میں ایک تصویر کھینچ لوں
جس طرف میری گاڑی تھی،اس طرف مکمل ٹریفک جام تھا، سڑک پر گاڑیوں کا اژدہام تھا
لاہور:
جس طرف میری گاڑی تھی،اس طرف مکمل ٹریفک جام تھا، سڑک پر گاڑیوں کا اژدہام تھا اور ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی گاڑی حرکت کر سکے، مخالف سمت میں ٹریفک رواں تھا کیونکہ وہ شہر سے باہر نکلنے کا راستہ تھا، شہر میں جانے کے راستے اسکولوں اور کالجوں کی چھٹی کے اوقات میں ٹریفک کی ہر روز یہی حالت ہوتی ہے بالکل بند ہو جاتے ہیں۔
گھنٹوں گاڑیوںمیں گزرجاتے ہیں۔ کافی دن کی بارشوں کے بعد مطلع صاف تھا اس لیے کئی لوگ تو دھوپ سینکنے کی غرض سے گاڑیاں بند کر کے گاڑیوں سے باہر نکل کر کھڑے تھے۔ سڑک کے دوسری طرف اچانک میری نگاہ نوجوانوں کے ایک گروہ پر پڑی اور میں انھیں دیکھنے لگی۔
کسی کالج کی یونیفارم میں ملبوس اسمارٹ سے وہ نوجوان چھ سات تھے، ان کے پاس تین موٹر سائیکل تھے، تھوڑی دیر کے بعد ایک دو اور گروہ آئے اور موٹر سائیکل دس ہو گئے، لڑکے کافی تھے، غالباً بیس سے زائد ، ان سب کی عمریں سترہ سے انیس برس کے بیچ ہوں گی۔ انھوں نے موٹر سائیکلوں کو ایک لائن میں کھڑا کیا اور ان لڑکوں میں سے کچھ لڑکوں کا انتخاب ہونے لگا، میں نے اپنی کھڑکی کا شیشہ نیچے کر لیا تھا اور ان کی آوازوں کو سن رہی تھی، کسی مقابلے کی تیاری ہو رہی تھی، ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ موٹر سائیکلوں کی ریس ہونے جا رہی تھی اور غالباً یہ مقابلہ ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانے کا تھا، ایوب پارک کے سامنے، راولپنڈی کی اہم شاہراہ پر، معمول کی ٹریفک کے رواں دواں ہوتے ہوئے۔
میں اس طرح کے مظاہرے کئی بار اس سے قبل بھی اس سڑک پر اور اسلام آباد ہائی وے پر دیکھ چکی ہوں، بار ہا کوشش کی کہ گاڑی ایک طرف روک کر اس طرح کے تماشوں کی ویڈیو بنا کر ارباب اختیار کو بھیجوں، انھیں شاید اندازہ نہیں کہ موت کا یہ کھیل کس طرح کھلے عام کھیلا جا رہا ہے، مگر کبھی بھی ان '' جانبازوں '' کی طوفانی رفتار کو کیمرے سے کلک نہ کر سکی۔ اس وقت سڑک پر وہ تمام لڑکے یوں آزادی سے، ٹریفک سے بے نیاز چل رہے تھے جیسے کسی اسٹیڈیم میں ہوں اور وہاں اور کوئی گاڑی نہ ہو۔
'' بیٹا! میں آپ لوگوں کی ایک تصویر کھینچ لوں ؟ '' میں گاڑی سے باہر نکل کر ان کے قریب ہی اپنا موبائل فون تھامے کھڑی تھی۔
'' کس لیے جی؟؟'' ایک '' مائی کے لال'' نے سینہ تان کر مجھ سے پوچھا۔
'' یوں ہی... '' میں نے رسان سے کہا، '' ریکارڈ رکھنے کے لیے '' ، اس کے ماتھے پر سوالیہ بل آ گئے،اس کے ساتھ دو تین اور بھی میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ، ''ابھی آپ لوگ ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانے کا مقابلہ کرنے والے ہو نا ''
'' ہاں تو، کس چیز کا ریکارڈ رکھنا ہے آپ نے؟ '' ایک سوال آیا۔
'' دیکھو نا بیٹا! یہ کوئی اسٹیڈیم تو ہے نہیں، ٹریفک سے بھری ہوئی اہم سڑک ہے، اس پر ہر طرح کی ہلکی اور بھاری ٹریفک رواں ہے، پھر تم میں سے مجھے کسی کے پاس ہیلمٹ بھی نظر نہیں آرہا، اس کا مطلب ہے کہ تم لوگ بڑے جی دار ہو '' ان کے چہروں پر غرور کا سایہ لہرایا ، '' مگر اللہ کے کاموں کا کس کو علم ہے، میں یہ تصویر اپنے پاس اس لیے ریکارڈ میں رکھنا چاہتی ہوں کہ جب میں ٹیلی وژن پر تم میں سے کسی کو پیش آنیوالے حادثے کی خبر سنوں ، تم میں سے کسی کا مسخ شدہ چہرہ دیکھوں، تو اپنے فون پر اس تصویر کو دیکھ کر کہہ سکوں کہ یہ چہرہ جب زندگی سے بھر پور تھا تو کتنا حسین، تروتازہ اور جگمگا رہا تھا!!''
