مدارس کی آواز

دینی مدارس کا نظام دراصل ہے کیا، ان کو کس طرح متضاد ریاستی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔


راؤ منظر حیات March 16, 2015
[email protected]

دینی مدارس کا نظام دراصل ہے کیا، ان کو کس طرح متضاد ریاستی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہم دہشتگردی کے جن سنگین مسائل سے دوچار ہیں، ان کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ کئی معاملے اٹھاتے ہوئے ایک خوف بھی عود آتا ہے۔ فکری طور پر ہمیں ایک بند گلی میں دھکیل دیاگیا ہے، اس عمل میں تیس چالیس برس کے صَرف ہوئے ہیں۔

پچھلے ہفتے سرکاری سطح پر لاہور میں دو دینی مدارس دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک ماڈل ٹاؤن لاہور میں جامعہ المنتظر اور دوسرا فیروزپور روڈ لاہور پر جامع اشرفیہ۔ جامعہ المنتظر اہل تشیع فقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ درسگاہ 1954ء میں اندرون شہر میں قائم ہوئی اور1971ء میں ماڈل ٹاؤن منتقل ہو گئی۔ ماڈل ٹاؤن کے ہر بلاک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی عبادت گاہوں کے لیے جگہ مختص ہے۔ یہ سوسائٹی قیام پاکستان سے پہلے قائم ہوئی چنانچہ اس وقت کے تقاضوں کے مطابق مندر، مسجد اور گردواروں کے لیے خالی قطعہ زمین رکھے گئے۔ جامعہ کو بائیس کنال کا رقبہ الاٹ کیا گیا اور آج یہ شیعہ مدرسہ اپنے مسلک کے اعتبار سے بہت اہم دینی خدمات انجام دے رہا ہے۔

کوشش کی جاتی ہے کہ طالبعلم داخلہ کے وقت میٹرک کا امتحان پاس کر چکے ہوں۔ اس کے بعد آٹھ سے بارہ سال کا دینی کورس ہے۔کئی طالبعلم تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اور کئی مکمل کر لیتے ہیں۔ مدرسہ کی جانب سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ تمام بچوں کو مفت کھانے پینے اور رہائش کی سہولت موجود ہے۔ جامعہ میں ایک ہوسٹل بھی زیر تعمیر تھا جس میں سیکڑوں طالبعلموں کو معیاری رہائش فراہم ہو سکے گی۔ نصاب میں قرآن، حدیث، فلسفہ، عربی زبان، صَرف و نحو، منطق اور دیگر علوم شامل ہیں۔ دینی تعلیم میں شیعہ فقہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بہرحال یہ ایک مخصوص فقہ کی علمی درسگاہ ہے۔

جامعہ کے اساتذہ نے انتہائی مشکل سوالات کا بڑا متوازن جواب دیا۔ پہلی بات کہ، کیا اس ادارہ اور اس سے دیگر منسلک اداروں کو ایران سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کا جواب"نظام خمس" میں پوشیدہ ہے۔ میں اس نظام کی جزئیات میں جائے بغیر عرض کرنا چاہوںگا کہ آمدنی یا اسباب کا بیس فیصد حصہ دین کی راہ میں دینا فرض ہے۔ مجھے اب اچھی طرح یاد نہیں کہ یہ بیس فیصد آپ کی بچت پر ہے یا منافع پر؟ بہرحال اہم بات یہ ہے کہ خمس پوری دنیا سے جمع ہو کر ایران جاتا ہے۔ وہاں مرکزی آیت اللہ صاحبان فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے کیسے خرچ کیا جائے یا کس ادارہ کو دیا جائے۔ ایک بات سن کر اپنی کم علمی کا مزید احساس ہوا۔ کہ ایران میں برگزیدہ ترین ہستیوں یعنی آیت اللہ صاحبان میں ایک پاکستانی بھی شامل ہیں۔

ان کا اسمِ گرامی غالباً آیت اللہ بشیر ہے اور وہ قم میں مقیم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے دینی رہنما مختلف اداروں کے لیے ایک فیصلہ جاری کرتے ہیں کہ یہ درسگاہ خمس وصول کر سکتی ہے کہ نہیں۔ یعنی قم کے مرکزی فیصلہ کے بغیر کسی ادارے کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ خمس کے ایک دھیلے کو بھی ہاتھ لگا سکے۔ ان تمام اخراجات کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔ اسے عام لوگوں کے استفادہ کے لیے مہیا کیا جاتا ہے۔ اگر آپ بھی چاہیں تو آپ یہ تمام جمع و خرچ کی رقم کا حساب اور آڈٹ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بات حوصلہ افزا تھی کہ مدرسہ میں اس بات کا بھرپور شعور موجود ہے کہ ان کے تمام وسائل اور اخراجات کا پورا حساب ہونا چاہیے۔

