ڈرٹوؤں کا حملہ

صحت کے شعبے کو بہتر بنانے سے پہلے ضروری ہے کہ ماحول کو صاف رکھا جائے ورنہ خس کم جہاں پاک۔

صحت کے شعبے کو بہتر بنانے سے پہلے ضروری ہے کہ ماحول کو صاف رکھا جائے ورنہ خس کم جہاں پاک۔ فوٹو شٹر اسٹاک

LONDON:
ہمارے ملک میں بیماریوں کا ایک لامتناہی سلسلے کا دور چل رہا ہے۔ نت نئی بیماریاں اور پھر اس میں مبتلا مریض۔ ملک میں سہولیات کی عدم فراہمی اور مریضوں کی کسمپرسی مل کر معاشرے کا ایک ایسا نقشہ کھینچتے ہیں جو ہمیں صرف بھیانک ہی نظر آتا ہے۔

پولیو کو ہی لے لیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور لے گی بھی کیسے، کیوں کہ کچھ لوگ پولیو کی اس بیماری کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس بیماری سے لوگوں کو بچانے کے لیے جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں جان سے مار دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ کہتے ہیں کہ پولیو کی بیماری سے شرح پیدائش میں کمی واقعی ہوتی ہے، لیکن میں جب اُن پولیو پینے والے بچوں کو دیکھتا ہوں، جن کی اب شادیاں ہوچکی ہیں، پانچ سے کم بچے تو کہیں نہیں گئے۔ بچوں کی کھیپ کی کھیپ دنیا میں آئی چلی جارہی ہے۔ لیکن ہمارا موضوع بہرحال یہ نہیں ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اقوام متحدہ فنڈ دیتی ہے۔ حکومت اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پولیو کے خاتمے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈینگی کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ مختلف بیماریوں سے نمٹنے کے لیے الگ الگ حکمتیں ترتیب دی جاتی ہیں لیکن کیا فائدہ؟

یہاں پہلی بیماری ختم ہوتی ہے، وہاں ایک نئی شروع ہوجاتی ہے۔ لوگ وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے جارہے ہیں۔ صاف فضا ناپید ہے۔ لوگوں نے بیماریوں کا علاج کرنا ہے لیکن اپنے ماحول کو صاف ستھرا نہیں رکھنا، میرے چندا، میرے جگر کے ٹکڑے!


میں اس حکومت کو کیسے سمجھاؤں کہ آپ نے اپنی اس زمین کی فضا کو دیکھا ہے جو گردوغبار کے دھوئیں سے اَٹی پڑی ہے۔ جس شخص کا جب دل چاہے اپنے کچرے کو جلا کر فضا میں جلنے کی بو چھوڑ جائے۔ فیکٹریوں نے تو ٹھیکا لے رکھا ہے فضا کو مکدّر بنانے کا۔ کراچی کا سائٹ ایریا ہو یا کورنگی میں قائم فیکٹریاں، ان کا گندا اور تیزابی پانی بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے بہے جارہا ہے۔ کئی لوگ فیکٹریوں کے باہر بنے پانی کے دلدل میں ڈوب کر خود کو جھلسا چکے ہیں۔

شہر میں ہر دوسرے دن خاکروب روڈ کے دونوں کناروں سے مٹی ہٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، یہ سلسلے زمین گول ہے کی طرح چلتا رہتا ہے۔ بارشوں کے دنوں میں تو شہر کی ایسے اینٹ بجتی ہے کہ ہلاکو خان کی ضرورت نہ پڑے، ہماری حکمران ہی ہلاکو خان بنے ہوئے ہیں۔

جب فضا اتنی خراب ہوگی، جگہ جگہ پانی کے جوہڑ بنے ہوں گے تو یقیناً بیماریوں کا زور بڑھتا جائے گا۔ حکومت پیسہ صحت کی مد میں خرچ کرتی ہے، اگر تھوڑا پیسہ صفائی کی مد میں بھی خرچ کردیا جائے تو ماحول کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ تین روزہ صفائی مہم یا ہفتہ صفائی مہم چلانے سے صفائی نہیں ہوگی۔ اس کے لیے بھر پور منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ شہر کے ایک ایک ٹاؤن کو ہدف بنا کر طویل المیعاد بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ شارٹ کٹ سے ہفتہ بھر جگہ صاف تو رہے گی لیکن اس کے بعد پھر جو حال ہوتا ہے اسے دیکھ کر دل یہی کہتا ہے کہ اس سے پہلے حال زیادہ اچھا تھا۔

ماحول کی آلودگی ڈرٹوؤں کو ہمارے گھروں تک لے آئی ہے۔ ہمارے بچے بیماریوں کے باعث بیمار پڑجاتے ہیں، غریب بستر پر مرجاتے ہیں۔ امیر علاج میں سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں۔ اس لئے صحت کے شعبے کو بہتر بنانے سے پہلے ضروری ہے کہ ماحول کو صاف رکھا جائے ورنہ خس کم جہاں پاک۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story