت کو بہت ہلکا حریف گردانتے ہوئے، کچھ ایسا چُوکا کہ میچ ہی ہار گیا۔

یہ آج تک ورلڈ کپ فائنل میچز میں ہونے والا واحد ''اپ سیٹ'' قرار دیا جاتا ہے۔ ورلڈ کپ کا فاتح بھارت تھا لیکن دنیائے کرکٹ پہ حکمرانی ویسٹ انڈینز کی تھی۔ چنانچہ 83 ورلڈ کپ فائنل کے چند ماہ بعد ویسٹ انڈینز نے بھارت کی سرزمین پہ 5 ایک روزہ میچز کی سیریز میں وائٹ واش کرتے ہوئے 5-0سے فتح حاصل کی جب کہ 6 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں 3-0 سے فتح حاصل کی۔ جس میں دو ٹیسٹ میچز میں بھارت کو اننگز کی شکست بھی ہوئی۔

اب آئیے ورلڈ کپ 2011 کی جانب۔ اس ورلڈ کپ کے سیمی فائنلز اور فائنل میچ کے متعلق پہلی مرتبہ جوئے اور سٹے کے الزامات عالمی میڈیا سے ہوتے ہوئے ICC تک پہنچے۔ 2011 ورلڈ کپ کے آغاز سے کئی ہفتے قبل عالمی سٹے باز اہم میچز کے نتائج کی پیش گوئی کرچکے تھے۔ حسن اتفاق کہ اس مرتبہ فاتحہ بھارت ٹھہرا۔ کپل دیو خوش قسمت کپتان تھے بہرحال میدان میں کھیل کے جیتے تھے۔ دھونی البتہ سٹے کی طاقت سے عالمی فاتح بنے۔

اس ورلڈ چیمپئن ٹیم کی اصل اوقات کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے کہ ICC میں بھارتی اثر و رسوخ کی بدولت گزشتہ 2 ماہ سے بھارتی ٹیم آسٹریلیا میں ہے تاکہ ورلڈ کپ سے پہلے Playing Conditions سے مطابق حاصل کرسکے۔ کارکردگی کی حالت یہ رہی کہ آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریز میں 2-0 سے شکست کھائی اور سہ فریقی ایک روزہ سیریز میں 7 میں سے 6 میچز میں شکست اور ساتواں میچ غیر فیصلہ کن رہا۔ بھارت میں کرکٹ آج پہلے سے کئی زیادہ مربوط ہے۔

علاقائی ٹورنامنٹس اور IPLنے ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ان حقائق سے انکار نہیں لیکن آج برصغیر میں شرفا کا کھیل جوئے کی منڈی بن گیا ہے اور اس کا سہرا صرف بھارت کے سر ہی بندھتا ہے۔
Load Next Story