عزم و ہمت کی شمعیں

عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ہمیشہ ان خواتین کا ذکر ہوتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے شہرت کا تاج سر پہ رکھتی ہیں۔

fatimaqazi7@gmail.com

عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ہمیشہ ان خواتین کا ذکر ہوتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے شہرت کا تاج سر پہ رکھتی ہیں۔ سیاست، اداکاری، رقص، موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، ادیبہ، شاعرہ، استاد اور سائنس دان۔ سبھی میدانوں میں خواتین نمایاں رہی ہیں، اور اپنے اپنے شعبوں میں انھوں نے نام بھی کمایا ہے۔

ہم التمش کی نامور بیٹی رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی، بابر کی بیٹی گلبدن بانو بیگم، مسز وجے لکشمی پنڈت، اندرا گاندھی، محترمہ فاطمہ جناح، روشن آرا بیگم، عطیہ فیضی، بیگم اختر (اختری بائی فیض آبادی) جوتھیکا رائے، فیروزہ بیگم، لتا جی اور آشا بھونسلے، ریشماں، برونٹے سسٹرز، پری چہرہ نسیم بانو، شمشاد بیگم، پروین قاسم اور بہت سی دوسری خواتین کو کبھی نہیں بھول سکتے۔

کیونکہ یہ سب اپنے اپنے میدانوں کی شہ سوار ہیں اور ان میں سے کسی کا نام بھی محتاج تعارف نہیں ہے۔ لیکن کچھ خواتین ایسی بھی ہیں کہ جنھیں صرف ان کے قریبی رشتے داروں اور جاننے والوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ان کا عزم و حوصلہ ایسا تھا جو تاریخ رقم کرنے کے لیے کافی ہے۔

لیکن ان گمنام عورتوں کو کوئی بھی نہیں جانتا۔ ریڈیو پاکستان کراچی کی دو خواتین پروڈیوسرز نے ایک سلسلہ ''سنہرے لوگ'' کے نام سے شروع کیا تھا جن میں ایسے خواتین و حضرات کا ذکر ہوتا تھا جو ناقابل فراموش تھے۔ میں نے بہت سے ایسے لوگوں پر دس منٹ دورانیے پر مشتمل تحریریں لکھی ہیں اور خود اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کروائیں۔

یہ سلسلہ مقبول بھی ہوا اور ان خواتین پروڈیوسرز کو شاباشی بھی ملی کہ وہ گمنام حقیقتوں کو سامنے لائیں۔ بعض لوگوں کی کہانیاں تو آٹھ آٹھ آنسو رلا دینے والی تھیں۔

جی چاہتا ہے کہ آج اپنے کالم میں ان چند باہمت خواتین کا تذکرہ کروں جو تنہا اپنی ذات میں عزم و ہمت کا پیکر تھیں لیکن ان کے سر پہ نہ کسی لیڈر کا ہاتھ تھا، نہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ان سے دلچسپی تھی کہ ان کی کہانیوں کو منظر عام پہ لاتا۔ یہ وہ بے بس عورتیں تھیں جنھوں نے چار دیواری میں رہ کر معاشی مسائل پہ قابو پایا اور گمنام رہ کر بھی دوسروں کے لیے مشعل راہ بنی رہیں۔

سب سے پہلے جو چہرہ سامنے آتا ہے۔ وہ اس بہادر اور خود دار خاتون کا ہے جن سے میں نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ ایک بے حد حسین اور غیر معمولی دلکش خاتون تھیں۔ یہ اتنی خوبصورت تھیں کہ ہم بچے تک ٹھٹک کر انھیں دیکھتے تھے اور مبہوت ہو جاتے تھے۔ ان کا پورا گھرانا بے حد حسین تھا۔

انھیں ہم مجیب آپا کہتے تھے۔ ان کی بڑی بہن، بھائی، بھابی اور والدین کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے قدرت نے بڑی فیاضی سے اس خاندان کو حسن عطا کیا تھا۔ آج جب وہ چہرے آنکھوں میں پھرتے ہیں۔ تو بلاشبہ ان من موہنی صورتوں کو چغتائی آرٹ کا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کھڑی ستواں ناک، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، کمان ابرو، گھنی پلکیں، بھرے بھرے ہونٹ، چمپئی گلابی گوری رنگت، متناسب جسم، گھنے سیاہ بال۔ اس خاندان میں ایک بی مغلانی بھی تھیں جن کی اس گھرانے میں بڑی عزت تھی۔


اب سنیے وہ وجہ جس کی بنا پر آج اس کالم میں ان کا ذکر کرنے کو جی چاہا۔ میری والدہ کا مجیب آپا کے گھر سے خاصا ربط و ضبط تھا۔ ہم بلڈنگ کے بچے اور بچیاں مجیب آپا کی والدہ سے قرآن ناظرہ پڑھتے تھے۔ جب کہ مجھے وہ گھر پہ خود پڑھانے آتی تھیں۔ پھر ان کی شادی ایک نہایت وجیہہ شخص سے ہو گئی اس عرصے میں وہ مجھے قرآن مجید دو بار ختم کرا چکی تھیں۔ 1956ء میں جب ہم برنس روڈ سے پی ای سی ایچ سوسائٹی اپنے گھر منتقل ہوئے تو پتہ چلا کہ مجیب آپا اور ان کے خاندان کا تعلق بہادر شاہ ظفر کے خاندان سے تھا۔ تقسیم ہند کے بعد یہ خاندان کراچی منتقل ہوا تو بہت ناگفتہ بہ حالت تھی۔

شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ان خوددار خواتین جنھوں نے ہمیشہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کی تھی اپنی جمع پونجی ریلوے اسٹیشن پہ لٹ جانے کے بعد ان ماں بیٹیوں نے قرآن مجید پڑھا کر روزی کمانا شروع کی۔ بی مغلانی بھی اس خاندان سے بارہ برس کی عمر سے ملازم تھیں۔ مجیب آپا کے والدین نے ان کی شادی کروائی۔ لیکن پانچ برس بعد وہ بیوہ ہو گئیں اور پھر اپنے دو بچوں کے ساتھ اس خاندان کا حصہ بن گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب ملازم بھی وفادار ہوتے تھے۔

پوری زندگی نمک کھانے کا حق ادا کرتے تھے۔ لیکن بی مغلانی نے تو کمال کر دیا۔ انھوں نے اس خاندان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ بلکہ مختلف گھروں میں جا کر ماں بیٹیوں کے لیے اردو، فارسی اور قرآن پڑھانے کا معزز کام ڈھونڈا۔ خود بازار سے ململ لا کر گھر میں کُرتے سیتی تھیں اور مردانے کُرتوں پر کڑھائی کر کے جامعہ کلاتھ مارکیٹ میں جا کر فروخت کرتی تھیں۔ اس کام میں مجیب آپا کی بڑی بہن اور بھابی ہاتھ بٹاتی تھیں۔ مجیب آپا ہی کی بدولت ان کے بڑے بھائی کو بینک میں اچھی ملازمت بھی ملی۔

ان چار خواتین نے جس طرح محنت مشقت کر کے اور اپنی خودداری کو قائم رکھتے ہوئے عزت سے زندگی گزاری وہ قابل تعریف ہے۔ اتنا حسن اور اتنی پاکیزگی۔ یہ عورتیں ہی تھیں جنھوں نے گھر کو سنبھالا۔ مغلانی بی نے دوسری شادی نہ کی بلکہ اپنے بچوں کی کمائی بھی اپنے سر پرستوں پہ لٹا دی۔ کسی کو (سوائے میری والدہ کے) کانوں کان پتہ نہ چلا کہ چار کمروں کے جس فلیٹ میں مغلیہ خاندان کی شہزادیاں رہتی تھیں جنھوں نے نہایت نامساعد حالات میں اپنا کردار اور عزت سنبھال رکھی تھی۔ ورنہ وہ چاہتیں تو کون سی آسائش ان کے قدموں میں ڈھیر نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن یہیں حسب نسب اور خون کی پہچان ہوتی ہے۔

دوسرا چہرہ جس باہمت خاتون کا اس وقت میرے سامنے ہے۔ وہ ایک اسکول ٹیچر ہیں۔ حیدرآباد دکن کی فیملی تھی۔ تین بہنیں اور دو بھائی۔ والدہ سوتیلی تھیں ان کا سلوک بچوں سے بہت خراب تھا۔ 1958ء میں سب سے بڑے بیٹے بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ وہ ایک بینک میں ملازم ہو گئے۔ بہنوں نے بڑے ارمانوں سے بھائی کی شادی کر دی اور بس چند ہی ماہ میں تیز طرار بھاوج نے دیور اور نندوں کا جینا حرام کر دیا۔ بڑی بہن عشرت نے بہتر سمجھا کہ وہ ملازمت کر لیں۔

وہ ایک اسکول میں ملازم ہو گئیں۔ ادھر بھاوج اور بھائی کا رویہ دن بہ دن خراب ہونے لگا۔ عشرت بہن بھائیوں کے ساتھ ناظم آباد میں الگ گھر میں منتقل ہو گئیں۔ وہ دو شفٹوں میں پڑھانے لگیں، ساتھ ہی ٹیوشن بھی کرنے لگیں۔ دوسری بہن نے بھی ایک جگہ نوکری کر لی۔ بھائی چھوٹا تھا۔ اسے اعلیٰ تعلیم دلائی، پھر اسے اسکالرشپ ملا اور وہ امریکا چلا گیا۔ اس دوران مس عشرت کے منگیتر بھی یہاں آ گئے۔ لیکن عشرت نے شادی سے اس لیے انکار کر دیا کہ اب ان پر دو بہنوں کی ذمے داری تھی۔ ان کے منگیتر شہباز بددل ہو کر جرمنی چلے گئے۔ اس عرصے میں عشرت نے دونوں بہنوں کی شادی کی۔

چھوٹا بھائی امریکا ہی میں سیٹل ہو گیا۔ دس سال بعد اچانک ایک دن شہباز واپس آ گئے۔ اب عشرت تنہا تھیں اور تمام ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہو چکی تھیں۔ شہباز نے بھی شادی نہیں کی تھی۔ پھر دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ لیکن یہ خوشی بھی عشرت کو راس نہ آئی۔ صرف دو سال بعد شہباز اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور پھر عشرت نے اس صدمے کو اس طرح سہا کہ اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر دی۔ کسی کی تعلیم کا ذمے لے لیا۔ کسی کا ماہانہ راشن ڈلوا دیا۔

ان کی ایک ہونہار شاگرد شادی کے بعد مکان کے لیے پریشان تھی، اسے اور اس کے شوہر کو اپنا گلشن اقبال والا فلیٹ رہنے کے لیے دے دیا۔ گھر پر بلامعاوضہ ٹیوشن دینے لگیں۔ بس اسی طرح ان کے روز و شب گزرتے رہے۔ نہ کبھی کسی سے شکایت نہ قسمت کا گلہ، حوصلہ ایسا کہ رشک آئے۔ دل اندر سے چُور چُور لیکن آنکھوں میں آنسو نہیں۔ عزم و ہمت کا پیکر۔ یہ وہ عورتیں ہیں جنھوں نے حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کیا اور یہ گلہ نہ کیا کہ ''گھر میں کوئی مرد نہیں ہے'' یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
Load Next Story