ایک جلالی بزرگ کے بارے میں
شان مولانا کی یہ ہے کہ اپنی جگہ علم دریاؤ ہیں۔ کونسا عالم، کہاں کا فاضل، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
دلی کے ایک قلندر صفت صوفی کا احوال سنئے بزبان شاہد احمد دہلوی ''چار ابرو کا صفایا، گول چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، سر پر دوپلی ٹوپی، ململ کا کرتا، چست پاجامہ، پاؤں میں نری کی جوتی، قوالی شوق سے سنتے ہیں۔ رنڈیوں کا گانا بھی سن لیتے ہیں۔ ایک عرس میں جہاں بڑا بڑا جغادری صوفی بیٹھا تھا وہاں یہ مولانا بھی تشریف فرما تھے۔ وہیں ایک حسین طوائف بھی الانگتی پھلانگتی آ گئی۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کی نائکہ۔ ایک صوفی نے جل جلالہ کہہ کرا سے اپنے پاس بٹھا لیا۔ تب مولانا نے نائکہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ''یہ عمانوالہ بھی ساتھ ہیں، انھیں بھی سنبھالیے۔''
یہ تھے مولانا عبدالسلام نیازی، ان کا ذکر سب سے پہلے ہم نے حکیم حبیب اشعر سے سنا تھا۔ اب تفصیل سے ان کا ذکر سامنے آیا ہے۔ وہ اس طرح کہ جن جانی پہچانی شخصیتوں نے ان کے تیور دیکھے ہیں اور ان کے علم و فضل کی دھاک کو مانا ہے ان سب کے بیانات راشد اشرف صاحب نے اکٹھے کیے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ اس طرح انھوں نے مولانا عبدالسلام نیازی کا تذکرہ مرتب کیا۔ اردو اکیڈمی بہاولپور نے اسے اس عنوان کے تحت چھاپا ہے ''مولانا عبدالسلام نیازی۔ آفتاب علم و عرفاں''
شان مولانا کی یہ ہے کہ اپنی جگہ علم دریاؤ ہیں۔ کونسا عالم، کہاں کا فاضل، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کسی کی زبان سے غلط جملہ نکل جائے یا کسی کی ادا انھیں نہ بھائے بس فوراً ہی ان کا ناریل چٹخ جاتا ہے۔ پھر وہ بے بھاؤ کی سناتے ہیں۔ اپنے غصے کے لیے یہ ترکیب انھوں نے خرب تراشی ہے۔ ہم نے سوچا یہ کوئی پرانا محاورہ ہو گا۔ ہم نے فرہنگ آصفیہ سے رجوع کیا۔ پھر نوراللغات سے۔ مگر وہاں تو سرے سے ناریل کا لفظ ہی نہیں ہے۔ اگر وہ یہ سن لیتے تو ان کا ناریل کس زور سے چٹختا اور سید احمد دہلوی اور مولوی نور احمد دونوں ہی زبان سے ناآشنا ٹھہرتے۔
جوش صاحب تو مولانا نیازی کے منظور نظر رہے ہیں۔ جوش صاحب خود بھی مولانا کے بہت نیازمند ہوا کرتے تھے۔ مگر جب وہ الحاد کی باتیں کرنے لگتے تو مولانا کا ناریل چٹخ جاتا، کہتے کہ ''جوش تمہارا دماغ شیطان کی کھڈی ہے۔''
ایک مرتبہ ایک صاحب نے باقاعدہ اپنی دہریت کا اعلان کر دیا۔ اب مولانا نیازی کا ناریل بڑے زور سے چٹخا۔ بولے ''دہریہ آدمی یوں نہیں بن جاتا۔ اس کو بہت عالم فاضل ہونا چاہیے، تم نہ فلسفہ سے مس ہے نہ منطق سے آشنا ہو۔ جاہل مطلق ہو، تم کیسے دہریے بن جاؤ گے۔ یہاں سے سدھارئیے، لوگوں کو معلوم تھا کہ مولانا کا ناریل جب چٹختا ہے تو دو تین بار سدھارئیے کہتے ہیں اور پھر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ تو قبل اس کے کہ یہ مرحلہ آئے وہ صاحب سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
خواجہ حسن نظامی نے ایک مرتبہ ان سے فرمائش کی کہ تصوف پر کتاب لکھیے۔ انھوں نے یہ پیش کش قبول کی اور دل لگا کر تصوف پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ خواجہ صاحب کو کتاب بہت پسند آئی مگر چھپنے کے سلسلہ میں شرط یہ پیش کی کہ کتاب میرے نام سے چھپے گی۔ بس مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ انھوں نے مسودہ لے کر چاک کیا اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ پھر بولے، خواجہ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اب تم ہمیں چائے پلواؤ۔