'' آپ کیا ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہی ہیں ؟ '' ایک لڑکے نے تمسخر سے پوچھا، '' ہمارا روز کا کام ہے، ہم اس کے لیے کافی پریکٹس کرتے ہیں، ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانا کوئی آسان کام نہیں، نہ ہی کوئی بچوں کا کھیل ہے!!''
'' سو تو ہے، مگر میری نظر میں تو تم لوگ بچے ہی ہو سارے، اللہ تمہیں محفوظ رکھے اور ہدایت دے، مگر میرے ایک سوال کا جواب دے دو فقط!! '' میں رکی، '' تم میں سے کتنے بچوں کے پاس لائسنس ہے، کتنوں کے والدین کو علم ہے کہ تم لوگ اس وقت کالج یا ٹیوشن سینٹر میں نہیں بلکہ یہاں ہو؟'' وہ سر کو بے نیازی سے جھٹک کر مڑا اور اس کے باقی ساتھیوں نے اس کا ساتھ دیا۔ میں اپنی گاڑی میں بیٹھی بھاری دل سے سوچ رہی تھی کہ ہماری نوجوان نسل کس سمت جا رہی ہے۔
ہم ماں باپ ان کی ان '' مصروفیات'' سے بے خبر کیوں ہیں؟ ہم گھروں سے انھیں حصول تعلیم کے لیے اسکول اور کالج بھیجتے ہیں، غالباً اسی یونیفارم میں وہ اسکول اور کالج سے فارغ ہو کر ٹیوشن سینٹر چلے جاتے ہیں، اپنے یونیفارم میں ہی یہ کچے ذہنوں کے بچے عین سڑک کے بیچ میں اپنے کرتب دکھاتے پھرتے اور حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں، اس وقت ہم پچھتانے کے لیے بھی بہت لیٹ ہو چکے ہوتے ہیں۔
ہم کہاں مصروف ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کی درست سمت بھی متعین نہیں کر سکتے، انھیں اچھے برے کی پہچان نہیں بتا سکتے، ہم کیوں ان کی طرف دیکھ کر نہیں بھانپ جاتے کہ وہ کس طرح کے دوستوں اور صحبتوں میں ہیں، اپنے بچوں کی تربیت ہم نے کرنا ہے، ان کے دوستوں نے نہیں، اگر وہ غلط سرگرمیوں میں مصروف ہیں توگھر پر دیر سے لوٹتے ہوں گے، اگر وہ کالج یا ٹیوشن سینٹر کا وقت ان سرگرمیوں میں گزارتے ہیں تو یقینا ان کی تعلیمی کارکردگی پر فرق پڑتا ہو گا۔
کیا ہم نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہوا؟؟ کبھی ہم نے دوستانہ انداز میں بچوں سے پوچھا کہ ان کے دوست کون ہیں، کس طرح کے خاندانوں سے ان کا تعلق ہے، ان کے دوستوں سے ذاتی طور پر ملے یا ان کے والدین سے رابطہ کیا، کبھی اسکول میں اپنے بچوں کے دوستوں کی تعلیمی کارکردگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟
بچے جو بھی مطالبات کرتے ہیں ہم انھیں فوراً پورا کر دیتے ہیں، ہم بچوں سے خوفزدہ کیوں ہوتے ہیں، ہم ان سے سوال کرتے ہوئے ڈرتے کیوں ہیں؟ خود سے پوچھیں!!!
