فالتوعوام کے فالتو ووٹ
پاکستان میں رجسٹرڈکل162سیاسی جماعتیں تمام انتخابات کی ملکی سیاست میں حصہ لیتی ہیں یہ تعداد پوری دنیا میں سب سےزیادہ ہے
LARKANA:
الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹرڈ کل162سیاسی جماعتیں تمام انتخابات کی ملکی سیاست میں'حصہ' لیتی ہیں یہ تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں تقریباََ 8.6کروڑ ووٹر زکا اندراج ہے جو اپنے ووٹوں سے ملک کے مستقبل بنانے والوں کا' انتخاب' کرتے ہیں۔ بظاہر پاکستانی سیاست ، برطانوی سیاست پر مبنی ہے اور جمہوری پارلیمانی نظام کے ویسٹ ماڈل کی پیروی کرتی ہے۔
آئین کے مطابق خواتین اورمذہبی اقلیتوں کے لیے 70 نشستیں مخصوص کی جاتی ہیں، ان نشستوں کو سیاسی جماعتوں کے لیے ان کی متناسب نمائندگی کے مطابق مختص کیا جاتا ہے۔اسی طرح سینیٹ کی نشستیں بھی براہ راست منتخب نہیں کی جاتیں بلکہ عوام کے وہ منتخب نمائندے ، انھیں منتخب کرتے ہیں جن کو 'عوام' نے منتخب کیا ہوتا ہے۔
سینیٹ انتخابات میں دل کھول کر سیاست دانوں نے سیاست دانوں پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائدکیے اور لگائی جانے والی بولیاں بھی عوام کے سامنے لائے لیکن ان پردہ نشینوں کو پھر بھی بچالیا کیونکہ وہ ' شریف ' لوگ تھے۔اسی دوران تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے کہا کہ ''ہمارے پاس فالتو ووٹ تھے، جسے دل چاہا اسے دیے۔''
ان کا ماننا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں کچھ دو اور کچھ لو کی بنا پر لڑا جاتا ہے ، مسلم لیگ (ن) سے کچھ ووٹ ہمیں ملے ہم نے اضافی ووٹ مسلم لیگ(ن) کو دیے، اے این پی اور پی پی والے بتاسکتے ہیں کہ انھوں نے 5,5ووٹ ہوتے ہوئے 21اور 14ووٹ کیسے لیے ؟ فضل الرحمن بھی شور مچا رہے ہیں، وہ بھی بتائیں ان کو ایک ووٹ کم کیوں ملا ؟''
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویزخٹک کے اس بیان کے بعدکہ ' ہمارے پاس فالتو ووٹ تھے ، جسے دل چاہا اسے دیے 'نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں نے محترم کو زبردست 'خراجِ تحسین' پیش کیا ۔سینیٹ کے انتخابات میں سیاست دان کبھی اتنے رسوا نہیں ہوئے جتنا کہ اس بار ہوئے ہیں ، اور اس کا سہرا یقینی طور پر عمران خان کے سر جاتا ہے ، کیونکہ انھوں نے جس طرح خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن میں اپنے امیدواروں پر زبردست ''نگاہ'' رکھی اس کا مظاہرہ دورِ ضیا کے بعد پاکستانی عوام نے سفید سادہ پرچیوں میں ایک بار پھر، دوبارہ دیکھا۔
لیکن اس موقعے پرمیری دانست میں پی پی پی ، اے این پی ، مسلم لیگ (ن) سمیت کسی جماعت کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ پنجاب میں افضل چن کو جواضافی ووٹ پڑے ، وہ کیا ضمیر کی آواز سمجھیں جائیں ؟ یا پھر عمران خان کی موجودگی کے باوجود ان کے صوبائی اراکین اسمبلی نے اپنے ' فالتو ووٹ' مسلم لیگ (ن) کو دیے اور ان کے 'فالتو ووٹ' خود بھی لیے۔ اب اس کی تردید کوئی بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے برملا تسلیم کیا ہے کہ ایسا ہوا ہے۔
اس موقعے پر سفید پرچیوں کے معاملے پر یہ منطق درست معلوم ہوئی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا کہ کسی کا ووٹ کوئی اور ڈال رہا ہے تو بظاہرعمران خان اپنے ووٹ ضایع کرا لیتے لیکن 'فالتو ووٹ' کو مسلم لیگ (ن) سے ہرگز نہیں لیتے اور نہ ہی اپنے 'فالتو ووٹ' مسلم لیگ (ن) کو دیتے۔یہ دوستانہ انتقال یقینی طور پر اُس وقت آیا ہوگا جب سینیٹ انتخابات خیبر پختونخوا میں پی پی پی اور اپوزیشن کی جانب سے روکے جانے کے پانچ گھنٹے بعد دوبارہ شروع ہوئے۔