خلیق انجم اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ ایک صاحب حج سے واپس آنے کے بعد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا کو بتانے والوں نے بتایا تھا کہ ان صاحب کی دو کنواری بیٹیاں گھر بیٹھی ہیں۔ یہ قرض لے کر حج پر گئے اور حج کے بعد بھی وہاں خاص وقت گزارا۔ اب واپس آئے ہیں۔ مولانا اس پر ناخوش تھے کہ گھر میں دو جوان بیٹیاں شادی کی منتظر ہوں اور باپ اس فرض کو فراموش کر کے قرض لے کر حج پر چلا جائے۔ یہ غیر شرعی عمل ہے۔
مولانا نے ان صاحب سے کہا کہ آپ قرض لے کر حج پر گئے جب کہ آپ کی دو بیٹیاں شادی کی منتظر بیٹھی ہیں اور پھر حج کے بعد بھی وہاں اپنے قیام کو اتنا طول دیا۔
ان صاحب نے جواب دیا، حضرت جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ روشنی سے کنارہ کر کے اندھیرے کی طرف کیسے جائے۔
بس پھر کیا تھا۔ مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ ''بولے، سالے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں۔ تو قرض لے کر اس روشنی میں گیا تھا۔ چل نکل یہاں سے۔ بس وہ صاحب فوراً ہی رفو چکر ہو گئے۔
اب ذرا مولانا کا ایک اور روپ دیکھیے جو اخلاق احمد دہلوی نے کیا خوب بیان کیا ہے کہ ایک دن جی میں کیا سمائی کہ دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے دلی سے بنارس کی سمت۔ اس نگر میں جا کر سادھو سنتوں والا بہروپ بھرا اور ایک مندر کی سیڑھیوں پر آسن جما کر بیٹھ گئے۔ آنکھیں موند لیں اور چپ سادھ لی۔ بہتر گھنٹے بعد آنکھیں کھولیں۔ کیا دیکھا کہ ان سے اوپر کی سیڑھی پر ایک سادھو پیر آسمان کی طرف اٹھائے چت لیٹا ہے۔ ایک راجہ اس کے تلوؤں میں چندن مل مل کر اپنے ماتھے پر تلک لگا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر انھوں نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ کیا خوب یہی جلوہ دکھانے کے لیے ہمیں یہاں بلایا تھا
سخن فہمیٔ عالم بالا علوم شد
وہاں سے اٹھنے لگے تھے کہ سادھو نے اشارے سے انھیں اپنی طرف بلایا اور کہا ''مولوی عبدالاسلام تمہیں اپنے علم و دانش پر بہت غرور ہو گیا تھا۔ تم نے یہ نہیں جانا کہ علم اس لیے حاصل کیا جاتا ہے کہ اپنی جہالت سے آگاہی ہو سکے۔ تم اپنے علم پر ایسے بھولے کہ بہک چلے تھے۔ مولوی جاؤ واپس دلی جاؤ۔ وہیں اپنے ترکمان دروازے میں اس اپنی چھوٹی سی کوٹھریا میں پسارو جہاں تم اچھے اچھوں کو قدم نہیں رکھنے دیتے۔ کیا سمجھے۔ سیتا رام، سیتا رام۔''
یہ سنا اور واپس دلی کی طرف چل پڑے۔ اب کے تو ناریل نہیں چٹخا۔ اپنی اس کوٹھریا میں جا کر پسر گئے۔
سید انیس شاہ جیلانی نے ان کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خود اپنے بیان کے مطابق انھوں نے چودہ سال ہردوار میں گزارے تھے۔ کیوں؟ کیسے۔ اس باب میں انھوں نے کچھ نئیں بتایا۔ ہمیں بھی پوچھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
ترکمان گیٹ میں رہائش کا احوال بھی سن لو۔ کالی مسجد کے برابر ایک عمارت کی پہلی منزل میں رہتے تھے۔ بغیر اجازت کوئی حاضر خدمت نہیں ہو سکتا تھا۔ آنے والے کی آواز سن کر پہلے آنے کا مقصد معلوم کرتے۔ بلا مقصد آنے والے کو سیڑھیوں سے واپس کر دیتے۔ کوئی پریشان حال ہوتا تو اسے بلا لیتے۔ عطر کی شیشیاں پاس رکھتے تھے۔ ایک شیشی دے کر ہدایت کرتے کہ اس عطر کو حضرت نظام الدین اولیاء یا حضرت شیخ کلیم الرجہاں آبادی کے مزار پر پڑی چادر پر جا کر ملو۔ مشکل کام کے حل کے لیے 451 بار یا علی اور حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا ورد بتاتے۔
