ایم کیو ایم کا کارکن عمیرصدیقی سانحہ بلدیہ اور 120 افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے ترجمان رینجرز
بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں رحمان نے آگ لگائی جبکہ نائن زیرو کے اطراف 300 ٹارگٹ کلرز روپوش ہیں، عمیر کا رینجرز کو بیان
لاہور:
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نائن زیرو کے اطراف سے گرفتار عمیر صدیقی 90 روز کے لئے رینجرز کے حوالے کردیا۔
رینجرز نے ملزم عمیر صدیقی کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا، اس دوران رینجرز کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ملزم کو عزیز آباد آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا، پیشی کے دوران ملزم عمیر صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ اسے 15 فروری کو حراست میں لیا گیا تھا، اس موقع پر ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ 28 فروری کو سندھ ہائی کورٹ میں عمیر صدیقی کے گمشدگی کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ فریقین کے موقف سننے کے بعد عدالت نے ملزم کو 90 روز کے لئے رینجرز کے حوالے کردیا تاہم عدالت نے ملزم کو اس کے اہل خانہ اور وکیل سے ملاقات کی اجازت دے دی۔
ترجمان رینجرز کے جاری بیان کے مطابق عمیر صدیقی ایم کیو ایم کا ٹارگٹ کلر ہے جس نے 120 سے زائد افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے، عمیر نے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ انیس قائم خانی نے 2008 میں خورشید بیگم میموریل ہال میں ٹارگٹ کلنگ تیز کرنے کی ہدایت کی، عمیر صدیقی اور اس کی ٹیم میں شامل دیگر 23 ٹارگٹ کلر ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کے حکم پر ٹارگٹ کلنگ کرتے تھے، عمیر صدیقی کی ٹارگٹ کلرز کی ٹیم نے ہی عامر خان کے بھتیجے سمیت ایم کیو ایم کے ہی کئی منحرف کارکنوں کو بھی قتل کیا۔
ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نائن زیرو کے اطراف میں 250 سے 300 ٹارگٹ کلرز اب بھی روپوش ہیں۔ اس کے علاوہ عمیر صدیقی نے متحدہ قومی موومنٹ کے عسکری ونگ کے لئے کوئٹہ کے ایک اسلحہ ڈیلر سے 40 کلاشنکوف، راکٹ لانچر اور8 ایل ایم جی خریدنے کا بھی اعتراف کیا ہے، ملزم نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک ماہ قبل تمام سیکٹرز کا اسلحہ ایمبولینسز کے ذریعے نائن زیرو پر جمع کرایا گیا۔ اس کے علاوہ عمیر نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ سیکٹر انچارج عبدالرحمان عرف بھولا نے لگائی تھی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نائن زیرو کے اطراف سے گرفتار عمیر صدیقی 90 روز کے لئے رینجرز کے حوالے کردیا۔
رینجرز نے ملزم عمیر صدیقی کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا، اس دوران رینجرز کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ملزم کو عزیز آباد آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا، پیشی کے دوران ملزم عمیر صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ اسے 15 فروری کو حراست میں لیا گیا تھا، اس موقع پر ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ 28 فروری کو سندھ ہائی کورٹ میں عمیر صدیقی کے گمشدگی کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ فریقین کے موقف سننے کے بعد عدالت نے ملزم کو 90 روز کے لئے رینجرز کے حوالے کردیا تاہم عدالت نے ملزم کو اس کے اہل خانہ اور وکیل سے ملاقات کی اجازت دے دی۔
ترجمان رینجرز کے جاری بیان کے مطابق عمیر صدیقی ایم کیو ایم کا ٹارگٹ کلر ہے جس نے 120 سے زائد افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے، عمیر نے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ انیس قائم خانی نے 2008 میں خورشید بیگم میموریل ہال میں ٹارگٹ کلنگ تیز کرنے کی ہدایت کی، عمیر صدیقی اور اس کی ٹیم میں شامل دیگر 23 ٹارگٹ کلر ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کے حکم پر ٹارگٹ کلنگ کرتے تھے، عمیر صدیقی کی ٹارگٹ کلرز کی ٹیم نے ہی عامر خان کے بھتیجے سمیت ایم کیو ایم کے ہی کئی منحرف کارکنوں کو بھی قتل کیا۔
ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نائن زیرو کے اطراف میں 250 سے 300 ٹارگٹ کلرز اب بھی روپوش ہیں۔ اس کے علاوہ عمیر صدیقی نے متحدہ قومی موومنٹ کے عسکری ونگ کے لئے کوئٹہ کے ایک اسلحہ ڈیلر سے 40 کلاشنکوف، راکٹ لانچر اور8 ایل ایم جی خریدنے کا بھی اعتراف کیا ہے، ملزم نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک ماہ قبل تمام سیکٹرز کا اسلحہ ایمبولینسز کے ذریعے نائن زیرو پر جمع کرایا گیا۔ اس کے علاوہ عمیر نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ سیکٹر انچارج عبدالرحمان عرف بھولا نے لگائی تھی۔