ورلڈکپ کی منزل کارکردگی میں تسلسل کے بغیر ممکن نہیں

مشکل سفر میں درست فیصلوں اور ذمہ دارانہ بیٹنگ کی ضرورت ہوگی


Saleem Khaliq March 15, 2015
مشکل سفر میں درست فیصلوں اور ذمہ دارانہ بیٹنگ کی ضرورت ہوگی. فوٹو: گیٹی امیجز

''ورلڈکپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کیا ہوگا!''
''جناب امید ہے کہ کوارٹر فائنل میں تو آسانی سے پہنچ جائے گی، باقی دیکھیں کیسی پرفارمنس رہتی ہے'' گزشتہ کئی ماہ سے میں لوگوں کے اس سوال کا یہی جواب دے رہا تھا، میڈیا سے تعلق کی وجہ سے لوگ ہمیں نجانے کیا سمجھتے ہیں۔

انھیں لگتا ہے کہ صحافی اور سابق کرکٹرز اپنے تجربے کی وجہ سے پہلے ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا ہوگا، حالانکہ یہ بات درست نہیں، کرکٹ کے بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، اس میں صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے، یہ درست ہے کہ کوئی ماہر اپنے تجزیے سے درست پیشگوئی کرسکتا ہے مگر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا،ہمارے جیسے خودساختہ ماہرین کی تو بیشتر پیشگوئیاں ویسے ہی غلط ثابت ہوتی رہتی ہیں، اب تو ٹی وی چینلز پر نجومی تک بٹھائے جانے لگے ہیں حالانکہ کوئی ان سے پوچھے کہ اب تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے تو وہ بھی درست نہ بتا سکیں، ہر جانب برساتی مینڈکوں کی بہتات ہے۔

کرکٹ کی الف ب کا علم نہیں مگر سب میچز پر ایسے تجزیے کر رہے ہوتے ہیں جیسے ان سے بڑا ماہر کوئی ہے ہی نہیں، اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز سب جگہ اداکاروں سے لے کر سیاستدانوں تک سے ''ورلڈکپ منجن'' فروخت کروایا جا رہا ہے،خیر ایونٹ شروع ہونے سے قبل پاکستانی ٹیم کے حوالے سے جو پیشگوئی ہوئی وہ درست ثابت نہ ہوئی اور اب آخری لیگ میچ ہونے والا ہے، مگر یہ یقینی نہیں کہ ٹیم کوارٹر فائنل کھیلے گی یا نہیں،یہ ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے۔

ایونٹ میں سوائے جنوبی افریقہ کے گرین شرٹس کسی بڑی ٹیم سے نہیں جیت سکے، آئی سی سی کا شکریہ کہ اس نے ایسا فارمیٹ تشکیل دیا جس کی وجہ سے بڑی ٹیموں کے پہلے رائونڈ کے بعد گھر جانے کا امکان خاصا کم رہ گیا، البتہ پول اے میں انگلینڈ نے جیسی کارکردگی دکھائی اس کے بعد ٹیم کسی صورت اگلے مرحلے میں رسائی کی حقدار نہ تھی، پول بی میں پاکستان کے سر پر خطرات تو منڈلا رہے ہیں، مگرآخری میچ آئرلینڈ سے ہونے کی وجہ سے امید کی کرن روشن ہے، قسمت بھی ساتھ دکھائی دینے لگی۔

ویسٹ انڈیز کا یو اے ای سے میچ طوفان کی وجہ سے منسوخ ہونے کا خدشہ ہے، اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور آئرلینڈ کا مقابلہ جو بھی جیتے دونوں ہی ٹیمیں ناک آئوٹ رائونڈ میں نشست پکی کر لیں گی۔ اگر کوئی بہت بڑا اپ سیٹ نہ ہوا تو پاکستانی ٹیم کا سفر جاری رہے گا، البتہ ابتدائی میچز میں کھیل ناقص نہ رہا ہوتا تو آگے ممکنہ طور پر آسٹریلیا جیسے خطرناک حریف کا سامنا نہ کرنا پڑتا، بہرحال ابھی اس حوالے سے زیادہ بات کرنا قبل از وقت ہوگا پہلے ہمیں ٹیم کے کوارٹرفائنل میں شمولیت پر مہر ثبت ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔

ورلڈکپ کے نمایاں کھلاڑیوں پر اگر نظر دوڑائیں تو یہ افسوسناک انکشاف ہوتا ہے کہ ٹاپ 10بیٹسمینوں میںہمارا کوئی کھلاڑی موجود ہی نہیں ہے، زمبابوے کے برینڈن ٹیلر(433) بھی سری لنکن کمارسنگاکارا (496) کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں، فہرست میں بنگلہ دیشی محمود اﷲ، زمبابوین سین ولیمز اور یو اے ای کے شیامن انور تک دکھائی دیتے ہیں مگر پاکستانیوں کی عدم موجودگی باعث شرم ہے، ہمارے کپتان مصباح الحق نے گوکہ اب تک اچھا پرفارم کیا مگر وہ277رنز کے ساتھ 13 ویں نمبر پر ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا دیگر ٹیموں سے فرق کتنا بڑھ چکا ہے۔

اس سے بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹاپ بیٹسمینوں میں پاکستان کو دوسری جگہ 39 ویں نمبر پر ملی جس میں 159رنز کے ساتھ احمد شہزاد موجود ہیں۔ مسلسل چار سنچریاں داغنے والے سنگاکارا کا تو ذکر ہی خیر چھوڑیں بنگلہ دیش کے محمود اور زمبابوین برینڈن ٹیلر تک نے 2،2 تھری فیگر اننگز سجا دیں،آئر لینڈ، یو اے ای اور اسکاٹ لینڈ کے کھلاڑی بھی سنچریاں بنا چکے مگر ہمارے پلیئرز کو اب تک بیٹ اٹھا کر شائقین کی داد کا جواب دینے کا موقع نہیں ملا، اسی طرح 10 بہترین بولرز میں بھی ہماری نمائندگی کے لیے کوئی موجود نہیں،وہاب ریاض11 وکٹوں کے ساتھ 11 ویں نمبر پر پر ہیں۔

کرکٹ ٹیم گیم ہے مگر انفرادی کارکردگی کی بھی بیحد اہمیت ہوتی ہے، اب تک گرین شرٹس نے اپنے کھیل سے خود کو اس قابل ثابت نہیں کیا کہ وہ ورلڈ چیمپئن بننے جا رہے ہیں، صرف پروٹیز سے میچ میں ٹیم یکجا ہو کر کھیلتی دکھائی دی، سرفراز احمد کو کوچ وقار یونس نے اپنی انا کی بھینٹ چڑھائے رکھا جب مجبوراًکھلایا تو دنیا کہنے پر مجبور ہو گئی کہ ایسے کھلاڑی کو ٹیم سے کیوں دور رکھا گیا تھا؟ وقار عظیم پیسر رہے ہیں مگر کوچ کی حیثیت سے بالکل ناکام ہیں، اپنے گذشتہ دور میں بھی انھوں نے ٹیم میں ایسے مسائل پیدا کر دیے کہ کئی پلیئرز ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔

شاہد آفریدی کی بھی کوچ نے جڑیں کاٹیں مگر اب مصباح کی جگہ انھیں کپتان بنانے کی کوشش بھی کرتے دکھائی دیے، وقار یونس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک90 کے دور سے نہیں نکلے، ان کے ذہن میں یہی بات سوار ہے کہ میں بہت بڑا سپراسٹار ہوں، حالانکہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا، کوچ کو موجودہ پلیئرز کو بھی عزت دینی چاہیے، یہاں گلی محلے کی ٹیموں میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہو گا کہ کسی نے سلام نہیں کیا تو باہر بٹھا دیا، یا کسی بات کا جواب دے دیا تو حشر نشر کر دیا، وقار یونس آسٹریلوی شہریت کے حامل ہیں، گذشتہ ورلڈکپ کے بعد بھی ٹیم کو دست گریباں کرا کے وہ اپنے ''وطن '' روانہ ہو گئے تھے۔

