کشمیر کا تاریخی ورثہ خطرے میں
جموں و کشمیر کے مشترکہ ورثے او ر شناخت کو بچانے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جائیں۔
ISLAMABAD:
ستمبر 2014ء میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ خاص طور پر سری نگر شہر میں ہونے والی بارشوں کی شدت جموںو کشمیر میں ہونے والے ماضی کے تمام سیلابوں سے زیادہ تھی۔
کنٹرول لائن کے جنوبی اطراف میں دریائے جہلم اور اس کی نزدیکی پہاڑی بستیاں بھی اس طغیانی کی زد میں آئیں، جس کی وجہ سے انسانی جان و مال کے ضیاع کے علاوہ جموں و کشمیر کے مشترکہ تاریخی ورثہ کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا، جس میں سردست آثار قدیمہ کی باقیات، کشمیری لکڑی کے بنے ہوئے روایتی گھروں کے علاوہ لکڑی پر کندہ کاری و نقوش سے مزین نایاب اشیاء بھی شامل ہیں۔
خطۂ کشمیر کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی کے قدیم ورثہ پر محیط ہے، جو کلاسیکل اور قرون وسطی کی یادگاروں کی صورت میں وادی کے طول وا رض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کشمیر کے مسحور کن ماحول نے یہاں کے باشندوں کو ہنرو فکر سے نوازا اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ فن کاری کے شاہ کار تخلیق کرسکیں۔
جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقہ برفانی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ زمانۂ قدیم سے پہاڑوں کے مشکل درے، اجنبی دیس سے کشمیر آنے والوں کی گزرگاہ ہیں۔ یہاں کے باشندوں نے بیرونی اثرات کو اس حد تک قبول کیا کہ وہ اس تہذیب کا حصہ محسوس ہونے لگے۔
کشمیر کی پہاڑوں میں گھری وادیوں کے جدا ماحول نے خود انحصاری کی روایت کو تقویت دی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود وادیٔ نیلم خود انحصاری او ر مقامی روایتی سوچ فکر کی ایک اچھوتی مثال ہے۔ مشرق میں وادی نیلم، سری نگر شہر کے ساتھ منسلک ہے، جو ماضی بعید میں خوشانہ (Khusana) بادشاہوں کا دارالحکومت رہا ہے، جس میں بدھ ازم، شیو مت اور ہندو ازم کے آثار قدیمہ کے مقامات کے علاوہ اسلامی دور کے فن تعمیر کے نمونے بھی شامل ہیں۔
اس طرح وادیٔ نیلم میں بھی قدیم ترین تہذیبوں کے شواہد موجود ہیں اور یہ علاقہ 1990ء سے فوجی تنازعے کا مرکز رہا ہے۔ کشمیر کے زیادہ تر قدیم مقامات بھارت کی قابض فوجوں کے زیراستعمال ہیں اور ان کا بڑا حصہ بم باری سے تباہ ہوچکا ہے۔ ان جھڑپوں کے علاوہ یہاں کے باشندوں کو سیلاب او ر زلزلے جیسی آفات کا بھی سامنا ہے۔
ان قدرتی اور انسان کی پیداکردہ تباہ کاریوں نے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف شدید گزند پہنچایا ہے، جس کو رسک مینجمنٹ کے پلان کے ذریعے ختم کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ کشمیر کی تنازعاتی حیثیت کی وجہ سے یہاں کی انتظامیہ کے پاس اس ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے کو ئی منصوبہ نہیں اور مقامی انتظامیہ سیکڑوں کی تعداد میں آثار قدیمہ اور ورثہ کو بچانے میں ناکام رہی ہے۔ کشمیر کا ثقافتی ورثہ شہری علاقوں، مغربی وادیوں، جنگلوں کے علاوہ Silk Road (سلک روڈ) سے منسلک راستوں پر پھیلا ہوا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 1828ء میں آنے والے زلزلے نے کشمیر میں زبردست تباہی پھیلائی، جس میں سری نگر، وادیٔ کشمیر، وادیٔ نیلم، وادیٔ جہلم کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1885ء کے بعد 1909ء اور پھر 1959ء کی قدرتی آفات میں یہاں کے باشندے زیرعتاب رہے۔ تاریخی کتب سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ 1515ء کے زلزلے میں ویٹاسٹا (دریائے جہلم) نے اپنا راستہ بدل دیا' جس کی وجہ سے انسانی ، جان و مال کا نقصان ہوا۔
