فکری جنگ
انسان کو خالق فطرت نے دو قوتیں عنایت کی ہیں
انسان کو خالق فطرت نے دو قوتیں عنایت کی ہیں، ایک ذہنی اور دوسری جسمانی ، ان دونوں قوتوں کو انسان اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے اور ہر وقت اسے استعمال بھی کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے مخالف کو مسخر کرسکے۔ مخالف کی تسخیر بھی ان دو قوتوں کے اعتبار سے ہوتی ہے کہ مخالف کے جسم اور اس کے ذہن پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اس لیے ہم اور آپ دیکھتے ہیں دنیا کی تاریخ میں مروجہ ابلاغیات سے قبل بھی جنگ سے زیادہ اس کا پروپیگنڈا کیا جاتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ شاعر اور قصیدہ گو رکھے جاتے تھے جو اپنی قوم کی بہادری اور طاقت کے قصے، قصیدے سنا سنا کر لوگوں کے ذہنوں پر اپنی طاقت کا طلسم قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
دو حریف قوموں میں میدان جنگ سے زیادہ قصیدہ گوئی اور شاعری کا مقابلہ ہوتا تھا ۔ میدان جنگ میں بھی رجز خوانوں سے اپنے لشکر کی ہمت بڑھائی جاتی اور مخالف کو مرغوب کیا جاتا تھا ۔ گویا جسمانی اور ذہنی مقابلے دونوں ایک ساتھ جاری رہتے۔ ذہنی طاقت کی جنگ ہر دور میں رہی مگر گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں شروع ہونے والی صلیبی جنگوں کے اختتام پر اس نے ایک باقاعدہ جنگ کی حیثیت اختیار کرلی جسے فکری اور نظریاتی جنگ کا نام دیا گیا ۔
فکری جنگ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندیاں کی جانے لگیں اور اس کے باقاعدہ میدان وضع کیے گئے اور مخلتف تیکنیک اور حربے ایجاد ہوگئے جس سے اس کی گہرائی اور گھیرائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا حتی کہ آج اس جنگ نے دنیا بھر کو لپیٹ میں لے لیا۔
صلیبی مہموں کا ایک سبب مالی مفادات بھی تھے عالم اسلام میں اس وقت طاقت ور ترین خلافتیں موجود تھیں یہ عباسی خلافت دنیا کی سب سے بڑی حکومت تھی جس کی سرحدیں کئی کئی ممالک پر محیط تھیں ، یہاں مال و دولت کی فراوانی تھی، یہاں کی زندگی سہولیات اور وسائل سے آراستہ تھی ، علاج معالجہ ، نقل و حمل ، تعلیم، صنعت وحرفت ہر لحاظ سے مسلم ریاستیں ترقی یافتہ تھیں، یہاں کے عوام اور رعایا سب خوشحال تھے ۔
اناج اور فصلیں وافر مقدار میں موجود تھیں ، جب کہ دوسری طرف یورپ کو غربت اور افلاس نے گھیر رکھا تھا ، مسلم تاجروں کے قافلے دور دراز ملکوں تک مسلم مصنوعات پہنچا رہے تھے ، دنیا پر اسلامی ریاستوں کا سطوت اور دبدبہ قائم تھا ۔ پوپ اور بادشاہ اسلامی ممالک کی اس مالی ترقی پر حسد کی آگ میں جلتے تھے ، انھیں مسلمانوں کی خوشحالی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اس لیے صلیبی مہموں کی آڑ میں عیسائی عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے رہتے ۔ مسلمانوں کی مالی خوشحالی کے خلاف حاسدانہ جذبات عیسائیوں کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جاتی ۔