اب پھر وہی نوبت نہ آ جائے، یہی ڈر ہے، انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان نے ہی انھیں اتنی عزت، دولت اور شہرت دی جس کی وجہ سے آج اس مقام پر ہیں، آسٹریلیا میں انھوں نے کوچنگ کی درخواست دی تھی ناں کیا ہوا ان کے ساتھ، مشکوک ماضی کو جواز بنا کر بولنگ کوچ تک بنانے سے انکار کر دیا گیا تھا، ایسے میں اپنے ملک نے ہی انھیں عزت دی ، اب اس کے وقار سے تو نہیں کھیلنا چاہیے،جو غلطیاں ان سے ہو گئیں انھیں اب نہ دہرائیں اسی میں ٹیم کا بھلا ہے، وہ ملک کو2 اچھے نوجوان پیسرز ہی دے جائیں تو ہر ماہ 14لاکھ روپے تنخواہ کا چیک وصول کرتے شاید کچھ اچھا بھی لگے گا۔

میگا ایونٹ میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اوپننگ کا رہا ہے،اس حوالے سے سلیکشن کمیٹی بھی ذمہ دار ہے جس نے صرف 2ریگولر اوپنرز احمد شہزاد اور محمد حفیظ کا انتخاب کیا، معین خان نے سرفراز احمد کو تیسرا اوپنر قرار دیا مگر ٹیم مینجمنٹ نے انھیں12 واں کھلاڑی بنا کر رکھا، پھر حفیظ کی معمولی انجری کو جواز بنا کر واپس بھیج دیا گیا تو مسائل مزید بڑھ گئے، ایسے میں یونس خان سے اننگز کا آغاز کرانے جیسے احمقانہ فیصلے بھی سامنے آئے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایونٹ میں بدترین اوپننگ کا ریکارڈ پاکستان کے پاس ہے، 5میچز میں ہماری افتتاحی شراکتیں 11،0،1،10،30 کی رہیں، سب سے بہترین آخری میچ میں سرفراز کی آمد کے بعد سامنے آئی، دیکھیں اب کیا ہوتا ہے، احمد شہزاد بہت باصلاحیت ہیں مگر ان کی صلاحیتیں کبھی کبھی ہی سامنے آتی ہیں۔



حالیہ ایونٹ میں انھوں نے بھارت کیخلاف 47 اور یو اے ای سے میچ میں 93رنز بنائے دیگر میچز میں فلاپ رہے، عظیم بیٹسمین بننے کیلیے انھیں اپنی کارکردگی میں عدم تسلسل کی خامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی، بیچارے ناصر جمشید پر تو اتنی لعن طعن ہو چکی کہ اب کچھ کہنا ہی بیکار ہے،اس میں ان سے زیادہ سلیکشن کمیٹی کی غلطی تھی، ادھوری فٹنس کے حامل آئوٹ آف فارم کھلاڑی کو صرف کپتان اور کوچ کی سفارش پر ورلڈکپ جیسے ایونٹ میں بھیج دیا، اس کا نتیجہ وہی سامنے آیا جس کی توقع تھی۔

اب سرفراز ایک میچ میں تو چل گئے آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، پاکستانی مہم آگے بڑھانے کیلیے اچھا آغاز ضروری ہے، کیونکہ مڈل آرڈر کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، پروٹیز سے آخری میچ کی ہی مثال دیکھ لیں،91پر ایک وکٹ سے اسکور 156پر4ہو گیا تھا، لوئر آرڈر کا ویسے ہی جواب نہیں، اسی میچ میں آخری5وکٹیں 10رنز کے دوران گری تھیں، اب غلطیاں سدھارنے کے مواقع نہیں ملنے والے، کرو یا مرو والی صورتحال ہے۔