دہشتگردی اور ضربِ عضب کے حوالے سے علماء کا جواب بالکل ٹھوس اور شفاف تھا۔ دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کارروائی ان کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ ایک اور دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا کہ جامعہ کا کوئی فارغ التحصیل طالبعلم بیکار نہیں۔ سب کے پاس ایک باعزت روزگار موجود ہے۔ مجھے جامعہ المنتظر میں ایک ڈسپلن کا احساس ہوا۔ بے ترتیبی یا انتشار دیکھنے میں نہیں ملا۔ اساتذہ کا ادب بھی کمال حد تک موجود تھا۔

اب دوسرے محترم دینی ادارہ کی کچھ تفصیل عرض کرتا ہوں۔ جامعہ اشرفیہ حنفی مسلک کا ایک مستند ادارہ ہے۔ اس کا قیام 1947ء میں مولانا مفتی محمد حسن صاحب کی بدولت ممکن ہوا۔ چھ سے سات دہائیوں میں جامعہ اشرفیہ نے انتہائی متاثر کن علمی سفر طے کیا ہے۔ لاہور میں اس کی دس سے بارہ ذیلی شاخیں ہیں۔ مجموعی طور پر جامعہ میں چار ہزار طالبعلم دینی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف کار ہیں۔ ان کے نصاب میں بھی قرآن، حدیث، عربی زبان، منطق، صَرف و نحو اور دیگر مضامین شامل ہیں۔ سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی تعلیمی دورانیہ چھ سے آٹھ سال کا ہے۔

جامعہ اشرفیہ کی مین بلڈنگ میں ایک زیر زمین ہال تعمیر کیا گیا ہے جس کا افتتاح امامِ کعبہ نے کیا تھا۔ ہال کی چھت پر ایک بہت خوبصورت اور دیدہ زیب لان ہے۔ ہال میں کلاسیں جاری تھیں۔ مہتمم کے بقول کلاس میں دیے گئے لیکچر پوری دنیا میں بذریعہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سنے جا سکتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ میں غیر ملکی طالبعلموں کے لیے ایک بہت بڑا ہاسٹل موجود ہے۔ تمام غیر ملکی طالبعلم جنرل مشرف کے دور میں جامعہ سے رخصت کر دیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ایک انتہائی اہم بات بھی معلوم ہوئی کہ ہندوستان نے ان تمام طالبعلموں کو اسلامی تعلیم کے لیے اپنے ملک میں بلوا لیا اور وہ تمام پاکستان کے بجائے ہندوستان کے مدارس سے اپنی تعلیم مکمل کرنے لگے۔ یہ بہت سنجیدہ بات ہے۔ اس سے ایک نقطہ سامنے آیا ہے کہ تمام غیرملکی طالبعلموں کو دہشتگردی سے نتھی کرنا انصاف نہیں۔

ہماری بے ربط پالیسی کا فائدہ ہمارے دشمن ممالک اٹھا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایک غیر ملکی طالبعلم تمام حکومتی ضوابط پورے کرنے کے بعد پاکستان میں دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے حکومتی رویہ پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اگر ہندوستان ان تمام بچوں کو دینی تعلیم دے سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں دے سکتے۔ اس کی ایک دلیل بھی ہے کہ غیرملکی طالبعلم اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں پڑھ سکتے ہیں، تو ایک مربوط حکومتی پالیسی کے ذریعہ سے دینی مدارس میں کیوں تعلیم نہیں حاصل کر سکتے۔

جامعہ اشرفیہ میں انگریزی زبان سیکھنے کا بھرپور نظام موجود ہے۔ ایک لیب میں طالبعلموں کو انگریزی زبان سیکھتے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ وجہ صرف یہ کہ ہمارے علماء انگلش زبان نہ سمجھنے کی بدولت اپنی صحیح بات بھی مغرب کو پہنچا نہیں پاتے! یقینا اس تعلیم سے ذہنی فاصلہ کم ہو گا۔ جامعہ میںO اور A لیول تک کا تدریسی نظام بھی موجود ہے اور لڑکیوں کا ایک ڈگری کالج بھی کام کر رہا ہے۔مجھے جامعہ اشرفیہ میں ایک بہت خوش کن چیز نظر آئی۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال تھی۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دینی مدارس آئی ٹی سے دور ہیں مگر کم از کم اس درسگاہ میں مجھے یہ کمی محسوس نہیں ہوئی۔ جو بچہ بھی کمپیوٹر سیکھنا چاہتا ہے، اسے کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ ایک اور اَمر جس کی طرف آپ کی توجہ دلوانا چاہتا ہوں۔ وہ چوبیس گھنٹے دینی فتاویٰ کا ایک حیران کن مربوط نظام ہے۔ ایک ٹول فری نمبر موجود ہے جس پر پوری دنیا سے فون کر کے کسی بھی دینی مسئلہ پر رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ای میل کے ذریعے بھی آپ اپنا مدعا بیان کر سکتے ہیں اور چوبیس گھنٹے میں جواب مل جائیگا۔

