معاشرتی سرد مہری اور موت سے لڑتی زندگی
اب ہیپاٹائیٹس پھیلے گا نہیں تو اور کیا ہوگا۔ جب ہیپاٹائیٹس سی آپ کا جگر مکمل ناکارہ کردے گا،
www.facebook.com/draffanqaiser
وہ ایک برف کا دریا تھا،درجہ حرارت منفی دس تک تھا اور خون جما جا رہا تھا۔یہاں سب کچھ ہی حیران کردینے والا تھا۔یہ چین کا تیسرا بڑا شہر تھا۔سیاح کم تھے۔ہر کوئی افراتفری میں تھا،مگر یہاں زندگی زندہ تھی۔ جب جب برف کے دریا پر نظر جمنے لگتی ، مجھے اس خاتون کا بہتا لہو نظر آنے لگتا۔وہ میری مریض تھی۔عمر چالیس سے کچھ اوپر ،آنکھیں انڈے کی زردی جیسی پیلی، پیٹ پھولا ہوا اور بار بار خون کی الٹیاں۔اس عورت کی اس حالت کا ذمے دار کون تھا۔شائد اس دریا کی برف کی طرح منجمد سرد رویے،ہماری پالیسیاں،جہالت یا ہماری معاشرتی گراوٹ۔
وہ آٹھ بچوں کی ماں تھی،تعلق جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے سے تھا اور تمام بچے سرکار کے بنائے اسپتالوں میں بڑے آپریشن کے ذریعے اس دنیا پر آئے تھے۔اس عورت کی ایک خوش قسمتی تھی کہ اس وقت میں اس کی اولاد اور آگے ان کی اولاد اس کے ساتھ تھی،بار بار رش کرنے اور شور مچانے کی وجہ سے وارڈ سے نکالے جانے کے باوجود وہ پھر آجاتے۔اس خوش قسمتی کے علاوہ جو تھا وہ سردیوں کی بدقسمتی تھی۔انگلینڈ میں مجھے یاد پڑتا ہے،بڑے آپریشن یعنی سی سیکشن سے تین سے زائد بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہے اور سچ پوچھیں تو ایسا مہذب معاشروں میںقانون کے بغیر بھی کرنے سے گریز ہی کیا جاتا ہے۔
اگر یہ خاتون وہاں پہنچ جاتیں تو یقینا ان کو ڈاکٹر کم اور تحقیق والے زیادہ دیکھنے آتے مگر پاکستان میں یہ معمولی بات ہے۔اب جب یہ معمولی ہے تو اتنے بڑے پیمانے پر آبادی کے تناسب سے انتہائی کم اسپتالوں میں آلات جراحی کی صفائی ناقص ہونا بھی معمولی ہے۔ ایسے میں خون کی بیماریاں خاص کر ہیپاٹائیٹس سی بھی عام ہونا معمولی ہے، مگر اس بیماری سے جو ہوتا ہے وہ ہر گز معمولی نہیں ہے۔یہاں ایک بات تمام قارئین کو معلوم ہونی چاہیے کہ آپ کسی بھی اسپتال کا رخ کریں تو کسی بھی جراحی کے عمل سے گزرنے سے پہلے آپ کو یہ حق مکمل حاصل ہے کہ آپ آلات جراحی کے مکمل Sterilize پر اصرار کریں اور یہی نہیں آپ اس پر قانونی چارہ جوئی کا بھی حق محفوظ رکھتے ہیں۔مگر جہاں ڈاکٹروں کی منتوں ترلوں سے جلد آپریشن اور سفارشوں کے انبار لگائے جاتے ہوں وہاں یہ سب بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔اب ہوتا کیا ہے؟
ہوتا یہ ہے کہ آپریشن تھیٹرز میں کام کرنے والے اسٹنٹس اور دیگر عملہ کو ان کی صفائی پر معمور کردیا جاتا اور یہاں سرد مہری اور معاشرتی سستی اور کاہلی اور اپنا کام دکھا جاتی ہے۔ جراحی کے آلات اور آپریشن سے جڑی دیگر میڈیکل مصنوعات کی Sterilization کا عمل جسے سخت مانیٹرنگ میں کیا جانا چاہیے وہ اس عملہ کے ہاتھ میں آجاتا ہے ،یوں صرف پانی میں ابال کر یا بعض دفعہ کپڑا اور سادہ پانی مارکر جراحی کے آلات اگلے آپریشن کے لیے Sterilize ہوجاتے ہیں ، اور یوں بڑے بڑے بوائلرز ، Auto-claves اور اس Sterilization کے لیے خریدی گئی دیگرکروڑوں کی مشینری کسی کام کی نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک سے دوسرے میں خون کی سنگین بیماریاں بالخصوص ہیپاٹائیٹس سی منتقل ہوجاتا ہے۔
یہاں کہانی ختم نہیں ہوتی، یہاں سے کہانی شروع ہوتی ہے،جب ایک عورت آٹھ بار خواہ مخواہ کے جراحی کے عمل سے گزرتی ہے تو کسی ایک نہ ایک میں وہ ایسے اوزاروں کا نشانہ بن جاتی ہے اور اگر پہلے سے نشانہ ہوتی ہے تو گائنی تھیٹرز یا دیگر تھیٹرز میں کسی اور کو نشانہ بنانے کے لیے تحفہ چھوڑ جاتی ہے۔ اسپتالوں کے علاوہ ، درختوں کے نیچے کھلے مردوں کے سستے بیوٹی سیلونز بھی ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کی اہم وجہ ہیں۔ خیر ہیپاٹائیٹس سی ہوگیا،اب آگے کی کہانی مزید بھیانک ہوگی۔مریض کو چند سال تو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ اس کو یہ مرض ہوچکا ہے،اور جب پتہ چلے گا یا تو بہت دیر ہوچکی ہوگی یا پھر اس کے پاس اس کے علاج کے پیسے نہیں ہوں گے یا پھر وہ اسے لاعلاج مرض سمجھ کر موت کا انتظار کرنے لگ جائے گا۔
یہاں قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہیپاٹائیٹس سی کا علاج جو پہلے انجیکشنزسے ہوتا تھا ،وہ اب کھانے والی دوا کے ذریعے ممکن ہے۔یہ دعا چند سال پہلے امریکا میں دریافت کی گئی اور اس کے علاج کی قیمت امریکا میں تقریبا ایک کروڑ ہے، مگر پاکستان،بھارت،بنگلہ دیش جیسے ممالک میں جہاں ہیپاٹائٹس سی ( کالا یرقان) وبائی شکل اختیار چکا ہے ،وہاں یہ علاج مصر کی حکومت کی مدد سے صرف تیس سے چالیس ہزار روپے ماہانہ میں ممکن ہے اور ہیپاٹائیٹس سی کی قسم کے مطابق یہ علاج تین سے چھ ماہ تک کرنا ہوتا ہے۔
اب ہیپاٹائیٹس پھیلے گا نہیں تو اور کیا ہوگا۔ جب ہیپاٹائیٹس سی آپ کا جگر مکمل ناکارہ کردے گا، جگر جو آپ کے جسم میں گندے مادے صاف کرنے اور دیگر کاموں پر مامور ہوتا ہے، وہ اس نوکری سے مستعفی ہوجائے گا اور یوں جہاں آپ کے پیٹ میں پانی پڑنا شروع ہوجائے گا،وہیں آپ کے جگر کی خون کی نالیوں میں پریشر بڑھنے سے آپ کے معدے اور جسم کی دیگر خون کی نالیوں میں پریشر بڑھ جائے گا اور وہ کسی بھی وقت پھٹ کر خون کی الٹیوں یا دیگر جسمانی حصوں سے خون بہنے کا سبب بنیں گی اور یوں مریض جلد موت کے منہ میں چلا جائے گا اسے دیگر الفاظ میںBleeding to Death کہا جاسکتا ہے۔دماغ میں گندے مادے مزید بڑھیں گے اور مریض دماغی طور پر بھی شدید متاثر ہوجائے گا۔اب حل کیا ہے۔
پہلا مرحلہ مکمل بچاؤ ہے،اس کے لیے حکومت، ڈاکٹروں،پیرا میڈیکل اسٹاف اور بالخصوص عوام پر سب سے بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔کم بچے ہوں، ہر قسم کے آپریشن صاف ستھرے ہوں ۔اب دوسرا مرحلہ تشخیص کا ہے ،اس میں حکومتی سطح پر پولیو کی طرح مہم چلا کر اس مرض میں مبتلا لوگوں کو ان کے مرض کے بارے میں آگاہ کرنا شامل ہے۔ تیسرا مرحلہ علاج کا ہے، مصری حکومت نے ان تیسری دنیا کے ممالک کے لیے اتنی مہربانی کردی ،اب ہمارے کام ہے کہ علاج کی سہولتوں تک رسائی کے لیے اس مرض میں مبتلا انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
آخری مرحلہ جگر کے ناکارہ ہونے کے بعد،جگر کی پیوندکاری ہے۔اس سلسلے میں تمام قصور حکومتی سست روی اور قوانین کا ہے۔ ملک میں جگر کی پیوندکاری کے ادارے ہیں ہی نہیں اور جو ہیں ،وہ چند ڈاکٹروں کے احسانات کی وجہ سے ہیں،ان کے لیے حکومتی سطح پر کچھ نہیں کیا گیا،اور بیرونِ ملک علاج میں ہمارے لیے چین اور بھارت کی آپشن موجود ہے،مگر اس کے لیے کروڑوں میں رقم چاہیے ،جو غریب ملک اپنی عوام کو نہیں دے سکتے۔
وہ ایک برف کا دریا تھا،درجہ حرارت منفی دس تک تھا اور خون جما جارہا تھا، عبور کرکے اپنی جگر کی پیوندکاری کی بطور فزیشن ٹریننگ مکمل کرنے اسپتال پہنچا تو اردن کے ایک جج صاحب سے ملاقات ہوئی،انھوں نے اپنے جیسے کئی اور مریضوں سے میری ملاقات کرائی،وہ سب چین سے Cadaveric liver transplant کرانے آئے تھے کہ جس میں چین کے کسی سزائے موت کے قیدی یا ایکسیڈنٹ میں دماغی موت کا شکار انسان کا جگر ان مریضوں کو لگایا جاتا تھا۔ اس علاج پر پاکستانی سوا تین کروڑ روپے لاگت آتی ہے۔آپ یہ سن کر حیران ہوں گے، سعودی عرب،مشرقی وسطی، اردن، مصر، ترکی، یونان اور دیگر ممالک سے آئے ہر مریض کو ان کی حکومتوں نے یہاں علاج کے لیے بھیجا تھا، یہ سب ان کی قوم کے ٹیکسوں کا پیسہ تھا،جس کا جائز حق ادا ہورہا تھا، اور ان میں سے کوئی بھی سرکاری ملازم نہیں تھا۔
یہاں افسوس کے ساتھ کسی پاکستانی کا Living donor transplant جس کی لاگت تقریبا ایک کروڑ روپے تھی،حکومتی سطح پر نہیں کرایا جا رہا تھا،ماسوائے چند ایک کے جو یہاں سیاسی زور پر علاج کرانے آئے تھے۔یعنی ہمارے ہاں ہمارے ٹیکسوں کے پیسے سے بھی علاج ہو رہا تھا۔یہاں واقعی سب کچھ ہی حیران کردینے والا تھا۔یہ چین کا تیسرا بڑا شہر تیانجن تھا۔سیاح کم تھے۔ہر کوئی افراتفری میں تھا مگر ہاں یہاں زندگی زندہ تھی۔ جگر کی پیوندکاری کی ٹریننگ سمیت جہاں مجھے اس شہر نے بہت کچھ سکھایا،وہاں برف کے دریا پر جمتی نظروں اور اس پر آٹھ بچوں کی ماں کے بہتے لہو نے یہ بھی سکھا دیا کہ جہاں سب مصلحت ، مجبوری ،ڈر،خوف کی خاموش مزاجی کی آڑ میں معاشرتی سرد مہری منجمد کر دے،وہاں زندگی موت سے لڑتی نظر آتی ہے اور چیخ چیخ کر ایک گونج یہی کہتی سنائی دیتی ہے۔
خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو