ایک محبت کا نوحہ
اپنی بے باکانہ گفت گو سے ایک دنیا کو اپنے سحر میں جکڑے رکھنے والے گرو رجنیش المعروف اوشو سے متعلق کہا جاتا ہے
LONDON:
اپنی بے باکانہ گفت گو سے ایک دنیا کو اپنے سحر میں جکڑے رکھنے والے گرو رجنیش المعروف اوشو سے متعلق کہا جاتا ہے کہ بظاہر میلے کچیلے حلیے والا یہ شخص جب بولنا شروع کرتا تو اُس پہ گویا الفاظ کی بارش ہونے لگتی۔ بنا کسی تحریر شدہ اسکرپٹ کے یہ درویش گھنٹوں بولتا رہتا، اور سیکڑوں انسان اسی وجد کے ساتھ اسے سنتے رہتے۔
اُس کے لیکچرز پہ مبنی آڈیو کیسٹس سنتے ہوئے آج بھی کئی انسانوں پہ ایسی ہی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ فکری طور پر اوشو سے کبھی متاثر نہ ہونے کے باوجود، اُس کے سحر انگیز طرزِ تخاطب کی فتنہ پردازی سے میں بھی نہ بچ سکا۔ اس شخص کی جادو بیانی کو سنتے ہوئے مجھے اکثر خیال آتا ہے۔
وہ شخص جس کے طرزِ تکلم نے دنیا کے لاکھوں انسانوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا، وہ بظاہر مخبوط الحواس دِکھنے والا شخص ،کہ جس کے ایک ایک فقرے پہ سیکڑوں حسینائیں اپنے فتنہ گرحسن سے بے خبر جھومتی رہتی تھیں، وہ اگر کسی پہ فریفتہ ہوجائے اور اپنے مخصوص طرزِ تکلم میں اُس سے اظہارِمحبت کرنے لگے، تو اُس محبوبہ کا عالم کیا ہوگا،اْس عشق کا عالم کیا ہوگا؟ جیسے پکاسو یا صادقین اپنی محبوباؤں کا پورٹریٹ بناتے تو وہ کیسا ہوتا؟
بیت ہافن نے جو دُھن اپنی محبوبہ کے لیے بنائی ہوگی،وہ کیسی سحر انگیزہوگی؟ لتا نے کبھی اپنے محبوب کے سامنے گایا ہوگا، تو اُس کے سُرکا عالم کیا ہو گا؟ اور جب اعجاز منگی نے بھری جوانی میں اظہارِ عشق کیا ہوگا، تو اُس کا عالم کیا ہو گا؟ وہ شخص جس کی تحریروں کے فقرے، نوجوان پریم پتر میں لکھ کر اپنی محبوباؤں کو متاثرکرنے کی کوشش کرتے رہے، جب اُس نے کبھی کوئی پریم پتر لکھا ہوگا، تو عمر بھر محبت کے نوحے لکھنے والے اس شخص کا فن ، عروج کی کس سطح پہ ہوگا؟
مگر افسوس کہ اب یہ سب سوال تشنہ ہی رہ گئے کہ جس اکلوتی محبوبہ کے سامنے اس نے اپنے اس اکلوتے ہنر کا مظاہرہ کیا، وہ اسے زندگی کی تمام مسرتیں بہم پہنچا کر منوں مٹی تلے جا سوئی۔
آپ اگر اوشو سے واقف ہیں اور اعجاز منگی سے نہیں، تو قصور اس میں آپ کا نہیں، کہ ہم سب اُس معاشرے کی پیداوار ہیں جو اپنی پیداوار پہ بھروسہ کرنے کی بجائے 'بیرونی امداد' پہ زیادہ تکیہ کرتا ہے۔
جہاں ہمارے رویے 'گھرکی مرغی دال برابر' کا محاورہ تخلیق کرواتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب سندھ میں لوگ اخبار خبروں کے لیے نہیں، اعجاز منگی کا کالم پڑھنے کے لیے خریدتے تھے۔ اُس کے کالموں کی کٹنگز نوجوانوں کے اُن رجسٹروں میں بھری ہوئی ملتی تھیں، جن کے کورکے ایک جانب چی گویرا اور دوسری جانب محبوبہ کی مماثلت والی کسی انڈین اداکارہ کی تصویر ہوا کرتی تھی۔
عشق اور انقلاب کی مٹی سے گندھی اس کی تحریروں نے سندھ کی پوری ایک نسل کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ حتیٰ کہ آج بھی، جب کہ اُس کی تحریر اورمؤقف کئی جغادری دانشوروں کے ہاں متنازع ہوچکے، تب بھی کہیں نہ کہیں کسی ادبی میلے میں کتابوں کے کسی اسٹال پہ گھومتے ہوئے کوئی شخص آکر اس کے ہاتھ چومتا ہے اور نہایت عقیدت سے یہ کہتا ہوا رخصت ہو جاتا ہے کہ،'لکھتے رہیے، ہم آج بھی آپ کی ہر تحریر کے منتظر رہتے ہیں۔'