2005ء کے زلزلے میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کے ایچ خورشید لائبریری مظفر آباد میں موجود تاریخی نسخہ جات اور نادر کتب کے علاوہ تاریخی قلعہ مظفر آباد بھی تباہ ہوا۔ اور اس قلعہ میں موجود تاریخی و ثقافتی میوزیم کے قیمتی نوادرات لوٹ لیے گئے۔
یہ قلعہ ابھی تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکا ہے۔ اس زلزلے کے دوران کشمیری لکڑی کے کندہ، کھڑکیاں، دروازے، گھریلو اشیاء، آرٹ اور کرافٹ نہ صرف ضائع ہوئے بل کہ ان کو غیر قانونی طریقے سے بڑے پیمانے پر علاقے سے باہر بھیجا گیا۔
کشمیر کے کچھ اور ورثے کو منظم طریقے سے تباہ کرنا بھی اس برائی کا ایک پہلو ہے، تاکہ یہاں کے باشندوں کو ان کے مشترکہ ورثے سے جدا کردیا جائے، جس کی بہت ساری سیاسی اور نظریاتی وجوہات ہیں۔
ہمارے سامنے تقسیم برصغیر کے وقت نیلم ویلی میں شاردہ تہذیب کے کلاسیکل ادب کو تباہ کرنے کے شواہد بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 1990ء کی مسلح لڑائی کے دوران درجنوں کاری گروں اور آرٹ و کرافٹ کے ماہرین کو ہندوستانی زیرانتظام کشمیر میں شہیدکیا گیا۔ بہت سے کاری گر جو کنٹرول لائن کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کو مسلسل فائرنگ کی وجہ سے اپنا پیشہ بدلنا پڑا۔ آٹھ مقام ضلع وادی نیلم کا وہ مقام ہے جو عمومی طور پر روایتی ہنر مندوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ بھی بھارتی فائرنگ سے تباہ کیا گیا۔
آٹھ مقام بازار میں موجود دکانوں پر مسلسل ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے بہت سے کاری گروں کو یہ علاقہ اور روایتی پیشے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہاں کے روایتی فن کاروں، ہنر مندوں کو حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا تاکہ وہ اپنا کاروبار دوبارہ شروع کر سکیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بہت سے سیاحتی اور مذہبی مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا قبضہ ہے۔
دنیا بھر میں ثقافت، آثار قدیمہ اور سیاحتی مقامات کو معاشی پروگراموں کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا خاص طور پر پاکستان میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کو اہمیت نہیں دی گئی۔
جنگیں، تنازعات موسمی تبدیلیاں اور قدرتی آفات کے پس منظر میں یہ ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کے تباہی کا شکار، مشترکہ ورثے کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ متعلقہ اداروں اور لوگوں کو ثقافتی ورثہ کی حفاظت کی جانب راغب اور متوجہ کیا جائے جو ایک مشترکہ سوچ اور عمل سے ممکن ہوسکتا ہے۔
یہ عمل UNESCO کی متنازعہ علاقوں کے کلچر کی تباہی کے حوالے سے پالیسی پر عمل درآمد سے شروع ہونا چاہیے۔ ثقافتی انتظام کے حوالے سے پالیسیاں وضع ہونی چاہییں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے جموں و کشمیر کے مشترکہ ورثے او ر شناخت کو بچانے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جائیں۔