پوپ کے اربن کے الفاظ میں کہ ' فرانس انسانی آبادی سے تنگ پڑگیا ہے اور ارض ِ کنعان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔' یہ الفاظ نہایت واضح طور پر مسلم دشمنی کے اظہار کے طور پر نفرت کی غمازی کرتے ہیں۔ صلیبی جنگوں میں مسلم دشمنی میں پادریوں کی ترجیحات کو زیادہ تر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ عیسائی ممالک اُس وقت تمدنی لحاظ سے پستی کے پاتال میں گرے ہوئے تھے ۔
تہذیب، شائستگی ، اخلاق اور علمی ترقی کا نام و نشان تک ان میں ناپید تھا جب کہ دوسری جانب مسلم دنیا میں بڑے بڑے علمی مراکز قائم تھے ، بغداد، بصرہ اور کوفہ کی لائبریریاں پوری دنیا میں شہرت رکھتی تھیں، مسلمان محقق، علماء ، دانشور، فلاسفہ، سائنسدان ، ریاضی دان ،شعراء اور اہل فن اور صاحب صنعت و حرفت حضرات کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی ۔
صلیبی میدانِ جنگ میں ناکامیوں کے بعد اہل یورپ کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس وقت مسلم حکمرانوں کی طاقت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا اس لیے انھوں نے جنگ کے دوسرے پہلو کی جانب توجہ دی، اس جنگ کو تاریخ میں فکری جنگ کا نام دیا گیا جسے عربی میں الغزو الفکری کہا جاتا ہے۔
وہ غیر عسکری طریقہ کار جس کو اعدا ء اسلام خاص طور پر یہود و نصاری اسلام کے خلاف استعمال کرتے چلے آئے ہیں ، جس میں تعلیم ، تحقیق آزادی کے نام پر اسلامی مصادر و مراجع، کلیات و جزئیات علوم و معارف، عقائد و افکار کو یا تو تعصب اور عناد کی بنیاد پر زبردستی شک کے دائرے میں ڈال دیا جائے ۔ فکری جنگ میں تمام شعبہ جات کو مذموم سازشوں کے تحت اپنے شکنجے میں لے لیا جاتا ہے ۔
چاہے وہ گوشہ عقائد ہو، تعلیم ہو، تاریخ ہو، عقلیات ہو، فلسفہ ہو، معاشرت ہو، نفسیات ہو، ذرایع ابلاغ ہو، خواہ نظام تربیت ہو ۔ ایسی جنگوں کا اثر دیرپا رہتا ہے اور اثرات دیر تک قائم رہتے ہیں ۔عموماً فکری جنگ میں تین ذرایع استعمال کیے جاتے ہیں، تعلیم و تعلم ، رفاہی ادارے اور ذرایع و ابلاغ۔ 2001میں مغرب کی جانب سے صلیبی جنگوں کی طرز پر خاص انداز میں جہاں عسکری طاقت کا استعمال کیا گیا وہاں ایک فکری جنگ کا بھی آغاز کیا گیا ۔
جس میں اسلام کے تشخص کو مٹانا بھی شامل تھا اور یہی وجہ تھی کہ افغانستان سے لے کر دوبارہ افغانستان اور اب عراق و شام میں داعش کے نام سے کی جانے والی اسلام کے نام پر کارروائیاں دراصل کس کے اشارے پرکی جا رہی ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے مقاصد اسلام کا احیا ء ہے یا پھر اس کے پس پردہ وہ عزائم جس کے ذریعے کسی خاص تشخص کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
یہی وہ فکری جنگ ہے جو پاکستان میں جاری ہے اور اس کے پھیلانے والے ناپختہ اذہان کو اپنے مقاصد کے استعمال کرنے کے لیے مظلومیت کی وہ چادر پہن لیتے ہیں کہ شکار ہونے والوں کو اپنے ارد گرد کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر اس مضمون کے بالا سطور میں مغرب کا جائزہ ماضی کے برخلاف لیا جائے تو چند تبدیلی کے ساتھ اسے دوبارہ یوں پڑھا جاسکتا ہے۔
''انتہا پسند مہموں کا ایک سبب مالی مفادات بھی تھے عالم اسلام میں اس وقت طاقت ور ترین خلافتیں موجود نہیں بلکہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، جس کی سرحدیں کئی کئی ممالک پر محیط ہیں، یہاں مال و دولت کی فراوانی ہے، یہاں کی زندگی سہولیات اور وسائل سے آراستہ ہیں، علاج معالجہ ، نقل و حمل ، تعلیم ، صنعت و حرفت ہر لحاظ سے غیر مسلم ریاستیں ترقی یافتہ ہیں۔ یہاں کے عوام اور رعایا سب خوشحال ہیں ، اناج اور فصلیں وافر مقدار میں موجود ہیں ۔