ایسی بے لوث عوامی محبت اُسی شخص کے حصے میں آ سکتی ہے، جو خود ایسی ہی بے لوث محبت میں مبتلا رہا ہو اور ہمارا یہ سخن دان اُس عمر میں اِس محبت کے سحر میں جکڑا گیا، جب اُس کی مسیں بھی ٹھیک سے ابھی نہیں بھیگی تھیں۔ محبت جب کسی کو شکار کرنا چاہے تو کسی ماہر شکاری کی طرح اپنا جال بچھاتی ہے۔
احساس، اپنائیت، قربت ، توجہ یہ سارے دانے چن چن کر اس جال میں بچھائے جاتے ہیں اور پھر سب سے بڑا ' تیر' وہ مقام ہوتا ہے، جہاں محبت اپنا دامن پھیلائے دو انسانوں کو اپنی آغوش میں بھر لیتی ہے۔ یوں تو ہر وہ مقام خاص بن جاتا ہے، جہاں دو دل مل جائیں، مگرمحبت جب خود کسی کو اپنی آغوش میں لینے کا تہیہ کر لے تو اس کے لیے خاص مقام کا تعین بھی کرلیتی ہے۔
سو قدرت، اپنی سیتا کو لینے اس رام کو موہن جو دڑو پہنچا دیتی ہے۔ رام، سیتا کو پہچان لیتا ہے۔ سندھ کے نام ور سیاسی دانشور رہنما رسول بخش پلیجو کی تیسری بیوی سے ہونے والی پہلی اولاد انیتا، یہیں کہیں موہن جودڑو کے کھنڈرات میں 'انیتا اعجاز' بن جاتی ہے۔دو روحیں اپنی تکمیل کا سفر آغاز کرتی ہیں۔
شیخ ایاز کے شہر شکار پورکا بانکا جوان، اپنی انقلابی سیاست میں محبت کی آمیزش کر لیتا ہے۔ نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جب شرابوں میں آملتی ہیں۔ ایک زندہ باپ کی یتیم بچی،اس محبت میں اُس پدرانہ شفقت کو تلاش کرتی ہے، جسے سیاست اور دانشوری کا آسیب کھا گیا اور پھر اس زمانے کی سیاست بھی کیا سیاست تھی۔ جب انقلاب ہی تمام تر سرگرمیوں کا محور ہوا کرتا تھا۔
محبت سے لے کر سبھی رشتے، سارے تعلق اسی کی بھینٹ چڑھائے جاتے تھے۔اس سے پہلے کہ یہ معصوم محبت بھی اسی انقلاب کی بَلی چڑھ جاتی،خود انقلاب ،مفادات کی سولی پہ جھول گیا۔ عشاق کے خوابوںکا قتلِ عام ہوا، دیوانے وحشتوں کی نذر ہوگئے، این جی اوز نامی اژدھا انقلابیوں کوکھا گیا، کئی سجدے آوارہ ہوگئے۔
بچ گئے وہ جو محبت کی آغوش میں آگئے۔ جنھوں نے نوکریوں، مراعات اور مفادات کی بجائے محبت کے سائبان میں پناہ لینے میں عافیت جانی۔ انقلاب کے ٹھکرائے ہوئے، انیتا اور اعجاز نے اُس سماج کو ہی ٹھکرا دیا،جس نے انقلاب کو ٹھکرایا تھا۔
تمام ترسماجی بندھنوں سے خود کو آزاد کر کے دونوں ایک دوسرے کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ دونوں بیک وقت محبوب بھی تھے اور عاشق بھی۔ سو دونوں ایک دوسرے کے ہم درد بھی، ہم راز بھی، ہم جولی بھی۔ باپ کی شفقت سے محروم انیتا کو اعجاز سے باپ کا پیار بھی ملا ، دوست کی رفاقت بھی۔ اس 'احسان' کے بدلے دوگبھروبیٹے اور ایک ننھی پوتی اپنے عاشق محبوب کے حوالے کر کے، بنا بتائے نہایت خاموشی سے وہ ہمیشہ کے لیے الوداع کر کے چلے گئی۔
میرا اعتماد ہے کہ محبت کی بھرپور عکاسی وہی شخص کر سکتا ہے جس نے جدائی کا جہنم جھیلا ہو یا جو وصل کی جنت میں ہو۔ ہمارے اعجاز نے انقلاب کی جدائی بھی جھیلی اور محبوبہ سے وصل کا مزہ بھی چکھا۔ اس 'حادثے' نے اس کی تحریرکو دوآتشہ کر دیا۔
محبتوں کے نوحے لکھنے میں اسے کمال حاصل رہا۔ ایک دوست کے بقول، سندھ میں کئی لوگوں نے یہ وصیت کر رکھی ہے کہ ان کی موت پر اعجاز منگی تعزیتی کالم ضرور لکھے۔ پتہ نہیں ، انیتا نے بھی کبھی اُس سے ایسی کوئی خواہش کی ہوگی یا نہیں۔عمر بھر مگر جس نے بے وقت بچھڑ جانے والے دوستوں کو اپنی لازوال تحریر کے پُرسے دیے، آج وقت سے پہلے ساتھ چھوڑ جانے والی اس کی محبوبہ کے دکھ پر اسے کیا پرسہ دیا جائے!