(پی ایچ ڈی سکالر، ایشین سویلائزیشن قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)
ستمبر 2014ء میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ خاص طور پر سری نگر شہر میں ہونے والی بارشوں کی شدت جموںو کشمیر میں ہونے والے ماضی کے تمام سیلابوں سے زیادہ تھی۔
کنٹرول لائن کے جنوبی اطراف میں دریائے جہلم اور اس کی نزدیکی پہاڑی بستیاں بھی اس طغیانی کی زد میں آئیں، جس کی وجہ سے انسانی جان و مال کے ضیاع کے علاوہ جموں و کشمیر کے مشترکہ تاریخی ورثہ کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا، جس میں سردست آثار قدیمہ کی باقیات، کشمیری لکڑی کے بنے ہوئے روایتی گھروں کے علاوہ لکڑی پر کندہ کاری و نقوش سے مزین نایاب اشیاء بھی شامل ہیں۔
خطۂ کشمیر کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی کے قدیم ورثہ پر محیط ہے، جو کلاسیکل اور قرون وسطی کی یادگاروں کی صورت میں وادی کے طول وا رض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کشمیر کے مسحور کن ماحول نے یہاں کے باشندوں کو ہنرو فکر سے نوازا اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ فن کاری کے شاہ کار تخلیق کرسکیں۔
جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقہ برفانی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ زمانۂ قدیم سے پہاڑوں کے مشکل درے، اجنبی دیس سے کشمیر آنے والوں کی گزرگاہ ہیں۔ یہاں کے باشندوں نے بیرونی اثرات کو اس حد تک قبول کیا کہ وہ اس تہذیب کا حصہ محسوس ہونے لگے۔
کشمیر کی پہاڑوں میں گھری وادیوں کے جدا ماحول نے خود انحصاری کی روایت کو تقویت دی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود وادیٔ نیلم خود انحصاری او ر مقامی روایتی سوچ فکر کی ایک اچھوتی مثال ہے۔ مشرق میں وادی نیلم، سری نگر شہر کے ساتھ منسلک ہے، جو ماضی بعید میں خوشانہ (Khusana) بادشاہوں کا دارالحکومت رہا ہے، جس میں بدھ ازم، شیو مت اور ہندو ازم کے آثار قدیمہ کے مقامات کے علاوہ اسلامی دور کے فن تعمیر کے نمونے بھی شامل ہیں۔
اس طرح وادیٔ نیلم میں بھی قدیم ترین تہذیبوں کے شواہد موجود ہیں اور یہ علاقہ 1990ء سے فوجی تنازعے کا مرکز رہا ہے۔ کشمیر کے زیادہ تر قدیم مقامات بھارت کی قابض فوجوں کے زیراستعمال ہیں اور ان کا بڑا حصہ بم باری سے تباہ ہوچکا ہے۔ ان جھڑپوں کے علاوہ یہاں کے باشندوں کو سیلاب او ر زلزلے جیسی آفات کا بھی سامنا ہے۔
ان قدرتی اور انسان کی پیداکردہ تباہ کاریوں نے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف شدید گزند پہنچایا ہے، جس کو رسک مینجمنٹ کے پلان کے ذریعے ختم کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ کشمیر کی تنازعاتی حیثیت کی وجہ سے یہاں کی انتظامیہ کے پاس اس ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے کو ئی منصوبہ نہیں اور مقامی انتظامیہ سیکڑوں کی تعداد میں آثار قدیمہ اور ورثہ کو بچانے میں ناکام رہی ہے۔ کشمیر کا ثقافتی ورثہ شہری علاقوں، مغربی وادیوں، جنگلوں کے علاوہ Silk Road (سلک روڈ) سے منسلک راستوں پر پھیلا ہوا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 1828ء میں آنے والے زلزلے نے کشمیر میں زبردست تباہی پھیلائی، جس میں سری نگر، وادیٔ کشمیر، وادیٔ نیلم، وادیٔ جہلم کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1885ء کے بعد 1909ء اور پھر 1959ء کی قدرتی آفات میں یہاں کے باشندے زیرعتاب رہے۔ تاریخی کتب سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ 1515ء کے زلزلے میں ویٹاسٹا (دریائے جہلم) نے اپنا راستہ بدل دیا' جس کی وجہ سے انسانی ، جان و مال کا نقصان ہوا۔
