عدم تحفظ کا شکار ہمارے نونہال

گزشتہ برسوں کے حالات اورواقعات گواہ ہیں کہ ہمارے ملک میں بچوں کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہے

S_afarooqi@yahoo.com

گزشتہ برسوں کے حالات اورواقعات گواہ ہیں کہ ہمارے ملک میں بچوں کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہے۔ حالانکہ یہی بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں۔ ہمارے نونہالوں کی غالب اکثریت کا تعلق ایسے مفلوک الحال گھرانوں سے ہے جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ مجبوراً ان بے چاروں کے والدین کو اپنے جگرگوشوں کو تلاش رزق کی خاطر در بہ در کے دھکے کھانے کے لیے بھیجنا پڑتا ہے۔چائلڈ لیبرکا مسئلہ ان ہی حالات کی پیداوار ہے۔

چنانچہ ہم بہت سے کمسنوں کو ٹی بوائے اور گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والوں کی صورت میں محنت اور مشقت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ عام بازاری زبان میں یہ بچے ''چھوٹے'' کہلاتے ہیں۔ ان بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد موٹر مکینکوں کی ورکشاپوں میں بھی استادوں کے زیر سایہ کام کرتی ہے۔

انتہا تو یہ ہے کہ بسوں اور کوچوں کے مالکان ان بچوں سے کنڈکٹری کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں اور کوئی قانون یا قانونی ادارہ اس کام میں مداخلت کی جرأت کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ پیٹ کو بھرنے اور اپنے غریب اور نادار والدین کی مالی اعانت کی وجہ سے یہ بھولے بھالے بچے بسا اوقات اپنے آجروں کے ظلم و ستم اور زیادتی و جنسی ہوس کا نشانہ بھی بنتے ہیں اور بے روزگاری کا خوف انھیں زبان بندی پر مجبور کرتا ہے۔

مختلف اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں بچوں کی مجموعی صورتحال قطعی غیر تسلی بخش ہے۔ جبری مشقت اور اغوا کے واقعات عام ہیں جن کا ہمارے میڈیا، خصوصاً پریس میڈیا میں وقتاً فوقتاً بڑا چرچا ہوتا ہے اور پھر حسب معمول چند دنوں کے بعد معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔بچوں پر تشدد اور Child Abuse کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے روز بہ روز زور پکڑ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے کی بے حسی اور انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی ہے۔

یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی بچوں کے ساتھ بہت نامناسب سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کو معمولی سے معمولی غلطی پر سخت سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ معصوم راہ فرار تلاش کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور پڑھائی لکھائی کی طرف سے ان کا دل بالکل اچاٹ ہوجاتا ہے۔

اسکولوں میں Dropout کی شرح میں تشویش ناک اضافہ اس کا بنیادی سبب ہے۔ مشاہدے سے ثابت ہے کہ اسکولوں کی بہ نسبت عام مدارس میں اس سے بھی برا حال ہے۔ وہاں بچوں کے ساتھ جو واقعات پیش آتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ جنھیں ضبط تحریر میں بھی نہیں لایا جاسکتا۔ میڈیا کی آزادی کے موجودہ دور میں یہ واقعات کبھی کبھار منظر عام پر بھی آجاتے ہیں جن کی وجہ سے بڑی شرمندگی بھی ہوتی ہے اور تکلیف بھی۔

رہی بات بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی تو ان کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یعنی نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ یہ سہولت صرف گنتی کے ان چند ہی خوش نصیبوں کو میسر اور دستیاب ہے جو اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے تاجر اور ساہوکار یا اعلیٰ سرکاری عہدے دار اور وزرائے کرام شامل ہیں جن کے بچوں کی غالب اکثریت اندرون ملک اور بیرون ملک بہترین تعلیم حاصل کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گدڑی کے لعل اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر فرش سے عرش پر پہنچ جایا کرتے تھے۔ ہم نے نہ صرف وہ دور دیکھا ہے بلکہ بذات خود بھی اس دور سے گزر کر آئے ہیں۔ اس دور میں ترجیح اہلیت اور لیاقت کی بنیاد پر دی جاتی تھی اور فیصلہ Source سفارش یا دولت و ثروت کے بجائے خالصتاً میرٹ کی بنا پر کیا جاتا تھا۔ اس لیے ممکن نہ تھا کہ کسی غریب کا باصلاحیت بچہ نظرانداز ہوجائے اور کسی بڑے باپ کا نالائق بچہ صرف پیسے یا عہدے کے زور پر منتخب ہوکر آگے چلا جائے۔


ہمارے آج کے معاشرے میں غربت سب سے بڑا جرم ہے جس کے لیے کوئی معافی تلافی نہیں ہے۔ بہ قول شاعر:

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

جنسی بے راہ روی کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان ہمارے معاشرے کے زوال کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ اس حوالے سے وطن عزیز میں بعض واقعات ایسے بھی رونما ہورہے ہیں جن پر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں بچوں کے ایک اسپتال میں ایک ایسا ہی انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا جس نے درندوں کو بھی مات کردیا۔ کسی وحشی نے ایک سات سالہ معصوم بچی کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا ۔

اس سے بھی زیادہ شرم ناک واقعہ پچھلے سال پیش آیا تھا جب ایک معصوم ننھی کلی کو اس کے گھر کے باہر سے اغوا کرکے کسی درندہ صفت شخص نے اپنی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور پھر اس کے بعد ایک اسپتال کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ گزشتہ دو ماہ کے عرصے میں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے متعدد واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں لاہور کے علاقے اسلام پورہ میں ایک پانچ سالہ معصوم لڑکی کے ساتھ زیادتی کا روح فرسا واقعہ بھی پیش آیا تھا جس میں ایک اسکول کو استعمال کیا گیا تھا۔

مذکورہ بالا واقعات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے بچے کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں حتیٰ کہ اس سے اسکول، مساجد اور اسپتال بھی مبرا نہیں ہیں۔ بچوں کے عدم تحفظ کے موضوع پر Street of Shame کے عنوان سے فلمائی گئی ایک Documentary میں پشاور کے اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اس دستاویزی فلم کو دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگتا ہے اور شیم، شیم کے الفاظ بے اختیار منہ سے نکلنے لگتے ہیں۔

دس لاکھ کے لگ بھگ یہ لاوارث اور مظلوم اسٹریٹ چلڈرن بردہ فروشوں اور جنسی کاروبار کرنے والے درندہ صفت دلالوں کے رحم و کرم پر ہیں جنھیں نہ کوئی پاس شرم و حیا ہے اور نہ ذرا سا بھی خوف خدا۔ ایک سروے کے مطابق ان میں سے 99 فیصد بچے وہ ہیں جنھیں جو جنسی ہوسناکی کا نشانہ بنائے جاچکے ہیں۔ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں 85 فیصد افراد کا تعلق ٹرک ڈرائیونگ کے پیشے سے بتایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک ممتاز قانون داں کا کہنا ہے کہ ''یہ زیادتی ہر جگہ ہو رہی ہے، بڑے شہروں میں، چھوٹے شہروں میں اور گاؤں دیہات میں۔''

یہ صورتحال ہم سب کے لیے انتہائی باعث تشویش اور چشم کشا ہے اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔ ہمیں نہ صرف اس جانب فوری انفرادی توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس پر اجتماعی غوروفکر بھی کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ریاستی اور حکومتی سطح پر بھی اس سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لیا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو فعال بنائے اور اس سلسلے میں ان کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے۔ ہماری قومی پارلیمان پر بھی یہ عظیم ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے تحفظ سے متعلق تمام مروجہ قوانین پر نظرثانی کرے اور ان قوانین میں پائی جانے والی خامیوں اور کمزوریوں کودور کرے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو نونہالوں کو مکمل تحفظ کی فراہمی کے لیے نئے سرے سے بلا تاخیر قانون سازی کرے۔ ہمارے بچے ہماری قوم کا مستقبل اورسب سے قیمتی اور عظیم ترین اثاثہ ہیں۔ اس لیے انھیں مزید بے توجہی کے ساتھ سماج دشمن عناصر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
Load Next Story