جب کہ دوسری طرف بیشتر مسلم ممالک کو غربت اور افلاس نے گھیر رکھا ہے ، غیر مسلم تاجروں کے قافلے دور دراز ملکوں تک اپنی مصنوعات پہنچا رہے ہیں ، دنیا پر اسلامی ریاستوں کا سطوت اور دبدبہ قائم نہیں رہا ۔ پوپ اور بادشاہ سے اسلامی ممالک ان کی اس مالی ترقی پر حسد کی آگ میں جلتے ہیں، انھیں غیر مسلمانوں کی خوشحالی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ۔ غیر مسلمانوں کی مالی خوشحالی کے خلاف حاسدانہ جذبات غیر عیسائیوں کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
صلیبی جنگوں میں مسلم دشمنی میں پادریوں کی ترجیحات کو زیادہ تر مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا اب مسلمانوں کی انتہا پسند تنظیموں کو قرار دیا جاتا ہے ۔ تہذیب، شائستگی، اخلاق اور علمی ترقی کا نام و نشان تک ان میں ناپید ہے جب کہ دوسری جانب غیر مسلم دنیا میں بڑے بڑے علمی مراکز قائم ہیں، امریکا، برطانیہ اور یورپ کے مدارس پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔
غیر مسلمان محقق، علما ، دانشور ، فلاسفہ، سائنسدان ، ریاضی دان ، شعراء اور اہل فن اور صاحب صنعت و حرفت حضرات کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ صلیبی میدان جنگ میں ناکامیوں کے بعد اہل یورپ کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس وقت مسلم حکمرانوں کی طاقت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا اس لیے انھوں نے جنگ کے دوسرے پہلو کی جانب توجہ دی، اس جنگ کو تاریخ میں فکری جنگ کا نام دیا گیا جسے عربی میں الغزو الفکری کہا جاتا ہے اور وہ اس جنگ میں اب جیت چکے ہیں۔''
اس لیے ہم اور آپ دیکھتے ہیں دنیا کی تاریخ میں مروجہ ابلاغیات سے قبل بھی جنگ سے زیادہ اس کا پروپیگنڈا کیا جاتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ شاعر اور قصیدہ گو رکھے جاتے تھے جو اپنی قوم کی بہادری اور طاقت کے قصے، قصیدے سنا سنا کر لوگوں کے ذہنوں پر اپنی طاقت کا طلسم قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
دو حریف قوموں میں میدان جنگ سے زیادہ قصیدہ گوئی اور شاعری کا مقابلہ ہوتا تھا ۔ میدان جنگ میں بھی رجز خوانوں سے اپنے لشکر کی ہمت بڑھائی جاتی اور مخالف کو مرغوب کیا جاتا تھا ۔ گویا جسمانی اور ذہنی مقابلے دونوں ایک ساتھ جاری رہتے۔ ذہنی طاقت کی جنگ ہر دور میں رہی مگر گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں شروع ہونے والی صلیبی جنگوں کے اختتام پر اس نے ایک باقاعدہ جنگ کی حیثیت اختیار کرلی جسے فکری اور نظریاتی جنگ کا نام دیا گیا ۔
فکری جنگ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندیاں کی جانے لگیں اور اس کے باقاعدہ میدان وضع کیے گئے اور مخلتف تیکنیک اور حربے ایجاد ہوگئے جس سے اس کی گہرائی اور گھیرائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا حتی کہ آج اس جنگ نے دنیا بھر کو لپیٹ میں لے لیا۔