2005ء کے زلزلے میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کے ایچ خورشید لائبریری مظفر آباد میں موجود تاریخی نسخہ جات اور نادر کتب کے علاوہ تاریخی قلعہ مظفر آباد بھی تباہ ہوا۔ اور اس قلعہ میں موجود تاریخی و ثقافتی میوزیم کے قیمتی نوادرات لوٹ لیے گئے۔
یہ قلعہ ابھی تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکا ہے۔ اس زلزلے کے دوران کشمیری لکڑی کے کندہ، کھڑکیاں، دروازے، گھریلو اشیاء، آرٹ اور کرافٹ نہ صرف ضائع ہوئے بل کہ ان کو غیر قانونی طریقے سے بڑے پیمانے پر علاقے سے باہر بھیجا گیا۔
کشمیر کے کچھ اور ورثے کو منظم طریقے سے تباہ کرنا بھی اس برائی کا ایک پہلو ہے، تاکہ یہاں کے باشندوں کو ان کے مشترکہ ورثے سے جدا کردیا جائے، جس کی بہت ساری سیاسی اور نظریاتی وجوہات ہیں۔
ہمارے سامنے تقسیم برصغیر کے وقت نیلم ویلی میں شاردہ تہذیب کے کلاسیکل ادب کو تباہ کرنے کے شواہد بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 1990ء کی مسلح لڑائی کے دوران درجنوں کاری گروں اور آرٹ و کرافٹ کے ماہرین کو ہندوستانی زیرانتظام کشمیر میں شہیدکیا گیا۔ بہت سے کاری گر جو کنٹرول لائن کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کو مسلسل فائرنگ کی وجہ سے اپنا پیشہ بدلنا پڑا۔ آٹھ مقام ضلع وادی نیلم کا وہ مقام ہے جو عمومی طور پر روایتی ہنر مندوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ بھی بھارتی فائرنگ سے تباہ کیا گیا۔
آٹھ مقام بازار میں موجود دکانوں پر مسلسل ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے بہت سے کاری گروں کو یہ علاقہ اور روایتی پیشے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہاں کے روایتی فن کاروں، ہنر مندوں کو حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا تاکہ وہ اپنا کاروبار دوبارہ شروع کر سکیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بہت سے سیاحتی اور مذہبی مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا قبضہ ہے۔
دنیا بھر میں ثقافت، آثار قدیمہ اور سیاحتی مقامات کو معاشی پروگراموں کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا خاص طور پر پاکستان میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کو اہمیت نہیں دی گئی۔
جنگیں، تنازعات موسمی تبدیلیاں اور قدرتی آفات کے پس منظر میں یہ ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کے تباہی کا شکار، مشترکہ ورثے کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ متعلقہ اداروں اور لوگوں کو ثقافتی ورثہ کی حفاظت کی جانب راغب اور متوجہ کیا جائے جو ایک مشترکہ سوچ اور عمل سے ممکن ہوسکتا ہے۔
یہ عمل UNESCO کی متنازعہ علاقوں کے کلچر کی تباہی کے حوالے سے پالیسی پر عمل درآمد سے شروع ہونا چاہیے۔ ثقافتی انتظام کے حوالے سے پالیسیاں وضع ہونی چاہییں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے جموں و کشمیر کے مشترکہ ورثے او ر شناخت کو بچانے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جائیں۔
(پی ایچ ڈی سکالر، ایشین سویلائزیشن قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)