ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور نواز شریف کے وعدے

2مارچ 2015ء کو عافیہ صدیقی کی 43 ویں سالگرہ منائی گئی ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

ISLAMABAD:
2مارچ 2015ء کو عافیہ صدیقی کی 43 ویں سالگرہ منائی گئی ہے۔ 7 مارچ 2015ء کو سندھ کے دوسرے بڑے شہر' حیدرآباد، میں دوسرا قومی جرگہ منعقد ہوا جس میں شرکاء نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے رہا کرانے کے فوری اقدامات کیے جائیں۔ 2014ء کے کرسمس کے موقع پر ایک بہت بڑے بینر پر ایک لاکھ باضمیر افراد نے عافیہ کی رہائی کے لیے دستخط کیے اور بہت سے لوگوں نے کارسل جیل کے سامنے عافیہ کے حق میں زبردست مظاہرہ کیا تھا۔

امریکی ریاست ٹیکساس کی کارسل جیل میں قید پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام ہمارے ملک میں گونجتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں ایک امریکی فوجی پر قاتلانہ حملے کے الزام میں 86 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مقدمہ بالکل جھوٹا اور بیہودہ تھا۔ سزا تو بہت زیادہ ہے۔

ایم آئی ٹی ایسی ممتاز امریکی یونیورسٹی سے نیورو سائنس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ پانچ برس سے باقاعدہ حوالۂ زنداں ہیں۔ انھیں نیویارک کی ایک عدالت نے سزا سنائی تھی۔ فیصلے سے قبل بروکلین (نیویارک) کے جس قید خانے (میٹر پولیٹن ڈی ٹینشن سینٹر) میں انھیں رکھا گیا تھا، مَیں وہ مہیب عمارت دیکھ چکا ہوں۔ عافیہ اب ''قیدی نمبر 650'' کی حیثیت میں ہمارے حکمرانوں کے ضمیروں پر بوجھ بن گئی ہیں۔

جناب نواز شریف اقتدار میں نہیں تھے تو بار بار قیدی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں بیان ارشاد فرماتے تھے۔ وہ مستحکم لہجے میں یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے رہے ہیں کہ ہم اقتدار میں آئیں گے تو عافیہ کو امریکی جیل کے جہنم سے آزاد کرائیں گے۔ میرے سامنے ایسی تصاویر بھی پڑی ہیں جن میں میاں صاحب ڈاکٹر عافیہ کی چھوٹی ہمشیرہ فوزیہ اور ان کی والدہ کو دلاسے دیتے اور ان سے وعدے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک تصویر میں وہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ محترمہ کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھے دکھائی دے رہے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں، امریکی دورے سے قبل، وزیراعظم صاحب کراچی گئے تو ڈاکٹر عافیہ کے گھر بھی تشریف لے گئے۔ اس آمد میں انھوں نے کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں ڈاکٹر عافیہ کے خاندان سے وعدہ کیا تھا: ''آپ ہم پر بھروسہ کریں۔ یہ ہم ہیں جو ڈاکٹر صاحبہ کو واپس لائیں گے۔'' لیکن یہ وعدے محض طفل تسلیاں ثابت ہوئے۔

جناب نواز شریف ستمبر کے آخری ہفتے امریکا پہنچے۔ یو این او کی جنرل اسمبلی سے بھی خطاب کیا اور امریکی صحافیوں سے بھی ملے لیکن انھوں نے ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں امریکی حکومت اور امریکی میڈیا سے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ تو کیا ڈاکٹر عافیہ کے گھر جا کر وعدے کرنا محض پولیٹیکل اسٹنٹ تھا؟ جس وقت میاں صاحب کراچی میں ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کو تسلیاں اور دلاسے دے رہے تھے، وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان بھی وہاں موجود تھے۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا یہ بھی الزام ہے کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے جنوری ہی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا کیس امریکا سے واپس لے لیا تھا۔ مجموعی حیثیت سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرانے کی کوششوں کے پس منظر میں حکمرانوں کے دعووں کی بازگشت مدہم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہی ہو گئی ہے۔ اس بارے میں وزارت داخلہ کا کردار بھی ''ماٹھا'' نظر آ رہا ہے۔

امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو لمبی سزا دیتے ہوئے اگر یہ سوچا تھا کہ یوں امریکا اور مغربی ممالک کے مسلم نوجوانوں، جن میں مسلمان خواتین بھی شامل ہیں، کو جہادی بننے اور شدت پسندوں کا ساتھ دینے سے روکا جا سکے گا تو یہ مقصد ہر گز حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت امریکا و مغربی ممالک سے لاتعداد مسلمان نوجوانوں کا شام اور عراق جا کر ''داعش'' ایسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونا ہے۔


برطانیہ کے مسلم نوجوان محمد عمواضی المعروف ''جہادی جان'' نے تو مغرب کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ کویتی نژاد یہ برطانوی مسلمان نوجوان ''داعش'' کے ہاتھوں اغوا شدہ ایک امریکی صحافی جیمز فولی کا سر تلوار سے قلم کرتا پایا گیا ہے۔ عمواضی کا یہ اقدام ظالمانہ اور سفاکانہ ہے۔

اس نے قتل کی یہ بہیمانہ واردات کا ارتکاب کر کے اسلام اور عالمِ اسلام کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ اور برطانیہ کی تین نوجوان مسلمان خواتین نے گزشتہ ہفتے، براستہ ترکی، جس طرح عراق و شام کی اس ظالم اور خونخوار تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہے، اس نے تو برطانوی حکومت کو نئے سرے سے پریشان کر دیا ہے۔

یہاں اس امر کا ذکر بھی ازبس ضروری ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ''داعش'' اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں (مثلاً ''القاعدہ'' اور افریقہ میں بروئے کار ''بوکو حرام'') بعض امریکی و مغربی ممالک کے شہریوں کو اغواء کر کے جس طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے مشروط کر رہی ہیں، یہ طریقہ انتہائی غلط اور بے جا ہے۔

یہ اغوا کار اور دہشت گرد اس اسلوب میں فی الحقیقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس خراب کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو مغربی میڈیا کی طرف سے پہلے ''لیڈی القاعدہ'' کہنا، پھر ''گرے لیڈی آف بگرام'' کے نام سے یاد کرنا اور اب لیڈی ''داعش'' کہنا سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔

قید میں پڑی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حالات اس لیے قابلِ رحم اور وہ اس لیے بھی عفو و درگزر کی مستحق ہیں کہ ان کے سارے بچے رُل گئے ہیں۔ عافیہ کی متاہلانہ زندگی الجھی ہوئی اور پراسرار ہے۔ شوہر کے ساتھ ان کے معاملات بہت جلد بگاڑ کا شکار ہو گئے جو علیحدگی پر منتج ہوئے۔ ''جہاد'' کی محبت نے اس المیے میں عمل انگیز کا کام کیا۔

معصوم بچے ماں کے پاس تو رہے لیکن شفقتِ پدری سے محروم۔ نانی اور خالہ سرپرست بن گئیں جو ظاہر ہے باپ کا نعم البدل تو نہیں بن سکتیں۔ عافیہ کا بھائی تو اس قصے سے بالکل ہی لاتعلق ہے۔ یہ ایک پراسرار اور حیرت انگیز بات ہے۔ اگر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے پاس بھی پیسہ دھیلا نہ ہوتا تو اب تک وہ اپنی بڑی بہن کا یہ مقدمہ زندہ رکھنے میں کامیاب رہتیں نہ ان کی ''عافیہ موومنٹ'' کا وجود باقی رہتا۔ یہ ایک نہایت مشکل مہم ہے۔ وافر وقت اور وافر مقدار میں پیسہ درکار ہے۔

فوزیہ خوش قسمت ہیں کہ اپنے وطن کا میڈیا ان کا بھرپور ساتھ نبھاتا آ رہا ہے۔ فوزیہ صاحبہ نے پاکستانی میڈیا کے توسط سے عافیہ کے بچوں کے معاملات بھی دفن نہیں ہونے دیے۔

سوال مگر یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم سے جناب نواز شریف نے جو وعدہ کیا تھا، وہ اب تک ایفا کیوں نہ ہو سکا؟ کیا میاں صاحب بھی وعدوں کے حوالے سے اپنے سیاسی دوست، آصف زرداری کے نقشِ قدم پر چل نکلے ہیں؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے رہا کرانے کے لیے جناب نواز شریف جو وعدے کر چکے ہیں، امید ہے انھیں ''وعید'' نہیں بننے دیا جائے گا۔ قوم کو بجلی دینے کے جو وعدے کیے گئے تھے، وہ تو پورے نہیں کیے جا سکے، عافیہ کو واپس لانے کا وعدہ ہی پورا کر دیجیے۔
Load Next Story