ہم نے بچوں کی تربیت کے اولین برسوں میں ہی انھیں اچھے برے کی تمیز سکھانا ہوتی ہے، انھیں حقوق اور فرائض کی بابت تب بتانا ہوتا ہے جب وہ شعور کی حد کو چھوتے ہیں، ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی عین ضروری ہے، اسکول اور کالج سے چیک کرنا لازم ہے کہ کہیں وہ کلاسز سے غیر حاضر تو نہیں ہوتے۔
ان کے مطالبات کی صحت کو جانچنا بھی ہمارا فرض ہے، کیا لینا ان کے لیے ضروری ہے اور کون سی چیز انھیں نقصان پہنچا سکتی ہے... ان کے کمروں کو چیک کریں کہ کہیں وہ کسی قسم کے نشے یا کسی اور منفی عادت کا شکار تو نہیں۔ ہم نے انھیں آزاد اور بے مہار چھوڑ دیا ہے، غلط سلط فلمیں دیکھ کر وہ خود کو ہر فلم کا ہیرو سمجھنے لگتے ہیں، وہ اپنی حد سے بڑھ کر بھی مطالبہ کرتے ہیں تو ہم اسے پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں انکار پر وہ خود کو نقصان نہ پہنچا لیں۔
نوجوانوں میں خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ہم والدین کو انتہائی سوچ پر مجبور کر دیا ہے، ہم انھیں سمجھانا بجھانا بھی چھوڑ چکے ہیں۔اگر آپ بھی والدین ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں بہت سی خرابیاں اور برائیاں ہماری اپنی لاپروائی اور کوتاہیوں کے نتیجے میں جنم لے رہی ہیں تو اصلاح کا بیڑا اٹھا لیں، فقط اپنے نہیں سب کے بچوں کی، جہاں برائی دیکھیں ، جہاں غلط کام ہوتا دیکھیں، نظر چرا کر نہ گزریں کہ میرا بچہ تو ان میں شامل نہیں ہے !!
آپ کیا جانیں کہ اس وقت آپ کا بچہ کہاں اور کس سرگرمی میں مصروف ہو گا، معاشرے کا سدھار تبھی ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر کوئی اپنے فرض کو پہچانے، اپنی ذمے داری کا احساس کرے اور نوجوانوں کو فقط نوجوان نہیں بلکہ اس ملک و قوم کا مستقبل سمجھیں، اپنے مستقبل کو بچائیں، اس کا نقصان ہونے سے روکیں، کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں ... آپ کے بچے کو بھی غلط کام سے روکے گا، گمراہ کن راہوں پر بڑھتے ہوئے اس کے قدم روک لے گا!!
جس طرف میری گاڑی تھی،اس طرف مکمل ٹریفک جام تھا، سڑک پر گاڑیوں کا اژدہام تھا اور ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی گاڑی حرکت کر سکے، مخالف سمت میں ٹریفک رواں تھا کیونکہ وہ شہر سے باہر نکلنے کا راستہ تھا، شہر میں جانے کے راستے اسکولوں اور کالجوں کی چھٹی کے اوقات میں ٹریفک کی ہر روز یہی حالت ہوتی ہے بالکل بند ہو جاتے ہیں۔
گھنٹوں گاڑیوںمیں گزرجاتے ہیں۔ کافی دن کی بارشوں کے بعد مطلع صاف تھا اس لیے کئی لوگ تو دھوپ سینکنے کی غرض سے گاڑیاں بند کر کے گاڑیوں سے باہر نکل کر کھڑے تھے۔ سڑک کے دوسری طرف اچانک میری نگاہ نوجوانوں کے ایک گروہ پر پڑی اور میں انھیں دیکھنے لگی۔
