مارس ون مشن

اس وقت وہ اونٹاریو میں بطور ایمرجنسی مینجمنٹ آفیسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

کمیونٹی مارس۔ون کی ویب سائٹ کے مطابق مریخ مشن کی ٹریننگ کے لیے منتخب کیے جانے والے افراد میں سے ایک ریجنالڈ فولڈز بھی ہیں۔ بزنس انسائیڈر میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ای میل میں ریجنالڈ فولڈز نے بتایا کہ وہ 1954ء کو پاکستان میں پیدا ہوئے اور ایک ایئرفورس بیس کے قریب ہی پروان چڑھے، وہ ہر روز اپنے اوپر سے جیٹ طیارے اڑتے دیکھا کرتے تھے، پھر کالج کی تعلیم کے بعد پاکستان ملٹری کو جوائن کر لیا جہاں انھوں نے 1992ء میں ریٹائر ہونے تک بطور ہیلی کاپٹر پائلٹ خدمات سرانجام دیں۔ ریٹائرمنٹ پر فولڈز 42 سال کی عمر میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ کینیڈا منتقل ہو گئے، جہاں ان کے ہاں دو بچے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئے، اب فولڈز کی عمر 60 سال ہے اور ان کے حوصلے ابھی بھی جوان ہیں۔

اس وقت وہ اونٹاریو میں بطور ایمرجنسی مینجمنٹ آفیسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں، ان کے ہیرو ریٹائرڈ خلا باز کینیڈا ہی کے کرس ہیڈ فیلڈ ہیں۔ مارس۔ون ویب سائٹ پر دی گئی فولڈز کی پروفائل کے مطابق انفنٹری آفیسر کی حیثیت سے اپنے 22 سالہ ملٹری ریکارڈ کی بدولت وہ کسی بھی قسم کے حالات میں اپنی بقا کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ فولڈز کا کہنا ہے کہ ''وہ تلاش اور دریافت کے سفر میں آسمانوں سے بھی آگے جانا چاہتے ہیں، میرے لیے ناممکن جیسا کوئی لفظ نہیں ہے اور ایسا کوئی کام نہیں ہے جو میں نہیں کر سکتا، مجھے مارس ون ٹیم پسند ہے اور ہمارا مشن ہے کہ ہم ایسا کام کر کے جائیں کہ آنے والے ہزاروں سال تک دنیا میں ہمیں یاد رکھا جائے۔

فولڈز کا کہنا ہے کہ وہ کچھ بہت غیر معمولی کرنا چاہتے ہیں اور مریخ پر زندگی کی پہلی کرن کے طور پر طلوع ہونا چاہتے ہیں۔ مارس ون مشن 2024ء سے پہلا انسانی مشن مریخ پر بھیجنے کا منصوبہ شروع کر رہا ہے۔

ابتدائی تصاویر سے تو کسی تہذیب کے آثار سطح مریخ پر دکھائی نہیں دیتے تاہم سطح مریخ کا جب تک مکمل جائزہ نہ لے لیا جائے، آخری و حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ بہرحال ''کروسٹی'' اگر مریخ پر زندگی کے آثار یا تہذیب کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ عظیم کامیابی حضرت انسان کے ارتقا کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ یہ کائنات ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے، مٹھی بھر ریت میں بھی دس ہزار ذرات ہوتے ہیں اور یہ تعداد برہنہ آنکھ سے نظر آنے والے ستاروں سے زیادہ ہے کائنات میں موجود کل ستارے زمین پر موجود تمام ساحلوں کے تمام ریت کے ذرات سے بھی زیادہ تعداد میں ہیں۔ کیا ان میں کسی پر بھی کسی تہذیب نے کبھی بھی جنم نہیں لیا؟