عمر بھر محبت لکھنے والے جس اعجازکا جنم موہن جو دڑو کے کھنڈرات میں انیتا نامی روح کے بدن میں ہوا تھا، تیس برسوں کی رفاقت کے بعد وہ اعجاز اسی انیتا کے بدن کے ساتھ، کراچی کے شاہ عنایت شہید قبرستان میں دفن ہوگیا۔ پیچھے جو اعجاز رہ گیا ہے، وہ محض اس کہانی کو سنانے کے لیے ہے، جس کا مسودہ صرف اسی کے سینے میں محفوظ ہے۔ تیس برس قبل، موہن جو دڑو کے کھنڈرات میں قدرت نے جس کہانی کا آغازکیا تھا، وہ مکمل ہو چکی۔ محبتوں کے نوحے لکھنے میں کمال رکھنے والے مصنف کو اب اس کا مسودہ زیبِ قرطاس کرنا ہے۔
قصہ گو، داستان آغازکرنے والا ہے۔ ہم سب ایک شاہکار کے منتظر ہیں۔
اپنی بے باکانہ گفت گو سے ایک دنیا کو اپنے سحر میں جکڑے رکھنے والے گرو رجنیش المعروف اوشو سے متعلق کہا جاتا ہے کہ بظاہر میلے کچیلے حلیے والا یہ شخص جب بولنا شروع کرتا تو اُس پہ گویا الفاظ کی بارش ہونے لگتی۔ بنا کسی تحریر شدہ اسکرپٹ کے یہ درویش گھنٹوں بولتا رہتا، اور سیکڑوں انسان اسی وجد کے ساتھ اسے سنتے رہتے۔
اُس کے لیکچرز پہ مبنی آڈیو کیسٹس سنتے ہوئے آج بھی کئی انسانوں پہ ایسی ہی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ فکری طور پر اوشو سے کبھی متاثر نہ ہونے کے باوجود، اُس کے سحر انگیز طرزِ تخاطب کی فتنہ پردازی سے میں بھی نہ بچ سکا۔ اس شخص کی جادو بیانی کو سنتے ہوئے مجھے اکثر خیال آتا ہے۔
وہ شخص جس کے طرزِ تکلم نے دنیا کے لاکھوں انسانوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا، وہ بظاہر مخبوط الحواس دِکھنے والا شخص ،کہ جس کے ایک ایک فقرے پہ سیکڑوں حسینائیں اپنے فتنہ گرحسن سے بے خبر جھومتی رہتی تھیں، وہ اگر کسی پہ فریفتہ ہوجائے اور اپنے مخصوص طرزِ تکلم میں اُس سے اظہارِمحبت کرنے لگے، تو اُس محبوبہ کا عالم کیا ہوگا،اْس عشق کا عالم کیا ہوگا؟ جیسے پکاسو یا صادقین اپنی محبوباؤں کا پورٹریٹ بناتے تو وہ کیسا ہوتا؟
بیت ہافن نے جو دُھن اپنی محبوبہ کے لیے بنائی ہوگی،وہ کیسی سحر انگیزہوگی؟ لتا نے کبھی اپنے محبوب کے سامنے گایا ہوگا، تو اُس کے سُرکا عالم کیا ہو گا؟ اور جب اعجاز منگی نے بھری جوانی میں اظہارِ عشق کیا ہوگا، تو اُس کا عالم کیا ہو گا؟ وہ شخص جس کی تحریروں کے فقرے، نوجوان پریم پتر میں لکھ کر اپنی محبوباؤں کو متاثرکرنے کی کوشش کرتے رہے، جب اُس نے کبھی کوئی پریم پتر لکھا ہوگا، تو عمر بھر محبت کے نوحے لکھنے والے اس شخص کا فن ، عروج کی کس سطح پہ ہوگا؟
مگر افسوس کہ اب یہ سب سوال تشنہ ہی رہ گئے کہ جس اکلوتی محبوبہ کے سامنے اس نے اپنے اس اکلوتے ہنر کا مظاہرہ کیا، وہ اسے زندگی کی تمام مسرتیں بہم پہنچا کر منوں مٹی تلے جا سوئی۔
