طوفانِ بدتمیزی

آخر وہ کونسی کمی تھی جس کو پورا کرنے کے لیے شہر کا شہر خواتین کا بازار بناکر طوفان بدتمیزی کی انتہا کردی گئی ہے۔

ہم نے تو اب تک یہی سنا تھا کہ کپڑے پہنے ہی اِس لیے جاتے ہیں کہ عزت محفوظ رہے، مگر کمال تو یہ ہوا کہ اب عزت کو نیلام کرنے کےلیے ہی کپڑے فروخت کیے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اگر ماضی کی بات کی بات کی جائے تو گرمی آنے کا محض ایک ہی دُکھ ہوا کرتا تھا کہ گرمی آئے گی تو ساتھ پریشانی بھی لائے گی ۔۔۔۔۔ پریشانی ہوگی پسیینے کی، چپچپے پن کی ۔۔۔۔۔ مگر پھر دن آگے کی جانب بڑھتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ مسائل اور پریشانیاں بھی بڑھتی چلی گئیں۔

پہلے اضافہ ہوا پانی کی قلت کا، ابھی اِس مشکل سے نہ نکلے تھے کہ مسائل کھڑے ہوگئے بجلی کی آنکھ مچولی کے، چلیں یہاں تک تو بات ٹھیک تھی کہ بجلی جتنا جاتی تھی اُتنا آ بھی جاتی تھی ۔۔۔۔۔ مگر پھر حد ہوگئی ۔۔۔۔ اور بجلی ایسا روٹھی کہ گرمیوں میں آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔

چلیں جناب یہ سب تو ہمارے نصیب میں لکھ دیا گیا ۔۔۔۔۔ مگر گزشتہ چار، پانچ سال سے گرمیوں کے آتے ہی نئی مشکل بھی ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔ اور وہ ہے لان کی ۔۔۔۔۔ اب صاحب کیا بتائیں ۔۔۔۔۔ سڑک پر چلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔۔۔۔۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ اگر آپ کسی حد تک سیدھے اور شریف ہیں اور خواتین کے اسیر سے بچنا چاہتے ہیں تو براہِ کرم بازار کا رُکھ مت کریں ۔۔۔۔۔ اِس مشورے سے یقیناً بہت سے لوگوں کو افاقہ ہوا ہوگا ۔۔۔۔۔ مگر اب حالات کی بے وفائی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ گھر سے نکلتے ہی خواتین آپ کو اپنے جھرمٹ میں لے لیتی ہیں اور اُس وقت تک ساتھ نہیں چھوڑتی جب تک آپ کسی چار دیواری میں نہ چلے جائیں۔

سڑک پر جہاں دیکھیے، خواتین یا تو بیٹھی ہوئی پائی جائیں گی یا پھر لیٹے ہوئے ۔۔۔۔۔ ناجانے ایسی کونسی بیماری ہوگئی ہے اِن خواتین کو کہ کھڑے رہ کر کوئی بات ہی نہیں کرسکتیں ۔

لان کے اشتہارات دیکھ کر فوری طور پر جو تاثرات جنم لیتے ہیں وہ پیش خدمت ہیں۔

  • کچھ اشتہارات میں خواتین اِس طرح لیٹی ہوئی ہوتی ہیں جیسے طبیعت ناساز ہو یا سر درد سے پھٹا جارہا ہو۔ اُن خواتین سے التجا ہے کہ محترمہ بیچ سڑک پر لوگوں کو اپنا دُکھ سنانے کے بجائے عزت کے ساتھ گھر جائیں اور سر درد کی گولی کھاکر سوجائیں، اُمید تو پوری ہے کہ افاقہ ضرور ہوگا۔




  • اِسی طرح کچھ خواتین کی شکل کی تکلیف دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے محترمہ کو قبض ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا ہو۔ مشورہ تو اُن کے لیے بھی ہے کہ محترمہ روزانہ کسی بھی اچھی کمپنی کا اسپغول استعمال کیجیے، اِس طرح پوری اُمید ہے کہ آپ کی تکلیف دور ہوجائے گی۔





  • یہ معاملات تو قابل فہم ہے مگر کچھ خواتین تو ایسی ظالم نظروں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں جیسے وہ کہہ رہی ہوں کہ ارے جناب کپڑے میں کیا رکھا ہے ذرا ہمیں بھی تو دیکھیے۔




یہ تو وہ اشتہارات ہیں جو سڑکوں پر لگے ہیں مگر ٹی وی پر آنے والے اشتہارات کا حال تو پوچھیے ہی مت۔ آپ جب تک خواتین کے جسم پر کپڑے کی تلاش میں مصروف ہوتے ہیں اُس وقت تک تو اشتہار ہی ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔ خیر ہماری کوشش تو جاری ہے کہ کپڑے کی باقیات کو کسی نہ کسی طرح ڈھونڈلیا جائے لیکن اگر آپ کو جسم پر کپڑے کی علامات مل جائیں تو ہمیں بھی بتائیے گا۔

اِس موقع پر سوال تو یہ ہے کہ کیا آج سے 6، 5 سال پہلے گرمیوں میں لان نہیں بکتی تھی؟ کیا اُس وقت خواتین کو معلوم نہیں تھا کہ ''لان'' نام کی بھی کوئی شہ ہوتی ہے جو گرمیوں میں پہنی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ جس کا مقصد کسی حد تک گرمی سے مقابلہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ آخر وہ کونسی کمی تھی جس کو پورا کرنے کے لیے شہر کا شہر خواتین کا بازار بناکر طوفان بدتمیزی کی انتہا کردی گئی ہے۔

ہم نے تو اب تک یہی سنا تھا کہ کپڑے پہنے ہی اِس لیے جاتے ہیں کہ عزت محفوظ رہے، مگر کمال تو یہ ہوا کہ اب عزت کو نیلام کرنے کےلیے ہی کپڑے فروخت کیے جاتے ہیں۔ اگر ہماری بات پر یقین نہیں تو ابھی کچھ وقت نکالیے ۔۔۔۔۔ اور گھر سے باہر لگے بل بورڈز پرموجود خواتین پر ایک نظر ڈالیے اور اگر آپ کو کہیں سے بھی یہ لگ رہا ہو کہ اِس طرح کے پوز دینے کا مقصد کپڑا بیچنا ہے تو جناب یہ بندہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائے گا اور پھر تلوار آپ کی اور گردن ہماری ہوگی!

[poll id="309"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

 
Load Next Story