یونس خان نے جنوبی افریقہ کیخلاف بہتر بیٹنگ کی، انھیں اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ففٹی اور پھر سنچری کی جانب جانا چاہیے، اسی طرح مصباح الحق اسکور تو کر رہے ہیں مگر انھیں تھوڑا مثبت انداز سے کھیلنا چاہیے تاکہ دیگر پلیئرز پر دبائو نہ پڑے، وہ اور یونس نہ صرف خود عمدہ بیٹنگ کریں بلکہ نوجوان بیٹسمینوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں تاکہ ٹیم بڑا اسکور بنا سکے، عمر اکمل ابتدائی نمبرز پر بیٹنگ کا موقع نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، درحقیقت انھیں کافی چانسز ملے مگر پرفارم نہ کر سکے، وہ کہتے ہیں کہ کوہلی سے موازنہ نہ کریں تو بھائی کون ایسا کر رہا ہے، کوہلی اور ان کی پرفارمنس میں زمین آسمان کا فرق ہے، بات ظاہری وضع قطع کی ہو رہی تھی کھیل کی نہیں،سب جانتے ہیں کہ وہ اور احمد شہزاد کوہلی جیسا بننے کی کوشش کرتے تھے اسی پر میڈیا موازنہ کرتا ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ دونوں بیٹنگ بھی اتنی اچھی کریں کہ لوگ کوہلی کو بھول جائیں۔ اسی طرح صہیب مقصود کو بھی اب کچھ کر دکھانا ہوگا،ان کے آئیڈیل انضمام الحق نے بھی ورلڈکپ میں اچھی اننگز کھیل کر شہرت حاصل کی تھی، بدقسمتی سے صہیب اب تک صرف ویسٹ انڈیز کیخلاف ایک ہی ففٹی بنا سکے ہیں مگر اب انھیں اس سے کچھ بڑھ کر کر دکھانا ہوگا،شاہد آفریدی اب تک بجھے بجھے سے دکھائی دیے ، اپنے آخری ورلڈکپ کو یادگار بنانے کیلیے ان کے پاس اب زیادہ مواقع نہیں رہے، بقیہ میچز میں شاندار بیٹنگ اور بولنگ سے اپنے مداحوں کو خوش کردینا چاہیے۔

ٹیم کے لیے ایک اچھی بات پیس بیٹری کا چارج ہونا ہے، لیفٹ آرم پیسرز وہاب ریاض، محمد عرفان اور راحت علی اب جان پکڑ رہے ہیں،تینوں نے پروٹیز سے میچ میں صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا، اس سلسلے کو برقرار رکھا تو ٹیم یقیناً بہت آگے جائے گی، سہیل خان کی بولنگ بھی بہتر ہے، البتہ عمر اکمل نے ابتدائی میچز میں کیچز چھوڑ کر شاہدآفریدی کا اعتماد کم کر دیا،آخری میچ میں وکٹوں کے عقب میں سرفراز کی آمد سے ٹیم کو بیحد فائدہ ہوا اور انھوں نے 6کیچز لے کر ریکارڈ بنا دیا، اچھے وکٹ کیپر کی موجودگی میں آفریدی بھی وکٹیں لیتے دکھائی دے سکتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم کا اب آئرلینڈ سے مقابلہ ہو رہا ہے،اسے چھوٹی ٹیم سمجھنے کی غلطی کسی صورت نہیں کرنی چاہیے،آئرش بیٹنگ خصوصاً بیحد مضبوط ہے، تقریباً تمام ٹاپ آرڈر بیٹسمین 50پلس اننگز سے لطف اندوز ہو چکے، پہلے بیٹنگ کی صورت میں پاکستان نے اگر 300 سے زائد رنز بنائے تب ہی فتح کا خواب دیکھنا چاہیے، بصورت دیگر مشکل ہو سکتی ہے، آئرلینڈ کا کمزور پوائنٹ ان کی بولنگ ہی ہے، ہمیں اس پر اٹیک کرنا چاہیے، جیسے جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کر کے 400 سے زائد رنز کیے تھے پاکستان کو بھی اپنے لحاظ سے بڑا اسکوربنانا ہوگا، اسی صورت حریف سائیڈ کو دبائو کا شکار کیا جا سکے گا۔ موجودہ حالات پاکستان کو کوارٹر فائنل تک تو پہنچا ہی رہے ہیں، آگے کا سفر زیادہ دشوار ہے۔

اس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہو گی،یہاں ایک میچ جیت کر ہی جشن کا سماں تھا، قومی ٹیم اس بات کو ذہن میں رکھے،ان کی اچھی کارکردگی کروڑوں چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے، اپنے ہم وطنوں کو خوشیاں فراہم کرنے کیلیے کھلاڑیوں کو جان لڑا دینی چاہیے، ہمت مرداں مدد خدا، ٹیم اپنی پوری کوشش کرے قوم کی دعائیں بھی ساتھ ہیں، یقیناً اچھے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