کسی کالج کی یونیفارم میں ملبوس اسمارٹ سے وہ نوجوان چھ سات تھے، ان کے پاس تین موٹر سائیکل تھے، تھوڑی دیر کے بعد ایک دو اور گروہ آئے اور موٹر سائیکل دس ہو گئے، لڑکے کافی تھے، غالباً بیس سے زائد ، ان سب کی عمریں سترہ سے انیس برس کے بیچ ہوں گی۔ انھوں نے موٹر سائیکلوں کو ایک لائن میں کھڑا کیا اور ان لڑکوں میں سے کچھ لڑکوں کا انتخاب ہونے لگا، میں نے اپنی کھڑکی کا شیشہ نیچے کر لیا تھا اور ان کی آوازوں کو سن رہی تھی، کسی مقابلے کی تیاری ہو رہی تھی، ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ موٹر سائیکلوں کی ریس ہونے جا رہی تھی اور غالباً یہ مقابلہ ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانے کا تھا، ایوب پارک کے سامنے، راولپنڈی کی اہم شاہراہ پر، معمول کی ٹریفک کے رواں دواں ہوتے ہوئے۔
میں اس طرح کے مظاہرے کئی بار اس سے قبل بھی اس سڑک پر اور اسلام آباد ہائی وے پر دیکھ چکی ہوں، بار ہا کوشش کی کہ گاڑی ایک طرف روک کر اس طرح کے تماشوں کی ویڈیو بنا کر ارباب اختیار کو بھیجوں، انھیں شاید اندازہ نہیں کہ موت کا یہ کھیل کس طرح کھلے عام کھیلا جا رہا ہے، مگر کبھی بھی ان '' جانبازوں '' کی طوفانی رفتار کو کیمرے سے کلک نہ کر سکی۔ اس وقت سڑک پر وہ تمام لڑکے یوں آزادی سے، ٹریفک سے بے نیاز چل رہے تھے جیسے کسی اسٹیڈیم میں ہوں اور وہاں اور کوئی گاڑی نہ ہو۔
'' بیٹا! میں آپ لوگوں کی ایک تصویر کھینچ لوں ؟ '' میں گاڑی سے باہر نکل کر ان کے قریب ہی اپنا موبائل فون تھامے کھڑی تھی۔
'' کس لیے جی؟؟'' ایک '' مائی کے لال'' نے سینہ تان کر مجھ سے پوچھا۔
'' یوں ہی... '' میں نے رسان سے کہا، '' ریکارڈ رکھنے کے لیے '' ، اس کے ماتھے پر سوالیہ بل آ گئے،اس کے ساتھ دو تین اور بھی میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ، ''ابھی آپ لوگ ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانے کا مقابلہ کرنے والے ہو نا ''
'' ہاں تو، کس چیز کا ریکارڈ رکھنا ہے آپ نے؟ '' ایک سوال آیا۔
'' دیکھو نا بیٹا! یہ کوئی اسٹیڈیم تو ہے نہیں، ٹریفک سے بھری ہوئی اہم سڑک ہے، اس پر ہر طرح کی ہلکی اور بھاری ٹریفک رواں ہے، پھر تم میں سے مجھے کسی کے پاس ہیلمٹ بھی نظر نہیں آرہا، اس کا مطلب ہے کہ تم لوگ بڑے جی دار ہو '' ان کے چہروں پر غرور کا سایہ لہرایا ، '' مگر اللہ کے کاموں کا کس کو علم ہے، میں یہ تصویر اپنے پاس اس لیے ریکارڈ میں رکھنا چاہتی ہوں کہ جب میں ٹیلی وژن پر تم میں سے کسی کو پیش آنیوالے حادثے کی خبر سنوں ، تم میں سے کسی کا مسخ شدہ چہرہ دیکھوں، تو اپنے فون پر اس تصویر کو دیکھ کر کہہ سکوں کہ یہ چہرہ جب زندگی سے بھر پور تھا تو کتنا حسین، تروتازہ اور جگمگا رہا تھا!!''
'' آپ کیا ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہی ہیں ؟ '' ایک لڑکے نے تمسخر سے پوچھا، '' ہمارا روز کا کام ہے، ہم اس کے لیے کافی پریکٹس کرتے ہیں، ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانا کوئی آسان کام نہیں، نہ ہی کوئی بچوں کا کھیل ہے!!''