عمران خان کی کوشش رائیگاں گئی اور ان کی تمام تر'جدوجہد ' کے باوجود ان کے 'فالتو ووٹ' کسی کے کام آگئے اور بدلے میں اُن کے 'فالتو ووٹ' ان کی جماعت کے کام آگئے، ان کی اسمبلی توڑنے کی دھمکی بھی کسی کام نہیں آئی اور تحریک انصاف میں ایک بالکل نئی اصطلاح پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں 'فالتو ووٹ' کے نام سے کروائی ، ایسے فالتو ووٹ جس کی قیمت خود عمران خان کے شوکت خانم میموریل اسپتال کے نام پر پارٹی ٹکٹ کے بدلے پندرہ کروڑ روپے کی آفر تھی۔
اب انھیں یقینی افسوس ہورہا ہوگا کہ ان کے پاس کتنے فالتو ووٹ تھے اگر وہ انھیں کارآمد بنا لیتے توپاکستان کی غریب عوام کے لیے ایک اور شوکت خانم میموریل اسپتال کی بنیاد رکھی جاسکتی تھی ۔ ویسے میری عمران خان سے درخواست ہے اس بار انھیںکینسر اسپتال کے بجائے ، پاگلوں کا اسپتال کھولنا چاہیے ، کیونکہ پاکستانی عوام کا دماغ چل گیا ہے کہ وہ ایسے اراکین کو منتخب کرتے ہیں جو بعد میں چل کر 'فالتو ووٹ' ہوجاتے ہیں۔
عوام کا دماغ چلا ہوا ہے کہ انھیں اب بھی سمجھ اس لیے نہیں آتی کیونکہ 'فالتو ووٹ' کا مطلب یہ نہیں سمجھتے اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک اس کا مطلب سمجھاتے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ، ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے ، چاہے پیسوں سے ہوں، چاہے سیاسی ایڈجسٹمنٹ سے ہو یا 'فالتو ووٹ' سے ہوں ، اس کا جواز انھوں نے اے این پی اور پی پی پی کے پانچ ، پانچ 'فالتو ووٹ' کے بدلے حاصل کی جانے والی نشست جیسے اے این پی اور پی پی پی سیاسی مفاہمت کا نام دیتی ہے ، جو انھوں نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کی تھی لیکن انھیں 'فالتو ووٹ' کی وجہ سے ووٹ کم ملے اور ایک یقینی نشست سے انھیں محروم ہونا پڑا۔
پاکستانی عوام سمیت کسی کو یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ بلوچستان میں کیا ہوا اور پنجاب میں کیا ہوا ۔ پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ نہ ہوتے ہوئے فالتو ووٹ کس طرح مل گئے جب کہ علی الاعلان اسے بغاوت کہا جا رہا ہے۔میری ناقص رائے میں ، جو یقینی ناقص ہے ، ہارس ٹریڈنگ کی ابتدا صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں رکھی جانے والی اُن مخصوص نشستوں سے ہی ہوجاتی ہے جہاں پارٹیوں کی کامیابی کے تناسب میں مال مفت ، دلِ بے رحم کی طرح تقسیم کردیا جاتا ہے۔
ایسے آپ جو بھی نام دیں لیکن کوئی صرف اتنا سمجھا دے کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو عام انتخابات کرانے کی کیا ضرورت ہے ، ان نشستوں کو بھی مخصوص نشستوں کی طرح تمام جماعتوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کردیا جائے۔کم ازکم انتخابات کے نام پرکھربوں روپوں کے اخراجات اور نام نہاد اسمبلیوں کے انصرام و انتظام سے تو نجات ملے گی۔قوم کے کھربوں روپوں کا اس طرح ضیاع تو نہیں ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی بلا وجہ ہوگا، مخصوص نشستوں کی طرح تمام اسمبلیوں کے فالتو ووٹ کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کرا دئیے جائیں اور تمام سیاسی جماعتوں میں یہ سیاسی نرسری ادارہ بھی تقسیم کردیا جائے۔
عوام سے براہ راست نمائندے منتخب کرانے کا نام انتخابات ہے اور پارٹی سے براہ راست منتخب ہونے والے کبھی بھی عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے اور یہ سب فالتو ووٹ کے زمرے میں آتے ہیں جو یہ ہمیشہ پاکستانی عوام کو بھی جب دل چاہے فالتو ووٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں اور ان کے حقوق جس کو چاہتے ہیں اس کو دے دیتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے اسرارکوکبھی نہیں سمجھا جاسکے گا ، جہاں آصف زرداری جیسے اتالیق ہوں وہاں سیاست کے نام پر پی ایچ ڈی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ، وزیراعظم نواز شریف کی سیاست کے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں کہ سیاسی مفاہمت کو کیا نئے نام دیے جا رہے ہیں اور پاکستان کی فالتو عوام ، ترقی کے نئے دور کی امید اُن سے لگائے بیٹھے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی نئی انتخابی پالیسی کے اسرار بھی عوام کے سامنے اُس وقت آتے ہیں جب کوئی نیا منصوبہ کامیاب بنانا ہو، دھرنا دیکھ لیں تو جوڈیشنل کمیشن پر اُن کا عمل۔سینیٹ انتخابات میں دونوں جماعتوں کی انڈر اسٹینڈنگ کہ ، عمران خان انکشاف کرتے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں جانے کو تیار ہو گئے تھے لیکن نواز شریف نے عین وقت پر دھوکا دیا ۔
پھر خیبر پختونخوا انتخابات میں رات گئے نئے آرڈیننس کا آرڈر کی صورت میں جاری ہونا تو فاٹا کے فالتو ووٹ کا استعمال یکدم رک جانا لیکن مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا فرینڈلی فالتو ووٹ کا ادل بدل، پاکستانی عوام کے لیے ایک نئے تماشے سے کم نہیں ہے۔نہ جانے کب وہ دن آئے گا جب پاکستانی عوام کو اپنے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیرکوحاصل کرسکے گی اور جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا،اس مقصدکے تحت ہم عوام کے مقاصد بھی پورے ہونگے ، لیکن جس طرح کا پاکستانی سیاست میں رجحان ہے۔
اس سے بہتری کی امیدیں رکھنا یقینی طور پر پاگل پن ہے اسی لیے عمران خان سے درخواست کی ہے کہ اس بار کینسر اسپتال کے بجائے دماغی علاج گاہ پر توجہ دی جائے کیونکہ پاگلوں کے اس دیس میں اکیلا کوئی بغیر پاگل پن سے نہیں رہ سکتا ، ایسے پاگلوں کے درمیان رہ کر پاگل ہونا ہوگا وہ دنیا ایسے جینے نہیں دیگی اور وہ دنیا کو جینے نہیں دے گا۔کاش کوئی پاکستانی عوام کے ووٹوں کا بھی برہم رکھ لیتا اسے فالتو ووٹ نہیں سمجھتا۔
الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹرڈ کل162سیاسی جماعتیں تمام انتخابات کی ملکی سیاست میں'حصہ' لیتی ہیں یہ تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں تقریباََ 8.6کروڑ ووٹر زکا اندراج ہے جو اپنے ووٹوں سے ملک کے مستقبل بنانے والوں کا' انتخاب' کرتے ہیں۔ بظاہر پاکستانی سیاست ، برطانوی سیاست پر مبنی ہے اور جمہوری پارلیمانی نظام کے ویسٹ ماڈل کی پیروی کرتی ہے۔
آئین کے مطابق خواتین اورمذہبی اقلیتوں کے لیے 70 نشستیں مخصوص کی جاتی ہیں، ان نشستوں کو سیاسی جماعتوں کے لیے ان کی متناسب نمائندگی کے مطابق مختص کیا جاتا ہے۔اسی طرح سینیٹ کی نشستیں بھی براہ راست منتخب نہیں کی جاتیں بلکہ عوام کے وہ منتخب نمائندے ، انھیں منتخب کرتے ہیں جن کو 'عوام' نے منتخب کیا ہوتا ہے۔
سینیٹ انتخابات میں دل کھول کر سیاست دانوں نے سیاست دانوں پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائدکیے اور لگائی جانے والی بولیاں بھی عوام کے سامنے لائے لیکن ان پردہ نشینوں کو پھر بھی بچالیا کیونکہ وہ ' شریف ' لوگ تھے۔اسی دوران تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے کہا کہ ''ہمارے پاس فالتو ووٹ تھے، جسے دل چاہا اسے دیے۔''
ان کا ماننا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں کچھ دو اور کچھ لو کی بنا پر لڑا جاتا ہے ، مسلم لیگ (ن) سے کچھ ووٹ ہمیں ملے ہم نے اضافی ووٹ مسلم لیگ(ن) کو دیے، اے این پی اور پی پی والے بتاسکتے ہیں کہ انھوں نے 5,5ووٹ ہوتے ہوئے 21اور 14ووٹ کیسے لیے ؟ فضل الرحمن بھی شور مچا رہے ہیں، وہ بھی بتائیں ان کو ایک ووٹ کم کیوں ملا ؟''