ہماری دودھیا کہکشاں میں یقینا زمین سے لاکھوں یا اربوں سال پرانے ستارے بھی ہوں گے۔ کیا ان کی مخلوق نے کبھی یہاں کا دورہ نہیں کیا ہو گا؟ ہمارے سیارے کے وجود میں آنے کے بعد سے کئی ارب سال کے دوران کیا کبھی ایک دفعہ بھی کسی دور دراز تہذیب کا کوئی عجیب و غریب خلائی جہاز ہماری فضا میں مشاہدے کے لیے نہیں اترا، ہماری زمین پر نہیں ٹھہرا جسے متحیر انسانوں نے دیکھا؟ یہ خیال بڑا فطری ہے، یہ ہر اس بیدار مغز انسان کے ذہن میں آ چکا ہو گا جس نے سرسری طور پر بھی کائنات میں زندگی کے بارے میں سوچا ہوگا۔ لیکن کیا درحقیقت ایسا ہوا؟

اصل معاملہ حاصل شدہ ثبوت کے مستند ہونے کا ہے، جسے جرح اور شک کی کسوٹی پر جانچا گیا ہو، نہ کہ اس بات پر جو بظاہر بہت وزن رکھتی ہو یا جس کی بنیادی تصدیق ایک یا دو خودساختہ عینی شاہدوں نے کی ہو۔ اس حساب سے تو غیر ارضی تہذیب کے زمینی دورے کا کوئی بین ثبوت نہیں ملتا، باوجود یہ کہ اڑن طشتریوں اور قدیم خلا بازوں کا چرچا کیا جا چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ کوئی ثبوت ملے، کوئی ایسا ثبوت جو ایک اجنبی اور پردیسی تہذیب کے رازوں کی کنجی ہو، یہ تصور ہم انسانوں کے لیے ہمیشہ بڑا پرکشش رہا ہے۔

ماہرین فلکیات کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ ہماری اور دوسری کہکشاؤں میں ایسے سورج موجود ہو سکتے ہیں کہ جنھوں نے اپنے سیاروں پر مشتمل اپنے نظام شمسی بھی تشکیل دیے ہوں، جن میں زمین جیسے سیاروں کی موجودگی کا بھی امکان ہو اور ان میں حیات اور نشوونما کے لیے سازگار ماحول بھی موجود ہو۔

1940ء کے عشرے میں امریکی ماہر فلکیات فرینگ ڈریگ نے ہماری کہکشاں میں ایسے سیاروں کی تعداد کے تعین کے لیے کہ جہاں حامل فہم و ادراک مخلوق پائی جا سکتی ہے، ایک کلیہ وضع کیا۔ اس بنیاد پر بہت سے ایسے ماہرین نے جو (Milky Way) دوسرے سیاروں میں غیر ارضی تہذیب کی موجودگی کے بارے میں خاصے پرامید ہیں، صرف ملکی وے میں جس کے ایک کنارے پر ہمارے نظام شمسی کا وجود ہے، ایک لاکھ پچیس ہزار سیاروں کا اندازہ لگایا ہے جہاں زندگی پائی جا سکتی ہے، ہماری کہکشاں میں تقریباً چار سو بلین سورجوں کی موجودگی اور ان کے درمیان نامیاتی سالمات کا پایا جانا اس خیال کو مزید تقویت عطا کرتا ہے۔


سائنس دانوں کے مطابق نظام شمسی کی پیدائش چار ارب سال قبل ہوئی۔ اس عرصے کے دوران مادر ارض پر ''ہومیوسیپئن'' (Nasa) یعنی زیرک انسان وجود میں آیا۔ اس طرح دوسرے سیاروں پر بھی اس طرح کی زندگی پروان چڑھ سکتی ہے، ناسا کے تحت قائم شدہ کائنات میں غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے آفس کے سربراہ کے خیال کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایسے سیارے موجود ہیں جہاں اس قسم کی حیات فروغ پا سکتی ہے اور جب ارض پر ایسا ہو سکتا ہے تو غیر ارض پر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔

لیکن ہم اپنے نظام شمسی میں کس حد تک ترقی یافتہ تہذیب کی توقع کر سکتے ہیں؟ اگر کوئی تہذیب ہم سے ترقی میں مقابلتاً دس ہزار سال پیچھے ہے تو اس کے پاس کوئی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نہیں ہو گی۔ اگر وہ ہم سے کچھ آگے ہیں تو یقینا اب تک یہاں کا دورہ کر چکے ہوں گے، کیونکہ ہم تو خود نظام شمسی کی چھان بین کر رہے ہیں۔

دوسری تہذیبوں سے رابطے کے لیے ہمیں ایسا طریقہ درکار ہے جو نہ صرف بین السیارہ بلکہ بین الستارہ بھی رابطے کے لیے سازگار ہو۔ مثالی صورت حال تو یہ ہونی چاہیے کہ یہ طریقہ سستا اور تیز رفتار ہو تا کہ زیادہ معلومات بھیجی اور حاصل کی جا سکیں اور خلائی مکالمہ ہو سکے، ساتھ ہی اتنا واضح بھی ہو تا کہ کوئی بھی تہذیب، چاہے جیسے بھی ارتقائی حالت سے گزری ہو، اسے جلد سمجھ سکے۔ خوش قسمتی سے ایسا ایک طریقہ ہے، جسے ریڈیو فلکیات کہتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی غیر ارضی تہذیب سے کوئی پیغام وصول کر لیں تو اسے کس طرح سمجھیں گے؟ غیر ارضی تہذیب یقینا پیچیدہ، نفیس، اندرونی طور پر پختہ اور قطعی اجنبی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ وہ یہ چاہیں گے کہ ہمارے لیے اس پیغام کو آسان بنائیں، جتنا کہ وہ بنا سکتے ہیں، لیکن ایسا کیونکر ہو گا؟ کیا ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ ہو گا ہم سمجھتے ہیں کہ یقینا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسی مشترکہ زبان ضرور ہے جو تمام تکنیکی تہذیبیں، چاہے جس قدر مختلف کیوں نہ ہوں، جانتی ہیں کہ مشترکہ زبان سائنس اور ریاضی ہے۔ قوانین قدرت ہر جگہ ایک ہی ہیں۔

دور دراز ستاروں اور کہکشاؤں کے طیفوں کے نقوش ایک جیسے ہیں، نہ صرف کائنات میں، ہر جگہ یکساں کیمیائی عناصر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ کوانٹم قوانین بھی یکساں ہیں جو ایٹمی شعاعوں کے جذب اور خارج ہونے پر لاگو ہوتے ہیں۔ کہکشائیں جو ایک دوسرے کے گرد گھوم رہی ہیں، ان ہی ثقلی قوانین پر عمل کرتی ہیں، جن کا اطلاق زمین پر گرنے والے سیب یا خلا میں پرواز کرنے والے خلائی جہاز وائجر پر ہوتا ہے۔ قدرت کے نقوش ہر مقام پر ایک ہی قسم کے ہیں۔ ایک خلائی پیغام جسے ہم جیسی ترقی یافتہ تہذیب کے لیے بھیجا گیا ہو۔ بظاہر تو آسانی سے سمجھ میں آ جانا چاہیے۔

امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ''غیر ارضی تہذیب کی تلاش'' کے کام کا آغاز 1978ء میں کیا اور اس سلسلے میں کئی اہم تحقیقاتی خلائی مشن اب تک خلا میں روانہ کیے جا چکے ہیں۔ غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے سلسلے میں پائینر 10، 11 اور 12 میں روانہ کیے گئے۔ ان میں ایک تختی رکھی ہے، جس پر یہ عبارت درج ہے کہ انسان نظام شمسی میں صرف سیارہ زمین پر موجود ہے۔

ابن آدم کا مریخ سے عشق بہت پرانا ہے اور تسخیر چاند کے بعد فتح مریخ ہی حضرت انسان کی اولین خواہش و منزل رہی، اس سرخ سیارے پر ''کروسٹی'' کی تاریخ ساز لینڈنگ درحقیقت انسان کے ایک اور طویل خواب کی تعبیر ہے۔

''مارس ون مشن'' کے ون وے ٹرپ کے خواہش مند دو لاکھ امیدواروں میں سے منتخب کیے گئے 100 افراد میں ایک پاکستانی ریجنالڈ بھی شامل ہے۔

ریجنالڈ فولڈز کہتے ہیں ''دریافت کے سفر میں آسمانوں سے بھی آگے جانا چاہتا ہوں، مشن ہے ایسا کام کر جاؤں کہ ہزاروں سال دنیا یاد رکھے۔''
Load Next Story