موٹروے ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کی عوامی سماعت نہیں کی گئی
وزیر اعظم نے افتتاح تو کردیا لیکن ماحولیاتی تجزیے کے علاوہ دیگرمعاملات پر بھی لوگوں کو تحفظات ہیں
وزیراعظم نواز شریف نے ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کی عوامی سماعت کے بغیر ہی موٹر وے کراچی تا حیدرآباد سیکشن کا افتتاح کردیا۔
کراچی حیدرآباد سیکشن کے ماحولیاتی اثرات پرعوام کے شدید تحفظات کے باعث ملائشین کمپنی پہلے ہی اس پروجیکٹ کو چھوڑچکی ہے کیونکہ عوامی اعتراضات دورکرنے میں مشکلات کا سامنا تھا، تقریبا اسی ڈیزائن پر موجودہ حکومت نے دوبارہ موٹر وے کے منصوبے پرعملدرآمد کرنے کے لیے اس کا افتتاح کردیا ہے لیکن تعمیر سے پہلے بنیادی شرط پوری نہیں کی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے11مارچ کوکراچی لاہور موٹر وے کے کراچی حیدرآباد سیکشن کا افتتاح کیا لیکن تاحال اس سیکشن کی ای آئی اے (Environmental impact assessment) نہیں ہوئی ہے جبکہ ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کے بغیرکوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا۔
اس کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے سمندر کے ساحل پرایٹمی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لیے کینپ کے توسیعی منصوبوں کے متعلق ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کی عوامی سماعت نہ ہونے کے باعث معاملہ سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیاگیااورعدالت نے منصوبے کی ای آئی اے کرانے اور ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ سے اس کی منظوری لینے کاپابندکیا ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ 2011-12ء میں ملائشین کمپنی بیناپوری (Bina puri)نے کراچی حیدرآباد سیکشن کے لیے عوامی سماعت کا اہتمام کیا تھا جس میں شریک ہونے والے مقامی افراد نے موقف اختیارکیا تھا کہ ان کی زمینیں سپر ہائی وے کے اطراف میں واقع ہیں، حکومت نے ان کی لیزجاری کی ہے۔
ان کی رہائش سپرہائی وے کے ایک طرف اور قبرستان دوسری جانب ہیں اگر سپر ہائی وے کو موٹر وے میں تبدیل کیا گیا اور اس کے اطراف باڑ تعمیر کی گئی تو ان کے خاندانی قبرستان تک پہنچنے کے راستے مشکل ہوجائینگے، اس کے علاوہ ٹرانسپورٹرز کا موقف تھا کہ موٹر وے پرسفرکرنے والی گاڑیوں کوبھاری ٹول ٹیکس اداکرناہوگا اور ہزاروں عوام کے لیے مشکلات ہونگی،اس کے علاوہ معمول کی ٹرانسپورٹ کے لیے نیشنل ہائی وے کے علاوہ متبادل راستہ نہیں رہے گاجوکہ انٹرسٹی سفر کے لیے معیارکے مطابق نہیں ہے۔
دوسری جانب موٹر وے کے لیے خصوصی طور پر نئی گاڑیاں درکار ہوںگی اورصوبے میں موجود بڑی تعداد میں وہ گاڑیاں جو اس وقت سپرہائی وے پر سفر کے لیے استعمال ہوں گی وہ ناکارہ ہو جائیں گی، دوسری جانب سی این جی اسٹیشنز اور پٹرول پمپس کے مالکان نے بھی سندھ ہائیکورٹ میں باڑ کی وجہ سے اپنے کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کے متعلق درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں، واضح رہے کہ ملائشین کمپنی نے 25سال کے لیے بی ٹی اوکی بنیاد پرموٹر وے کی تعمیر اور اس کے ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کے لیے عوامی سماعت منعقد کرائی تھی لیکن عوامی شکایات اورادارہ تحفظ ماحولیات سندھ سے منظوری نہ ملنے کے باعث یہ منصوبہ چھوڑدیا تھا۔
کراچی حیدرآباد سیکشن کے ماحولیاتی اثرات پرعوام کے شدید تحفظات کے باعث ملائشین کمپنی پہلے ہی اس پروجیکٹ کو چھوڑچکی ہے کیونکہ عوامی اعتراضات دورکرنے میں مشکلات کا سامنا تھا، تقریبا اسی ڈیزائن پر موجودہ حکومت نے دوبارہ موٹر وے کے منصوبے پرعملدرآمد کرنے کے لیے اس کا افتتاح کردیا ہے لیکن تعمیر سے پہلے بنیادی شرط پوری نہیں کی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے11مارچ کوکراچی لاہور موٹر وے کے کراچی حیدرآباد سیکشن کا افتتاح کیا لیکن تاحال اس سیکشن کی ای آئی اے (Environmental impact assessment) نہیں ہوئی ہے جبکہ ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کے بغیرکوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا۔
اس کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے سمندر کے ساحل پرایٹمی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لیے کینپ کے توسیعی منصوبوں کے متعلق ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کی عوامی سماعت نہ ہونے کے باعث معاملہ سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیاگیااورعدالت نے منصوبے کی ای آئی اے کرانے اور ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ سے اس کی منظوری لینے کاپابندکیا ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ 2011-12ء میں ملائشین کمپنی بیناپوری (Bina puri)نے کراچی حیدرآباد سیکشن کے لیے عوامی سماعت کا اہتمام کیا تھا جس میں شریک ہونے والے مقامی افراد نے موقف اختیارکیا تھا کہ ان کی زمینیں سپر ہائی وے کے اطراف میں واقع ہیں، حکومت نے ان کی لیزجاری کی ہے۔
ان کی رہائش سپرہائی وے کے ایک طرف اور قبرستان دوسری جانب ہیں اگر سپر ہائی وے کو موٹر وے میں تبدیل کیا گیا اور اس کے اطراف باڑ تعمیر کی گئی تو ان کے خاندانی قبرستان تک پہنچنے کے راستے مشکل ہوجائینگے، اس کے علاوہ ٹرانسپورٹرز کا موقف تھا کہ موٹر وے پرسفرکرنے والی گاڑیوں کوبھاری ٹول ٹیکس اداکرناہوگا اور ہزاروں عوام کے لیے مشکلات ہونگی،اس کے علاوہ معمول کی ٹرانسپورٹ کے لیے نیشنل ہائی وے کے علاوہ متبادل راستہ نہیں رہے گاجوکہ انٹرسٹی سفر کے لیے معیارکے مطابق نہیں ہے۔
دوسری جانب موٹر وے کے لیے خصوصی طور پر نئی گاڑیاں درکار ہوںگی اورصوبے میں موجود بڑی تعداد میں وہ گاڑیاں جو اس وقت سپرہائی وے پر سفر کے لیے استعمال ہوں گی وہ ناکارہ ہو جائیں گی، دوسری جانب سی این جی اسٹیشنز اور پٹرول پمپس کے مالکان نے بھی سندھ ہائیکورٹ میں باڑ کی وجہ سے اپنے کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کے متعلق درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں، واضح رہے کہ ملائشین کمپنی نے 25سال کے لیے بی ٹی اوکی بنیاد پرموٹر وے کی تعمیر اور اس کے ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کے لیے عوامی سماعت منعقد کرائی تھی لیکن عوامی شکایات اورادارہ تحفظ ماحولیات سندھ سے منظوری نہ ملنے کے باعث یہ منصوبہ چھوڑدیا تھا۔