صلیبی مہموں کا ایک سبب مالی مفادات بھی تھے عالم اسلام میں اس وقت طاقت ور ترین خلافتیں موجود تھیں یہ عباسی خلافت دنیا کی سب سے بڑی حکومت تھی جس کی سرحدیں کئی کئی ممالک پر محیط تھیں ، یہاں مال و دولت کی فراوانی تھی، یہاں کی زندگی سہولیات اور وسائل سے آراستہ تھی ، علاج معالجہ ، نقل و حمل ، تعلیم، صنعت وحرفت ہر لحاظ سے مسلم ریاستیں ترقی یافتہ تھیں، یہاں کے عوام اور رعایا سب خوشحال تھے ۔
اناج اور فصلیں وافر مقدار میں موجود تھیں ، جب کہ دوسری طرف یورپ کو غربت اور افلاس نے گھیر رکھا تھا ، مسلم تاجروں کے قافلے دور دراز ملکوں تک مسلم مصنوعات پہنچا رہے تھے ، دنیا پر اسلامی ریاستوں کا سطوت اور دبدبہ قائم تھا ۔ پوپ اور بادشاہ اسلامی ممالک کی اس مالی ترقی پر حسد کی آگ میں جلتے تھے ، انھیں مسلمانوں کی خوشحالی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اس لیے صلیبی مہموں کی آڑ میں عیسائی عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے رہتے ۔ مسلمانوں کی مالی خوشحالی کے خلاف حاسدانہ جذبات عیسائیوں کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جاتی ۔
پوپ کے اربن کے الفاظ میں کہ ' فرانس انسانی آبادی سے تنگ پڑگیا ہے اور ارض ِ کنعان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔' یہ الفاظ نہایت واضح طور پر مسلم دشمنی کے اظہار کے طور پر نفرت کی غمازی کرتے ہیں۔ صلیبی جنگوں میں مسلم دشمنی میں پادریوں کی ترجیحات کو زیادہ تر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ عیسائی ممالک اُس وقت تمدنی لحاظ سے پستی کے پاتال میں گرے ہوئے تھے ۔
تہذیب، شائستگی ، اخلاق اور علمی ترقی کا نام و نشان تک ان میں ناپید تھا جب کہ دوسری جانب مسلم دنیا میں بڑے بڑے علمی مراکز قائم تھے ، بغداد، بصرہ اور کوفہ کی لائبریریاں پوری دنیا میں شہرت رکھتی تھیں، مسلمان محقق، علماء ، دانشور، فلاسفہ، سائنسدان ، ریاضی دان ،شعراء اور اہل فن اور صاحب صنعت و حرفت حضرات کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی ۔
صلیبی میدانِ جنگ میں ناکامیوں کے بعد اہل یورپ کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس وقت مسلم حکمرانوں کی طاقت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا اس لیے انھوں نے جنگ کے دوسرے پہلو کی جانب توجہ دی، اس جنگ کو تاریخ میں فکری جنگ کا نام دیا گیا جسے عربی میں الغزو الفکری کہا جاتا ہے۔
وہ غیر عسکری طریقہ کار جس کو اعدا ء اسلام خاص طور پر یہود و نصاری اسلام کے خلاف استعمال کرتے چلے آئے ہیں ، جس میں تعلیم ، تحقیق آزادی کے نام پر اسلامی مصادر و مراجع، کلیات و جزئیات علوم و معارف، عقائد و افکار کو یا تو تعصب اور عناد کی بنیاد پر زبردستی شک کے دائرے میں ڈال دیا جائے ۔ فکری جنگ میں تمام شعبہ جات کو مذموم سازشوں کے تحت اپنے شکنجے میں لے لیا جاتا ہے ۔
چاہے وہ گوشہ عقائد ہو، تعلیم ہو، تاریخ ہو، عقلیات ہو، فلسفہ ہو، معاشرت ہو، نفسیات ہو، ذرایع ابلاغ ہو، خواہ نظام تربیت ہو ۔ ایسی جنگوں کا اثر دیرپا رہتا ہے اور اثرات دیر تک قائم رہتے ہیں ۔عموماً فکری جنگ میں تین ذرایع استعمال کیے جاتے ہیں، تعلیم و تعلم ، رفاہی ادارے اور ذرایع و ابلاغ۔ 2001میں مغرب کی جانب سے صلیبی جنگوں کی طرز پر خاص انداز میں جہاں عسکری طاقت کا استعمال کیا گیا وہاں ایک فکری جنگ کا بھی آغاز کیا گیا ۔