'' سو تو ہے، مگر میری نظر میں تو تم لوگ بچے ہی ہو سارے، اللہ تمہیں محفوظ رکھے اور ہدایت دے، مگر میرے ایک سوال کا جواب دے دو فقط!! '' میں رکی، '' تم میں سے کتنے بچوں کے پاس لائسنس ہے، کتنوں کے والدین کو علم ہے کہ تم لوگ اس وقت کالج یا ٹیوشن سینٹر میں نہیں بلکہ یہاں ہو؟'' وہ سر کو بے نیازی سے جھٹک کر مڑا اور اس کے باقی ساتھیوں نے اس کا ساتھ دیا۔ میں اپنی گاڑی میں بیٹھی بھاری دل سے سوچ رہی تھی کہ ہماری نوجوان نسل کس سمت جا رہی ہے۔
ہم ماں باپ ان کی ان '' مصروفیات'' سے بے خبر کیوں ہیں؟ ہم گھروں سے انھیں حصول تعلیم کے لیے اسکول اور کالج بھیجتے ہیں، غالباً اسی یونیفارم میں وہ اسکول اور کالج سے فارغ ہو کر ٹیوشن سینٹر چلے جاتے ہیں، اپنے یونیفارم میں ہی یہ کچے ذہنوں کے بچے عین سڑک کے بیچ میں اپنے کرتب دکھاتے پھرتے اور حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں، اس وقت ہم پچھتانے کے لیے بھی بہت لیٹ ہو چکے ہوتے ہیں۔
ہم کہاں مصروف ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کی درست سمت بھی متعین نہیں کر سکتے، انھیں اچھے برے کی پہچان نہیں بتا سکتے، ہم کیوں ان کی طرف دیکھ کر نہیں بھانپ جاتے کہ وہ کس طرح کے دوستوں اور صحبتوں میں ہیں، اپنے بچوں کی تربیت ہم نے کرنا ہے، ان کے دوستوں نے نہیں، اگر وہ غلط سرگرمیوں میں مصروف ہیں توگھر پر دیر سے لوٹتے ہوں گے، اگر وہ کالج یا ٹیوشن سینٹر کا وقت ان سرگرمیوں میں گزارتے ہیں تو یقینا ان کی تعلیمی کارکردگی پر فرق پڑتا ہو گا۔
کیا ہم نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہوا؟؟ کبھی ہم نے دوستانہ انداز میں بچوں سے پوچھا کہ ان کے دوست کون ہیں، کس طرح کے خاندانوں سے ان کا تعلق ہے، ان کے دوستوں سے ذاتی طور پر ملے یا ان کے والدین سے رابطہ کیا، کبھی اسکول میں اپنے بچوں کے دوستوں کی تعلیمی کارکردگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟
بچے جو بھی مطالبات کرتے ہیں ہم انھیں فوراً پورا کر دیتے ہیں، ہم بچوں سے خوفزدہ کیوں ہوتے ہیں، ہم ان سے سوال کرتے ہوئے ڈرتے کیوں ہیں؟ خود سے پوچھیں!!!
ہم نے بچوں کی تربیت کے اولین برسوں میں ہی انھیں اچھے برے کی تمیز سکھانا ہوتی ہے، انھیں حقوق اور فرائض کی بابت تب بتانا ہوتا ہے جب وہ شعور کی حد کو چھوتے ہیں، ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی عین ضروری ہے، اسکول اور کالج سے چیک کرنا لازم ہے کہ کہیں وہ کلاسز سے غیر حاضر تو نہیں ہوتے۔
ان کے مطالبات کی صحت کو جانچنا بھی ہمارا فرض ہے، کیا لینا ان کے لیے ضروری ہے اور کون سی چیز انھیں نقصان پہنچا سکتی ہے... ان کے کمروں کو چیک کریں کہ کہیں وہ کسی قسم کے نشے یا کسی اور منفی عادت کا شکار تو نہیں۔ ہم نے انھیں آزاد اور بے مہار چھوڑ دیا ہے، غلط سلط فلمیں دیکھ کر وہ خود کو ہر فلم کا ہیرو سمجھنے لگتے ہیں، وہ اپنی حد سے بڑھ کر بھی مطالبہ کرتے ہیں تو ہم اسے پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں انکار پر وہ خود کو نقصان نہ پہنچا لیں۔
نوجوانوں میں خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ہم والدین کو انتہائی سوچ پر مجبور کر دیا ہے، ہم انھیں سمجھانا بجھانا بھی چھوڑ چکے ہیں۔اگر آپ بھی والدین ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں بہت سی خرابیاں اور برائیاں ہماری اپنی لاپروائی اور کوتاہیوں کے نتیجے میں جنم لے رہی ہیں تو اصلاح کا بیڑا اٹھا لیں، فقط اپنے نہیں سب کے بچوں کی، جہاں برائی دیکھیں ، جہاں غلط کام ہوتا دیکھیں، نظر چرا کر نہ گزریں کہ میرا بچہ تو ان میں شامل نہیں ہے !!
آپ کیا جانیں کہ اس وقت آپ کا بچہ کہاں اور کس سرگرمی میں مصروف ہو گا، معاشرے کا سدھار تبھی ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر کوئی اپنے فرض کو پہچانے، اپنی ذمے داری کا احساس کرے اور نوجوانوں کو فقط نوجوان نہیں بلکہ اس ملک و قوم کا مستقبل سمجھیں، اپنے مستقبل کو بچائیں، اس کا نقصان ہونے سے روکیں، کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں ... آپ کے بچے کو بھی غلط کام سے روکے گا، گمراہ کن راہوں پر بڑھتے ہوئے اس کے قدم روک لے گا!!