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویزخٹک کے اس بیان کے بعدکہ ' ہمارے پاس فالتو ووٹ تھے ، جسے دل چاہا اسے دیے 'نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں نے محترم کو زبردست 'خراجِ تحسین' پیش کیا ۔سینیٹ کے انتخابات میں سیاست دان کبھی اتنے رسوا نہیں ہوئے جتنا کہ اس بار ہوئے ہیں ، اور اس کا سہرا یقینی طور پر عمران خان کے سر جاتا ہے ، کیونکہ انھوں نے جس طرح خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن میں اپنے امیدواروں پر زبردست ''نگاہ'' رکھی اس کا مظاہرہ دورِ ضیا کے بعد پاکستانی عوام نے سفید سادہ پرچیوں میں ایک بار پھر، دوبارہ دیکھا۔
لیکن اس موقعے پرمیری دانست میں پی پی پی ، اے این پی ، مسلم لیگ (ن) سمیت کسی جماعت کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ پنجاب میں افضل چن کو جواضافی ووٹ پڑے ، وہ کیا ضمیر کی آواز سمجھیں جائیں ؟ یا پھر عمران خان کی موجودگی کے باوجود ان کے صوبائی اراکین اسمبلی نے اپنے ' فالتو ووٹ' مسلم لیگ (ن) کو دیے اور ان کے 'فالتو ووٹ' خود بھی لیے۔ اب اس کی تردید کوئی بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے برملا تسلیم کیا ہے کہ ایسا ہوا ہے۔
اس موقعے پر سفید پرچیوں کے معاملے پر یہ منطق درست معلوم ہوئی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا کہ کسی کا ووٹ کوئی اور ڈال رہا ہے تو بظاہرعمران خان اپنے ووٹ ضایع کرا لیتے لیکن 'فالتو ووٹ' کو مسلم لیگ (ن) سے ہرگز نہیں لیتے اور نہ ہی اپنے 'فالتو ووٹ' مسلم لیگ (ن) کو دیتے۔یہ دوستانہ انتقال یقینی طور پر اُس وقت آیا ہوگا جب سینیٹ انتخابات خیبر پختونخوا میں پی پی پی اور اپوزیشن کی جانب سے روکے جانے کے پانچ گھنٹے بعد دوبارہ شروع ہوئے۔
عمران خان کی کوشش رائیگاں گئی اور ان کی تمام تر'جدوجہد ' کے باوجود ان کے 'فالتو ووٹ' کسی کے کام آگئے اور بدلے میں اُن کے 'فالتو ووٹ' ان کی جماعت کے کام آگئے، ان کی اسمبلی توڑنے کی دھمکی بھی کسی کام نہیں آئی اور تحریک انصاف میں ایک بالکل نئی اصطلاح پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں 'فالتو ووٹ' کے نام سے کروائی ، ایسے فالتو ووٹ جس کی قیمت خود عمران خان کے شوکت خانم میموریل اسپتال کے نام پر پارٹی ٹکٹ کے بدلے پندرہ کروڑ روپے کی آفر تھی۔
اب انھیں یقینی افسوس ہورہا ہوگا کہ ان کے پاس کتنے فالتو ووٹ تھے اگر وہ انھیں کارآمد بنا لیتے توپاکستان کی غریب عوام کے لیے ایک اور شوکت خانم میموریل اسپتال کی بنیاد رکھی جاسکتی تھی ۔ ویسے میری عمران خان سے درخواست ہے اس بار انھیںکینسر اسپتال کے بجائے ، پاگلوں کا اسپتال کھولنا چاہیے ، کیونکہ پاکستانی عوام کا دماغ چل گیا ہے کہ وہ ایسے اراکین کو منتخب کرتے ہیں جو بعد میں چل کر 'فالتو ووٹ' ہوجاتے ہیں۔
عوام کا دماغ چلا ہوا ہے کہ انھیں اب بھی سمجھ اس لیے نہیں آتی کیونکہ 'فالتو ووٹ' کا مطلب یہ نہیں سمجھتے اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک اس کا مطلب سمجھاتے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ، ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے ، چاہے پیسوں سے ہوں، چاہے سیاسی ایڈجسٹمنٹ سے ہو یا 'فالتو ووٹ' سے ہوں ، اس کا جواز انھوں نے اے این پی اور پی پی پی کے پانچ ، پانچ 'فالتو ووٹ' کے بدلے حاصل کی جانے والی نشست جیسے اے این پی اور پی پی پی سیاسی مفاہمت کا نام دیتی ہے ، جو انھوں نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کی تھی لیکن انھیں 'فالتو ووٹ' کی وجہ سے ووٹ کم ملے اور ایک یقینی نشست سے انھیں محروم ہونا پڑا۔
پاکستانی عوام سمیت کسی کو یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ بلوچستان میں کیا ہوا اور پنجاب میں کیا ہوا ۔ پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ نہ ہوتے ہوئے فالتو ووٹ کس طرح مل گئے جب کہ علی الاعلان اسے بغاوت کہا جا رہا ہے۔میری ناقص رائے میں ، جو یقینی ناقص ہے ، ہارس ٹریڈنگ کی ابتدا صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں رکھی جانے والی اُن مخصوص نشستوں سے ہی ہوجاتی ہے جہاں پارٹیوں کی کامیابی کے تناسب میں مال مفت ، دلِ بے رحم کی طرح تقسیم کردیا جاتا ہے۔
ایسے آپ جو بھی نام دیں لیکن کوئی صرف اتنا سمجھا دے کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو عام انتخابات کرانے کی کیا ضرورت ہے ، ان نشستوں کو بھی مخصوص نشستوں کی طرح تمام جماعتوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کردیا جائے۔کم ازکم انتخابات کے نام پرکھربوں روپوں کے اخراجات اور نام نہاد اسمبلیوں کے انصرام و انتظام سے تو نجات ملے گی۔قوم کے کھربوں روپوں کا اس طرح ضیاع تو نہیں ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی بلا وجہ ہوگا، مخصوص نشستوں کی طرح تمام اسمبلیوں کے فالتو ووٹ کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کرا دئیے جائیں اور تمام سیاسی جماعتوں میں یہ سیاسی نرسری ادارہ بھی تقسیم کردیا جائے۔
عوام سے براہ راست نمائندے منتخب کرانے کا نام انتخابات ہے اور پارٹی سے براہ راست منتخب ہونے والے کبھی بھی عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے اور یہ سب فالتو ووٹ کے زمرے میں آتے ہیں جو یہ ہمیشہ پاکستانی عوام کو بھی جب دل چاہے فالتو ووٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں اور ان کے حقوق جس کو چاہتے ہیں اس کو دے دیتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے اسرارکوکبھی نہیں سمجھا جاسکے گا ، جہاں آصف زرداری جیسے اتالیق ہوں وہاں سیاست کے نام پر پی ایچ ڈی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ، وزیراعظم نواز شریف کی سیاست کے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں کہ سیاسی مفاہمت کو کیا نئے نام دیے جا رہے ہیں اور پاکستان کی فالتو عوام ، ترقی کے نئے دور کی امید اُن سے لگائے بیٹھے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی نئی انتخابی پالیسی کے اسرار بھی عوام کے سامنے اُس وقت آتے ہیں جب کوئی نیا منصوبہ کامیاب بنانا ہو، دھرنا دیکھ لیں تو جوڈیشنل کمیشن پر اُن کا عمل۔سینیٹ انتخابات میں دونوں جماعتوں کی انڈر اسٹینڈنگ کہ ، عمران خان انکشاف کرتے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں جانے کو تیار ہو گئے تھے لیکن نواز شریف نے عین وقت پر دھوکا دیا ۔
پھر خیبر پختونخوا انتخابات میں رات گئے نئے آرڈیننس کا آرڈر کی صورت میں جاری ہونا تو فاٹا کے فالتو ووٹ کا استعمال یکدم رک جانا لیکن مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا فرینڈلی فالتو ووٹ کا ادل بدل، پاکستانی عوام کے لیے ایک نئے تماشے سے کم نہیں ہے۔نہ جانے کب وہ دن آئے گا جب پاکستانی عوام کو اپنے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیرکوحاصل کرسکے گی اور جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا،اس مقصدکے تحت ہم عوام کے مقاصد بھی پورے ہونگے ، لیکن جس طرح کا پاکستانی سیاست میں رجحان ہے۔
اس سے بہتری کی امیدیں رکھنا یقینی طور پر پاگل پن ہے اسی لیے عمران خان سے درخواست کی ہے کہ اس بار کینسر اسپتال کے بجائے دماغی علاج گاہ پر توجہ دی جائے کیونکہ پاگلوں کے اس دیس میں اکیلا کوئی بغیر پاگل پن سے نہیں رہ سکتا ، ایسے پاگلوں کے درمیان رہ کر پاگل ہونا ہوگا وہ دنیا ایسے جینے نہیں دیگی اور وہ دنیا کو جینے نہیں دے گا۔کاش کوئی پاکستانی عوام کے ووٹوں کا بھی برہم رکھ لیتا اسے فالتو ووٹ نہیں سمجھتا۔