جس میں اسلام کے تشخص کو مٹانا بھی شامل تھا اور یہی وجہ تھی کہ افغانستان سے لے کر دوبارہ افغانستان اور اب عراق و شام میں داعش کے نام سے کی جانے والی اسلام کے نام پر کارروائیاں دراصل کس کے اشارے پرکی جا رہی ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے مقاصد اسلام کا احیا ء ہے یا پھر اس کے پس پردہ وہ عزائم جس کے ذریعے کسی خاص تشخص کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
یہی وہ فکری جنگ ہے جو پاکستان میں جاری ہے اور اس کے پھیلانے والے ناپختہ اذہان کو اپنے مقاصد کے استعمال کرنے کے لیے مظلومیت کی وہ چادر پہن لیتے ہیں کہ شکار ہونے والوں کو اپنے ارد گرد کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر اس مضمون کے بالا سطور میں مغرب کا جائزہ ماضی کے برخلاف لیا جائے تو چند تبدیلی کے ساتھ اسے دوبارہ یوں پڑھا جاسکتا ہے۔
''انتہا پسند مہموں کا ایک سبب مالی مفادات بھی تھے عالم اسلام میں اس وقت طاقت ور ترین خلافتیں موجود نہیں بلکہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، جس کی سرحدیں کئی کئی ممالک پر محیط ہیں، یہاں مال و دولت کی فراوانی ہے، یہاں کی زندگی سہولیات اور وسائل سے آراستہ ہیں، علاج معالجہ ، نقل و حمل ، تعلیم ، صنعت و حرفت ہر لحاظ سے غیر مسلم ریاستیں ترقی یافتہ ہیں۔ یہاں کے عوام اور رعایا سب خوشحال ہیں ، اناج اور فصلیں وافر مقدار میں موجود ہیں ۔
جب کہ دوسری طرف بیشتر مسلم ممالک کو غربت اور افلاس نے گھیر رکھا ہے ، غیر مسلم تاجروں کے قافلے دور دراز ملکوں تک اپنی مصنوعات پہنچا رہے ہیں ، دنیا پر اسلامی ریاستوں کا سطوت اور دبدبہ قائم نہیں رہا ۔ پوپ اور بادشاہ سے اسلامی ممالک ان کی اس مالی ترقی پر حسد کی آگ میں جلتے ہیں، انھیں غیر مسلمانوں کی خوشحالی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ۔ غیر مسلمانوں کی مالی خوشحالی کے خلاف حاسدانہ جذبات غیر عیسائیوں کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
صلیبی جنگوں میں مسلم دشمنی میں پادریوں کی ترجیحات کو زیادہ تر مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا اب مسلمانوں کی انتہا پسند تنظیموں کو قرار دیا جاتا ہے ۔ تہذیب، شائستگی، اخلاق اور علمی ترقی کا نام و نشان تک ان میں ناپید ہے جب کہ دوسری جانب غیر مسلم دنیا میں بڑے بڑے علمی مراکز قائم ہیں، امریکا، برطانیہ اور یورپ کے مدارس پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔
غیر مسلمان محقق، علما ، دانشور ، فلاسفہ، سائنسدان ، ریاضی دان ، شعراء اور اہل فن اور صاحب صنعت و حرفت حضرات کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ صلیبی میدان جنگ میں ناکامیوں کے بعد اہل یورپ کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس وقت مسلم حکمرانوں کی طاقت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا اس لیے انھوں نے جنگ کے دوسرے پہلو کی جانب توجہ دی، اس جنگ کو تاریخ میں فکری جنگ کا نام دیا گیا جسے عربی میں الغزو الفکری کہا جاتا ہے اور وہ اس جنگ میں اب جیت چکے ہیں۔''