رشیوں کے قصوں میں ایک ایسے رشی کا ذکر آتا ہے کہ مزاج میں درہمی آتی کہ پھر اس غصے سے مخاطب کو دیکھتا کہ وہ جل بھن کر خاک ہو جاتا۔ پھر ہوا کیا۔ ایک بظاہر گھر گرستن والی پر انھیں کچھ اسی رنگ سے غصہ آنے لگا تھا۔ مگر وہ نکلی بگڑے دل کی۔ بولی 'رشی جی' یہ غصہ کسی اور کو دکھیو۔ یہ غصہ بتا رہا ہے کہ تمہاری ودیا میں اب کوئی کسر رہ گئی ہے۔ اب تھوڑا جاپ اور کرو اور کسی بڑے رشی کے چرن چھوؤ۔
رشی عورت کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
یہ تھے مولانا عبدالسلام نیازی، ان کا ذکر سب سے پہلے ہم نے حکیم حبیب اشعر سے سنا تھا۔ اب تفصیل سے ان کا ذکر سامنے آیا ہے۔ وہ اس طرح کہ جن جانی پہچانی شخصیتوں نے ان کے تیور دیکھے ہیں اور ان کے علم و فضل کی دھاک کو مانا ہے ان سب کے بیانات راشد اشرف صاحب نے اکٹھے کیے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ اس طرح انھوں نے مولانا عبدالسلام نیازی کا تذکرہ مرتب کیا۔ اردو اکیڈمی بہاولپور نے اسے اس عنوان کے تحت چھاپا ہے ''مولانا عبدالسلام نیازی۔ آفتاب علم و عرفاں''
شان مولانا کی یہ ہے کہ اپنی جگہ علم دریاؤ ہیں۔ کونسا عالم، کہاں کا فاضل، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کسی کی زبان سے غلط جملہ نکل جائے یا کسی کی ادا انھیں نہ بھائے بس فوراً ہی ان کا ناریل چٹخ جاتا ہے۔ پھر وہ بے بھاؤ کی سناتے ہیں۔ اپنے غصے کے لیے یہ ترکیب انھوں نے خرب تراشی ہے۔ ہم نے سوچا یہ کوئی پرانا محاورہ ہو گا۔ ہم نے فرہنگ آصفیہ سے رجوع کیا۔ پھر نوراللغات سے۔ مگر وہاں تو سرے سے ناریل کا لفظ ہی نہیں ہے۔ اگر وہ یہ سن لیتے تو ان کا ناریل کس زور سے چٹختا اور سید احمد دہلوی اور مولوی نور احمد دونوں ہی زبان سے ناآشنا ٹھہرتے۔
جوش صاحب تو مولانا نیازی کے منظور نظر رہے ہیں۔ جوش صاحب خود بھی مولانا کے بہت نیازمند ہوا کرتے تھے۔ مگر جب وہ الحاد کی باتیں کرنے لگتے تو مولانا کا ناریل چٹخ جاتا، کہتے کہ ''جوش تمہارا دماغ شیطان کی کھڈی ہے۔''
ایک مرتبہ ایک صاحب نے باقاعدہ اپنی دہریت کا اعلان کر دیا۔ اب مولانا نیازی کا ناریل بڑے زور سے چٹخا۔ بولے ''دہریہ آدمی یوں نہیں بن جاتا۔ اس کو بہت عالم فاضل ہونا چاہیے، تم نہ فلسفہ سے مس ہے نہ منطق سے آشنا ہو۔ جاہل مطلق ہو، تم کیسے دہریے بن جاؤ گے۔ یہاں سے سدھارئیے، لوگوں کو معلوم تھا کہ مولانا کا ناریل جب چٹختا ہے تو دو تین بار سدھارئیے کہتے ہیں اور پھر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ تو قبل اس کے کہ یہ مرحلہ آئے وہ صاحب سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
خواجہ حسن نظامی نے ایک مرتبہ ان سے فرمائش کی کہ تصوف پر کتاب لکھیے۔ انھوں نے یہ پیش کش قبول کی اور دل لگا کر تصوف پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ خواجہ صاحب کو کتاب بہت پسند آئی مگر چھپنے کے سلسلہ میں شرط یہ پیش کی کہ کتاب میرے نام سے چھپے گی۔ بس مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ انھوں نے مسودہ لے کر چاک کیا اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ پھر بولے، خواجہ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اب تم ہمیں چائے پلواؤ۔
خلیق انجم اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ ایک صاحب حج سے واپس آنے کے بعد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا کو بتانے والوں نے بتایا تھا کہ ان صاحب کی دو کنواری بیٹیاں گھر بیٹھی ہیں۔ یہ قرض لے کر حج پر گئے اور حج کے بعد بھی وہاں خاص وقت گزارا۔ اب واپس آئے ہیں۔ مولانا اس پر ناخوش تھے کہ گھر میں دو جوان بیٹیاں شادی کی منتظر ہوں اور باپ اس فرض کو فراموش کر کے قرض لے کر حج پر چلا جائے۔ یہ غیر شرعی عمل ہے۔
مولانا نے ان صاحب سے کہا کہ آپ قرض لے کر حج پر گئے جب کہ آپ کی دو بیٹیاں شادی کی منتظر بیٹھی ہیں اور پھر حج کے بعد بھی وہاں اپنے قیام کو اتنا طول دیا۔
ان صاحب نے جواب دیا، حضرت جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ روشنی سے کنارہ کر کے اندھیرے کی طرف کیسے جائے۔
بس پھر کیا تھا۔ مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ ''بولے، سالے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں۔ تو قرض لے کر اس روشنی میں گیا تھا۔ چل نکل یہاں سے۔ بس وہ صاحب فوراً ہی رفو چکر ہو گئے۔
اب ذرا مولانا کا ایک اور روپ دیکھیے جو اخلاق احمد دہلوی نے کیا خوب بیان کیا ہے کہ ایک دن جی میں کیا سمائی کہ دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے دلی سے بنارس کی سمت۔ اس نگر میں جا کر سادھو سنتوں والا بہروپ بھرا اور ایک مندر کی سیڑھیوں پر آسن جما کر بیٹھ گئے۔ آنکھیں موند لیں اور چپ سادھ لی۔ بہتر گھنٹے بعد آنکھیں کھولیں۔ کیا دیکھا کہ ان سے اوپر کی سیڑھی پر ایک سادھو پیر آسمان کی طرف اٹھائے چت لیٹا ہے۔ ایک راجہ اس کے تلوؤں میں چندن مل مل کر اپنے ماتھے پر تلک لگا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر انھوں نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ کیا خوب یہی جلوہ دکھانے کے لیے ہمیں یہاں بلایا تھا
سخن فہمیٔ عالم بالا علوم شد
وہاں سے اٹھنے لگے تھے کہ سادھو نے اشارے سے انھیں اپنی طرف بلایا اور کہا ''مولوی عبدالاسلام تمہیں اپنے علم و دانش پر بہت غرور ہو گیا تھا۔ تم نے یہ نہیں جانا کہ علم اس لیے حاصل کیا جاتا ہے کہ اپنی جہالت سے آگاہی ہو سکے۔ تم اپنے علم پر ایسے بھولے کہ بہک چلے تھے۔ مولوی جاؤ واپس دلی جاؤ۔ وہیں اپنے ترکمان دروازے میں اس اپنی چھوٹی سی کوٹھریا میں پسارو جہاں تم اچھے اچھوں کو قدم نہیں رکھنے دیتے۔ کیا سمجھے۔ سیتا رام، سیتا رام۔''
یہ سنا اور واپس دلی کی طرف چل پڑے۔ اب کے تو ناریل نہیں چٹخا۔ اپنی اس کوٹھریا میں جا کر پسر گئے۔
سید انیس شاہ جیلانی نے ان کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خود اپنے بیان کے مطابق انھوں نے چودہ سال ہردوار میں گزارے تھے۔ کیوں؟ کیسے۔ اس باب میں انھوں نے کچھ نئیں بتایا۔ ہمیں بھی پوچھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
ترکمان گیٹ میں رہائش کا احوال بھی سن لو۔ کالی مسجد کے برابر ایک عمارت کی پہلی منزل میں رہتے تھے۔ بغیر اجازت کوئی حاضر خدمت نہیں ہو سکتا تھا۔ آنے والے کی آواز سن کر پہلے آنے کا مقصد معلوم کرتے۔ بلا مقصد آنے والے کو سیڑھیوں سے واپس کر دیتے۔ کوئی پریشان حال ہوتا تو اسے بلا لیتے۔ عطر کی شیشیاں پاس رکھتے تھے۔ ایک شیشی دے کر ہدایت کرتے کہ اس عطر کو حضرت نظام الدین اولیاء یا حضرت شیخ کلیم الرجہاں آبادی کے مزار پر پڑی چادر پر جا کر ملو۔ مشکل کام کے حل کے لیے 451 بار یا علی اور حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا ورد بتاتے۔
رشیوں کے قصوں میں ایک ایسے رشی کا ذکر آتا ہے کہ مزاج میں درہمی آتی کہ پھر اس غصے سے مخاطب کو دیکھتا کہ وہ جل بھن کر خاک ہو جاتا۔ پھر ہوا کیا۔ ایک بظاہر گھر گرستن والی پر انھیں کچھ اسی رنگ سے غصہ آنے لگا تھا۔ مگر وہ نکلی بگڑے دل کی۔ بولی 'رشی جی' یہ غصہ کسی اور کو دکھیو۔ یہ غصہ بتا رہا ہے کہ تمہاری ودیا میں اب کوئی کسر رہ گئی ہے۔ اب تھوڑا جاپ اور کرو اور کسی بڑے رشی کے چرن چھوؤ۔
رشی عورت کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