ادارہ کے مہتمم نے مجھے ایک اور بہت متاثر کن انکشاف کیا۔ جامعہ کے ساتھ میں مسیحی آبادی موجود ہے، ان کے ہر تہوار پر جامعہ کی طرف سے تحائف دیے جاتے ہیں۔ ان کے تمام مذہبی تقریبات میں ادارہ کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ یہ مذہبی صلہ رحمی کا رویہ قابل تعریف ہے۔ مالی مدد کا بھی ایک نظام موجود ہے جس میں کسی مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں۔

ضربِ عضب اور دہشتگردی کے خلاف فوج اور حکومتی اقدامات کی بھرپور تائید نظر آئی مگر اس میں ایک پہلو بھی زیر بحث رہا، دہشتگردی میں ملوث لوگوں کے لیے مجھے کوئی ہمدردی نظر نہیں آئی مگر ایک ایسی چیز بھی سامنے آئی جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تھا عملی سطح (Opernational Level) پر مختلف حکومتی اداروں میں رابطے اور تنظیم کا مکمل فقدان۔ ایک مذہبی عالم نے کہا کہ ایک حکومتی حساس ادارہ کے اہلکار معلومات حاصل کرنے کے بعد جاتے ہیں تو دوسرا ادارہ اسی طرح کی معلومات حاصل کرنے آ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔ ان کے نزدیک کئی ادارے انتہائی سطحی طرز کی معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ اگر کسی ادارہ کے نچلی ترین سطح کے اہلکار نے کوئی غلط انفارمیشن اوپر بھجوا دی تو اس کو درست کرانا انتہائی پیچیدہ اور دشوار ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ایک نوے برس کے فالج زدہ بزرگ آدمی کا نام غلطی سے دہشتگردی کے خانہ میں ڈل گیا۔ اب اس نام کو فہرست میں سے نکلوانا اتنا مشکل تھا کہ اس پر کئی ماہ صَرف ہو گئے۔ اس طرح کئی نام بغیر تصدیق کے شامل کر دیے جاتے ہیں۔ نقطہ یہ ہے کہ ہمارے حساس اداروں کو بہت احتیاط، ذمے داری اور مربوط طریقے سے کام کرنا چاہیے۔

مجھے دونوں مدارس میں دہشتگردی کے خلاف حکومتی اقدامات کی بھرپور تائید نظر آئی۔ مجموعی طور پر ہمارے پاس پچاس ہزار دینی مدارس ہیں۔ بیس لاکھ کے لگ بھگ طلباء اور طالبات دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے تمام مدارس جامعہ اشرفیہ اور جامعہ منتظر کی طرح کے ہیں؟ جواب ہے کہ نہیں مگر کیا تمام مدارس کے طلباء دہشتگردی میں ملوث ہیں؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ میں مدارس کی ایک ہزار سال کی تاریخ پڑھ رہا ہوں۔ مجھے اس میں کچھ وقت درکار ہے۔ صدیوں سے موجود ایک تعلیمی اور سوشل سیکیورٹی کے بہترین نظام کو برباد کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دینی مدارس کے ایک فیصد سے بھی کم طلباء صرف چالیس سال میں وہ کام کرنے پر اتر آئے ہیں جو انھوں نے ساڑھے نو سو برس نہیں کیا؟

میں طالبان کی دہشت گردی کا بھرپور نقاد ہوں۔ انھیں سزا ملنی چاہیے مگر ٹھوس ثبوت کے بغیر تمام مدارس کو کٹہرے میں کھڑا کرنا دانشمندی نہیں۔ جو چند مدرسے دہشتگردی میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ مجھے ایک مذہبی عالم کی بات یاد آ رہی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں جن قوتوں نے فرقہ پرستی اور دہشتگردی کی راہ پر لگایا، ان کا محاسبہ کون کرے گا۔ ہم لوگ دہشتگرد نہیں ہیں لیکن اگر ہمیں زبردستی اس خطاب سے نوازا گیا، تو ہمیں اس راہ پر مجبوراً چلنے سے کون روک سکتا ہے۔ ہماری تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ مگر میں سوچ رہا ہوں کہ اس ماحول میں مدارس کی آواز کون سنے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں