مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
گلستان ادب کے افق سے ایک سورج اورغروب ہوا کہ یہ ہی نظام قدرت ہے کہ فانی چیزوں کو زوال ہے۔
گلستان ادب کے افق سے ایک سورج اورغروب ہوا کہ یہ ہی نظام قدرت ہے کہ فانی چیزوں کو زوال ہے۔ احمد ہمدانی بھی سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں وہ ایک محقق، نقاد، شاعر اور ایک بہت اچھے اور بہترین انسان تھے وہ اپنی ذات میں ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے، ادب کے طالب علموں کے لیے ان کی حیثیت ایک سایہ دار شجر کی مانند تھی، جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر علم ودانش کے چراغ جلائے جاتے تھے۔
میری ان سے جب بھی ملاقات ہوئی وہ بے حد اخلاق سے ملے ان کی علمی و ادبی گفتگو سے دوسروں کی طرح میں نے استفادہ کیا۔ میرے ناول ''کائنات'' کی تقریب تعارف میں وہ مقرر کی حیثیت سے شریک ہوئے، یقیناً یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔ ان کی تحریر آج تک میرے پاس حفاظت سے رکھی ہے، پھر بہت سالوں بعد ان کے نئے گھر میں جانے کا اتفاق ہوا جوکہ میرے گھر سے قریب ہی گلستان جوہر میں واقع ہے۔
جن دنوں میرا ناول ''نرک'' شایع ہونے والا تھا انھوں نے باوجود علالت کے ناول پڑھا (کچھ مدد ان کی ہونہار و تابعدار بہو افشین نے کی) اور اس پر اپنی قیمتی رائے سے نوازا، ان دنوں ان کے دولت کدے پر میرا بارہا جانا ہوا، جیسے وہ خود نیک اور درویش صفت انسان تھے ان ہی صفات سے آراستہ ان کا گھرانہ تھا، ظاہر ہے اولاد کی تعلیم و تربیت میں والدین کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ احمد ہمدانی کی صاحبزادیاں ڈاکٹرگوہر افشاں، پروفیسر راحت افشاں، ان کی اہلیہ، نواسیاں سب ہی بے حد خوش اخلاق اور عجز و انکساری کا پیکر ہیں، یہ بڑی بات ہے۔ تکبر، رعونت اور بداخلاقی انسان کو اپنے مرتے سے نیچے گرا دیتی ہے اور ہمارے اطراف میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
جناب احمد ہمدانی 1924کو میرٹھ میں پیدا ہوئے اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اور ہندوستان سے ہجرت کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی میں سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ رہے اور 1985 میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ملازمت چھوڑ دی۔ دوران ملازمت انھوں نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے یادگار پروگرام کیے۔ ادب کے فروغ کے لیے لٹریری سرکل قائم کیا وہ خود صدرکے عہدے پر فائز ہوئے اور ممتاز شاعر و نقاد صبا اکرام جنرل سیکریٹری بنے۔
وہ صوفی منش انسان تھے، یاد الٰہی میں دن رات گزارتے اور مخلوق خدا کے کام آنے کی کوشش کرتے، آج سے پندرہ سولہ سال قبل وہ فکشن گروپ کی ادبی نشستوں میں پابندی سے شرکت کرتے تھے اور شعروادب کی محفلیں ان کی ہی صدارت میں ہوا کرتی تھیں یہ تقریبات صبا اکرام کی رہائش گاہ پر منعقد ہوتی تھیں ان محافل کی خصوصیت یہ تھی کہ بڑے افسانہ نگار، شاعر و نقاد تشریف لایا کرتے تھے، جوگندر پال اور ان کی اہلیہ، شمس الرحمٰن فاروقی اور دوسرے قلمکار شرکت کیا کرتے تھے۔
احمد ہمدانی مرحوم نے زیب اذکارحسین کی کتاب ''دور اذکار افسانے'' کی تقریب رونمائی کے موقعے پر صدارت کی تھی اور منفرد لب و لہجے کے افسانہ نگار و صحافی زیب اذکار حسین کے فن پر تعریفی کلمات ادا کیے تھے۔ احمد ہمدانی کی 7کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں اور اہل ادب نے ان کے فن شعر و شاعری اور تنقیدی مضامین کا خیر مقدم کیا اور تعریف و توصیف سے نوازا۔ احمد ہمدانی کا شمار بڑے نقادوں اور شعرا میں ہوتا ہے۔
(1)۔''پیاسی زمین'' شاعری کا مجموعہ۔ (2)۔قصہ نئی شاعری کا (مضامین)۔ (3)۔ ''سلسلہ سوالوں کا '' (مضامین)۔(4)۔اقبال فکروفن کے آئینے میں (تنقید)۔(5)نئے رنگ نئے ڈھنگ (مضامین)۔ (6)۔ہجر کی چھاؤں (شاعری)۔ (7)۔نئی شاعری کے ستون (مضامین)۔ ان کی ساتوں کتابیں اردو ادب میں بے حد اہمیت کی حامل ہیں، ان کے بغیر ادبی دنیا تشنہ اور نامکمل ہے۔
چند ماہ قبل کی بات ہے کہ جب انجمن ترقی پسند مصنفین (جس کی قیادت ڈاکٹر جنید احمد نے کی) کراچی کے ایک وفد نے ان کی عیادت اور ان کے ادبی کارناموں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے حاضری دی۔ ترقی پسند شاعر و نقاد احمد ہمدانی کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین ان کے اعزاز میں ایک باوقار تقریب کا انعقاد کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن ان کی طبیعت کی ناسازی کے باعث یہ ممکن نہ تھا، لہٰذا وفد کی شکل میں ہی جس میں راقم کا بھی شمار تھا مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئے۔
حاضرین میں علی اوسط جعفری، پروفیسر علی حیدر ملک، صبا اکرام، اے خیام تھے، سلیم الدین شیخ اور حامد علی سید نے عقیدت سے ان کے ہاتھ چومے۔ سلیم الدین شیخ، ڈاکٹر جعفر احمد نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف سے انھیں شیلڈ پیش کرتے ہوئے کہا کہ احمد ہمدانی اس وقت سب سے سینئر ترقی پسند شاعر اور ادیب ہیں۔
صبا اکرام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں خراج تحسین پیش کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ اے خیام نے کہا کہ شاعری اور تنقید میں ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ اس موقعے پر جناب احمد ہمدانی بوجہ علالت نیم بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا رہے، کچھ دواؤں کا بھی اثر تھا ان کے اہل خانہ خصوصاً ان کی صاحبزادیوں ڈاکٹر گوہر افشاں اور نور افشاں، پروفیسر راحت افشاں نے مہمانوں کی خاطر مدارت کی انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے گھر آخری تقریب ساقی فاروقی کے ساتھ منعقد ہوئی تھی۔ ان کے صاحبزادے محسن جمیل بھی مصروف گفتگو رہے اور اپنے والد گرامی کے حوالے سے باتیں کرتے رہے۔
احمد ہمدانی مرحوم کی شاعری تصوف، کلاسیکی اور جدید رنگوں سے آراستہ تھی مثال کے طور پر یہ اشعار:
کس کو بتائیں اب کہ نہ چل کر تمام عمر
ہم نے خود اپنے آپ میں کتنا سفر کیا
دل آفت زدہ کو بھول جاؤ
بہت جاگا تھا آخر سوگیا ہے
شکایتیں کبھی جس کی نہ ختم ہوتی تھیں
اب اس کو دیکھیے وہ بے خیال کیسا ہے
احمد ہمدانی کے انتقال کی خبر ان کی بہو نے 27فروری بروز جمعہ صبح 6 بجے کے قریب سنائی تو دل دکھوں کی آماجگاہ بن گیا۔ وہ میرے بزرگ تھے، بہت پرخلوص شخصیت کے مالک تھے، ان کے گھر جاکر مجھے کبھی غیریت کا احساس نہیں ہوا، وہ ہمیشہ دست شفقت سر پر رکھتے، دعائیں دیتے ان کی وفات کی خبر سن کر بے شمار ادیب و دانش ور آئے تھے، صفیہ ملک اشکبار تھیں ان کی یادوں کی شمع روشن کیے محوگفتگو رہیں، ان کے گھر والے بھی انھیں رخصت کرتے وقت آبدیدہ تھے کہ سروں سے والد بزرگوار کا سایہ شفقت اٹھ گیا ہے۔
احمد ہمدانی کی اہلیہ حسب معمول ان کی تعریف کر رہی تھیں کہ ان کے نیک اطوار شوہر نے انھیں بے حد خوش رکھا اور اب جدائی کی گھڑیاں وہ بھی دائمی جدائی کے لمحات قیامت بن کر گزر رہے تھے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ شاید احمد ہمدانی جیسوں کے لیے اس شعر کی تخلیق ہوئی جن کا کردار و اخلاق روشنی سے کم نہ تھا:
اندر بھی قبر کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے