بھارت میں آٹھویں پاس پروفیسر تین برس تک یونی ورسٹی میں پڑھاتا رہا
ساتھی اساتذہ بھی روی کمار ریڈی کی قابلیت پر رشک کرتے تھے
ISLAMABAD:
گذشتہ دنوں بھارتی ریاست تامل ناڈو کے ضلع کانچی پورم سے ایک پروفیسر کو گرفتار کیا گیا۔
روی کُمار ریڈی نامی پروفیسر سویتا انجنیئرنگ کالج میں تین سال سے درس و تدریس میں مصروف تھا۔ گرفتاری کے بعد طلبا پر انکشاف ہوا تین سال سے انھیں پاور سسٹمز کا مضمون پڑھانے والا پروفیسر پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر نہیں بلکہ صرف آٹھ جماعت پاس ہے! اور اس کا اصل نام اشوک کمار چوہدری ہے۔
مڈل اسکول تک تعلیم حاصل کرنے والا اشوک، پروفیسر روی کمار ریڈی کیسے بنا؟ اس سوال کا جواب کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ ذہانت ثابت کرنے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر جب ذہانت، دھوکادہی کا لبادہ اوڑھ لے تو پھر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا جیسا کہ اس معاملے میں ہوا۔
گرفتاری کے بعد 35 سالہ ' پروفیسر' نے پولیس کو اپنی داستان سنائی۔ اشوک کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے تھا جس کے باسیوں کو دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر آتی تھی تو اشوک کی پڑھائی کا خرچ کیسے اٹھایا جاتا۔ لہٰذا وہ مڈل سے آگے نہ پڑھ سکا۔ مگر پڑھنے کی لگن اشوک کے دل میں موجود تھی۔ قدرت نے اسے ذہانت سے بھی نوازا تھا۔ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے اشوک ایک دکان پر ملازم ہوگیا۔ یہاں اس کا کام فوٹوکاپی کرنا تھا۔ دکان کے قریب ہی کالج تھا۔ کالج کے طالب علم فوٹوکاپی کروانے کے لیے اسی دکان پر آتے تھے۔ اکثر وہ اپنی کتابیں فوٹوکاپی کی غرض سے اشوک کے پاس چھوڑ جاتے تھے۔ اشوک ان کتابوں کی ایک اضافی نقل اپنے لیے بنالیتا تھا۔ فارغ وقت میں وہ یہ کتابیں پڑھا کرتا تھا۔
یہ سلسلہ کئی برس تک چلتا رہا۔ کتابوں کی عکسی نقول اشوک کی تعلیمی قابلیت بڑھاتی رہیں۔ قابلیت کے لحاظ سے اب اشوک کسی بھی ذہین اور گریجویٹ طالب علم سے کم نہیں تھا مگر عام رواج کے مطابق اپنی ذہانت ثابت کرنے لیے اس کے پاس کوئی ڈگری یا سند نہیں تھی۔ یہیں اس کے ذہن میں خیال پیدا ہوا کیوں نہ جعلی سند حاصل کی جائے۔
ابتدائی طور پر اس نے ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کا جعلی ڈپلوما بنوایا۔ اپنی قابلیت اور جعلی ڈپلومے کی بنیاد پر اسے ایک نجی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ باعزت طریقے سے زندگی گزارنے اور ترقی کرنے کی خواہش اشوک کے دل میں بہ درجہ اتم موجود تھی۔ اسی خواہش سے تحریک پاتے ہوئے اس نے اب ایم ایس سی کی جعلی سند حاصل کی اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر ملازم ہوگیا۔ اس دوران وہ ماسٹر اِن بزنس ایڈمنسٹریشن ( ایم بی ا ے) بھی ' ہو' گیا۔
کچھ عرصے کے بعد وہ دہلی پہنچا اور یہاں ایک انسٹیٹیوٹ میں سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنگ ٹیکنیشن ( CAT ) کے کورس کی تیاری کرنے لگا۔ اشوک کی ذہانت کے پیش نظر انسٹیٹیوٹ نے ، ایک سالہ کورس کی تکمیل کے بعد، اسے جزوقتی استاد رکھ لیا۔ اسی دوران اشوک نے بنگلور میں قائم انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنسز کی جعلی پی ایچ ڈی کی سند بنوائی۔ سند کے مطابق وہ پاور سسٹمز کے مضمون پر دسترس رکھتا تھا۔ اس نے یہ سند روی کمار ریڈی کے نام سے بنوائی تھی۔ سند حاصل کرنے سے پہلے اس نے قانونی طور پر اپنا نام بدل کر روی کمار ریڈی رکھ لیا تھا۔ دراصل مذکورہ تعلیمی ادارے سے اسی نام کا ایک شخص پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرچکا تھا۔ اشوک نے اسی کے پروفائل کو سامنے رکھتے ہوئے جعلی سند بنوائی تھی۔
جعلی پی ایچ ڈی کی سند کی بنیاد پر اشوک، جو اب روی کمار تھا، کو مئی 2012ء میں سویتا انجنیئرنگ کالج میں پروفیسر کی ملازمت مل گئی۔ اس کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ بارہ ہزار روپے مقرر ہوئی تھی۔ تین سال تک وہ کام یابی سے یہ مضمون پڑھاتا رہا۔ ساتھی اساتذہ اور طلبا اس کی قابلیت سے بہت متاثر تھے۔ اس کا شمار اپنے شعبے کے بہترین اساتذہ میں ہوتا تھا۔
روی کمار کا بھانڈا اس وقت پُھوٹا جب دو ہفتے قبل انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنسز کے کچھ اساتذہ اس سے ملنے کے لیے آئے۔ روی نے مصروفیت کا بہانہ بناکر ملاقات سے انکار کردیا۔ اسے خدشہ تھا کہ یہ اساتذہ اصلی روی کمار کو پہچانتے ہوں گے۔ بعد میں اس کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ روی کمار کے انکار پر مہمان اساتذہ کو شک ہوا۔ انھوں نے انٹرنیٹ پر دونوں تعلیمی اداروں( انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنسز اور سویتا انجنیئرنگ کالج ) کے روی کماروں کا پروفائل چیک کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان پر انکشاف ہوا کہ دونوں کا پروفائل ایک ہی تھا، بس تصویر مختلف تھی۔ انھوں نے فوری طور پر پولیس کو اس کی اطلاع کردی۔ یوں اشوک چوہدری کا باعزت زندگی گزارنے کا خواب تعبیر پاتے پاتے بکھر گیا۔
گذشتہ دنوں بھارتی ریاست تامل ناڈو کے ضلع کانچی پورم سے ایک پروفیسر کو گرفتار کیا گیا۔
روی کُمار ریڈی نامی پروفیسر سویتا انجنیئرنگ کالج میں تین سال سے درس و تدریس میں مصروف تھا۔ گرفتاری کے بعد طلبا پر انکشاف ہوا تین سال سے انھیں پاور سسٹمز کا مضمون پڑھانے والا پروفیسر پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر نہیں بلکہ صرف آٹھ جماعت پاس ہے! اور اس کا اصل نام اشوک کمار چوہدری ہے۔
مڈل اسکول تک تعلیم حاصل کرنے والا اشوک، پروفیسر روی کمار ریڈی کیسے بنا؟ اس سوال کا جواب کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ ذہانت ثابت کرنے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر جب ذہانت، دھوکادہی کا لبادہ اوڑھ لے تو پھر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا جیسا کہ اس معاملے میں ہوا۔
گرفتاری کے بعد 35 سالہ ' پروفیسر' نے پولیس کو اپنی داستان سنائی۔ اشوک کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے تھا جس کے باسیوں کو دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر آتی تھی تو اشوک کی پڑھائی کا خرچ کیسے اٹھایا جاتا۔ لہٰذا وہ مڈل سے آگے نہ پڑھ سکا۔ مگر پڑھنے کی لگن اشوک کے دل میں موجود تھی۔ قدرت نے اسے ذہانت سے بھی نوازا تھا۔ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے اشوک ایک دکان پر ملازم ہوگیا۔ یہاں اس کا کام فوٹوکاپی کرنا تھا۔ دکان کے قریب ہی کالج تھا۔ کالج کے طالب علم فوٹوکاپی کروانے کے لیے اسی دکان پر آتے تھے۔ اکثر وہ اپنی کتابیں فوٹوکاپی کی غرض سے اشوک کے پاس چھوڑ جاتے تھے۔ اشوک ان کتابوں کی ایک اضافی نقل اپنے لیے بنالیتا تھا۔ فارغ وقت میں وہ یہ کتابیں پڑھا کرتا تھا۔
یہ سلسلہ کئی برس تک چلتا رہا۔ کتابوں کی عکسی نقول اشوک کی تعلیمی قابلیت بڑھاتی رہیں۔ قابلیت کے لحاظ سے اب اشوک کسی بھی ذہین اور گریجویٹ طالب علم سے کم نہیں تھا مگر عام رواج کے مطابق اپنی ذہانت ثابت کرنے لیے اس کے پاس کوئی ڈگری یا سند نہیں تھی۔ یہیں اس کے ذہن میں خیال پیدا ہوا کیوں نہ جعلی سند حاصل کی جائے۔
ابتدائی طور پر اس نے ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کا جعلی ڈپلوما بنوایا۔ اپنی قابلیت اور جعلی ڈپلومے کی بنیاد پر اسے ایک نجی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ باعزت طریقے سے زندگی گزارنے اور ترقی کرنے کی خواہش اشوک کے دل میں بہ درجہ اتم موجود تھی۔ اسی خواہش سے تحریک پاتے ہوئے اس نے اب ایم ایس سی کی جعلی سند حاصل کی اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر ملازم ہوگیا۔ اس دوران وہ ماسٹر اِن بزنس ایڈمنسٹریشن ( ایم بی ا ے) بھی ' ہو' گیا۔
کچھ عرصے کے بعد وہ دہلی پہنچا اور یہاں ایک انسٹیٹیوٹ میں سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنگ ٹیکنیشن ( CAT ) کے کورس کی تیاری کرنے لگا۔ اشوک کی ذہانت کے پیش نظر انسٹیٹیوٹ نے ، ایک سالہ کورس کی تکمیل کے بعد، اسے جزوقتی استاد رکھ لیا۔ اسی دوران اشوک نے بنگلور میں قائم انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنسز کی جعلی پی ایچ ڈی کی سند بنوائی۔ سند کے مطابق وہ پاور سسٹمز کے مضمون پر دسترس رکھتا تھا۔ اس نے یہ سند روی کمار ریڈی کے نام سے بنوائی تھی۔ سند حاصل کرنے سے پہلے اس نے قانونی طور پر اپنا نام بدل کر روی کمار ریڈی رکھ لیا تھا۔ دراصل مذکورہ تعلیمی ادارے سے اسی نام کا ایک شخص پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرچکا تھا۔ اشوک نے اسی کے پروفائل کو سامنے رکھتے ہوئے جعلی سند بنوائی تھی۔
جعلی پی ایچ ڈی کی سند کی بنیاد پر اشوک، جو اب روی کمار تھا، کو مئی 2012ء میں سویتا انجنیئرنگ کالج میں پروفیسر کی ملازمت مل گئی۔ اس کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ بارہ ہزار روپے مقرر ہوئی تھی۔ تین سال تک وہ کام یابی سے یہ مضمون پڑھاتا رہا۔ ساتھی اساتذہ اور طلبا اس کی قابلیت سے بہت متاثر تھے۔ اس کا شمار اپنے شعبے کے بہترین اساتذہ میں ہوتا تھا۔
روی کمار کا بھانڈا اس وقت پُھوٹا جب دو ہفتے قبل انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنسز کے کچھ اساتذہ اس سے ملنے کے لیے آئے۔ روی نے مصروفیت کا بہانہ بناکر ملاقات سے انکار کردیا۔ اسے خدشہ تھا کہ یہ اساتذہ اصلی روی کمار کو پہچانتے ہوں گے۔ بعد میں اس کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ روی کمار کے انکار پر مہمان اساتذہ کو شک ہوا۔ انھوں نے انٹرنیٹ پر دونوں تعلیمی اداروں( انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنسز اور سویتا انجنیئرنگ کالج ) کے روی کماروں کا پروفائل چیک کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان پر انکشاف ہوا کہ دونوں کا پروفائل ایک ہی تھا، بس تصویر مختلف تھی۔ انھوں نے فوری طور پر پولیس کو اس کی اطلاع کردی۔ یوں اشوک چوہدری کا باعزت زندگی گزارنے کا خواب تعبیر پاتے پاتے بکھر گیا۔