آپ اگر اوشو سے واقف ہیں اور اعجاز منگی سے نہیں، تو قصور اس میں آپ کا نہیں، کہ ہم سب اُس معاشرے کی پیداوار ہیں جو اپنی پیداوار پہ بھروسہ کرنے کی بجائے 'بیرونی امداد' پہ زیادہ تکیہ کرتا ہے۔
جہاں ہمارے رویے 'گھرکی مرغی دال برابر' کا محاورہ تخلیق کرواتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب سندھ میں لوگ اخبار خبروں کے لیے نہیں، اعجاز منگی کا کالم پڑھنے کے لیے خریدتے تھے۔ اُس کے کالموں کی کٹنگز نوجوانوں کے اُن رجسٹروں میں بھری ہوئی ملتی تھیں، جن کے کورکے ایک جانب چی گویرا اور دوسری جانب محبوبہ کی مماثلت والی کسی انڈین اداکارہ کی تصویر ہوا کرتی تھی۔
عشق اور انقلاب کی مٹی سے گندھی اس کی تحریروں نے سندھ کی پوری ایک نسل کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ حتیٰ کہ آج بھی، جب کہ اُس کی تحریر اورمؤقف کئی جغادری دانشوروں کے ہاں متنازع ہوچکے، تب بھی کہیں نہ کہیں کسی ادبی میلے میں کتابوں کے کسی اسٹال پہ گھومتے ہوئے کوئی شخص آکر اس کے ہاتھ چومتا ہے اور نہایت عقیدت سے یہ کہتا ہوا رخصت ہو جاتا ہے کہ،'لکھتے رہیے، ہم آج بھی آپ کی ہر تحریر کے منتظر رہتے ہیں۔'
ایسی بے لوث عوامی محبت اُسی شخص کے حصے میں آ سکتی ہے، جو خود ایسی ہی بے لوث محبت میں مبتلا رہا ہو اور ہمارا یہ سخن دان اُس عمر میں اِس محبت کے سحر میں جکڑا گیا، جب اُس کی مسیں بھی ٹھیک سے ابھی نہیں بھیگی تھیں۔ محبت جب کسی کو شکار کرنا چاہے تو کسی ماہر شکاری کی طرح اپنا جال بچھاتی ہے۔
احساس، اپنائیت، قربت ، توجہ یہ سارے دانے چن چن کر اس جال میں بچھائے جاتے ہیں اور پھر سب سے بڑا ' تیر' وہ مقام ہوتا ہے، جہاں محبت اپنا دامن پھیلائے دو انسانوں کو اپنی آغوش میں بھر لیتی ہے۔ یوں تو ہر وہ مقام خاص بن جاتا ہے، جہاں دو دل مل جائیں، مگرمحبت جب خود کسی کو اپنی آغوش میں لینے کا تہیہ کر لے تو اس کے لیے خاص مقام کا تعین بھی کرلیتی ہے۔
سو قدرت، اپنی سیتا کو لینے اس رام کو موہن جو دڑو پہنچا دیتی ہے۔ رام، سیتا کو پہچان لیتا ہے۔ سندھ کے نام ور سیاسی دانشور رہنما رسول بخش پلیجو کی تیسری بیوی سے ہونے والی پہلی اولاد انیتا، یہیں کہیں موہن جودڑو کے کھنڈرات میں 'انیتا اعجاز' بن جاتی ہے۔دو روحیں اپنی تکمیل کا سفر آغاز کرتی ہیں۔
شیخ ایاز کے شہر شکار پورکا بانکا جوان، اپنی انقلابی سیاست میں محبت کی آمیزش کر لیتا ہے۔ نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جب شرابوں میں آملتی ہیں۔ ایک زندہ باپ کی یتیم بچی،اس محبت میں اُس پدرانہ شفقت کو تلاش کرتی ہے، جسے سیاست اور دانشوری کا آسیب کھا گیا اور پھر اس زمانے کی سیاست بھی کیا سیاست تھی۔ جب انقلاب ہی تمام تر سرگرمیوں کا محور ہوا کرتا تھا۔
محبت سے لے کر سبھی رشتے، سارے تعلق اسی کی بھینٹ چڑھائے جاتے تھے۔اس سے پہلے کہ یہ معصوم محبت بھی اسی انقلاب کی بَلی چڑھ جاتی،خود انقلاب ،مفادات کی سولی پہ جھول گیا۔ عشاق کے خوابوںکا قتلِ عام ہوا، دیوانے وحشتوں کی نذر ہوگئے، این جی اوز نامی اژدھا انقلابیوں کوکھا گیا، کئی سجدے آوارہ ہوگئے۔
بچ گئے وہ جو محبت کی آغوش میں آگئے۔ جنھوں نے نوکریوں، مراعات اور مفادات کی بجائے محبت کے سائبان میں پناہ لینے میں عافیت جانی۔ انقلاب کے ٹھکرائے ہوئے، انیتا اور اعجاز نے اُس سماج کو ہی ٹھکرا دیا،جس نے انقلاب کو ٹھکرایا تھا۔
تمام ترسماجی بندھنوں سے خود کو آزاد کر کے دونوں ایک دوسرے کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ دونوں بیک وقت محبوب بھی تھے اور عاشق بھی۔ سو دونوں ایک دوسرے کے ہم درد بھی، ہم راز بھی، ہم جولی بھی۔ باپ کی شفقت سے محروم انیتا کو اعجاز سے باپ کا پیار بھی ملا ، دوست کی رفاقت بھی۔ اس 'احسان' کے بدلے دوگبھروبیٹے اور ایک ننھی پوتی اپنے عاشق محبوب کے حوالے کر کے، بنا بتائے نہایت خاموشی سے وہ ہمیشہ کے لیے الوداع کر کے چلے گئی۔
میرا اعتماد ہے کہ محبت کی بھرپور عکاسی وہی شخص کر سکتا ہے جس نے جدائی کا جہنم جھیلا ہو یا جو وصل کی جنت میں ہو۔ ہمارے اعجاز نے انقلاب کی جدائی بھی جھیلی اور محبوبہ سے وصل کا مزہ بھی چکھا۔ اس 'حادثے' نے اس کی تحریرکو دوآتشہ کر دیا۔
محبتوں کے نوحے لکھنے میں اسے کمال حاصل رہا۔ ایک دوست کے بقول، سندھ میں کئی لوگوں نے یہ وصیت کر رکھی ہے کہ ان کی موت پر اعجاز منگی تعزیتی کالم ضرور لکھے۔ پتہ نہیں ، انیتا نے بھی کبھی اُس سے ایسی کوئی خواہش کی ہوگی یا نہیں۔عمر بھر مگر جس نے بے وقت بچھڑ جانے والے دوستوں کو اپنی لازوال تحریر کے پُرسے دیے، آج وقت سے پہلے ساتھ چھوڑ جانے والی اس کی محبوبہ کے دکھ پر اسے کیا پرسہ دیا جائے!
عمر بھر محبت لکھنے والے جس اعجازکا جنم موہن جو دڑو کے کھنڈرات میں انیتا نامی روح کے بدن میں ہوا تھا، تیس برسوں کی رفاقت کے بعد وہ اعجاز اسی انیتا کے بدن کے ساتھ، کراچی کے شاہ عنایت شہید قبرستان میں دفن ہوگیا۔ پیچھے جو اعجاز رہ گیا ہے، وہ محض اس کہانی کو سنانے کے لیے ہے، جس کا مسودہ صرف اسی کے سینے میں محفوظ ہے۔ تیس برس قبل، موہن جو دڑو کے کھنڈرات میں قدرت نے جس کہانی کا آغازکیا تھا، وہ مکمل ہو چکی۔ محبتوں کے نوحے لکھنے میں کمال رکھنے والے مصنف کو اب اس کا مسودہ زیبِ قرطاس کرنا ہے۔
قصہ گو، داستان آغازکرنے والا ہے۔ ہم سب ایک شاہکار کے منتظر ہیں۔