خدارا مٹی کو نم ہونے دو
جولوگ بیرون ملک جاسکتے ہیں وہ اپنا ٹیلینٹ دوسروں کو بیچنے پرمجبور ہیں کیونکہ اپنے ملک میں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
لاہور:
اقبالؔ نے کہا تھا ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!''۔ میری نظر سے جب جب یہ مصرعہ گزرا میرے ذہن میں ہر دفعہ اسی خیال نے دستک دی کہ اقبالؔ کو ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ آج تک نہ کسی نے پڑھا اورنہ ہی سمجھا۔
آپ حیران ہورہے ہوں گے نا، کہ میں کیسی بات کررہا ہوں؟ تو جناب! جس طرح ہم بند یوٹیوب کو'پراکسی' کے ذریعے کھول لیتے ہیں، کینڈی کرش گیم کی ڈیٹ آگے بڑھا کر بونس حاصل کرلیتے ہیں، بیرون ملک فون بوتھ میں دھاگے سے بندھا ہوا سکہ ڈال کر بات کرکے پھر سکہ باہر کھینچ لیتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمارے ''ذہین و فتین'' سیاستدان بھی اقبالؔ کی ادق شاعری میں سے اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے مندرجہ بالا مصرعے میں سے نکالی ہے، اور وہ یہ ہے کہ مٹی کو نم ہونے ہی نہ دیا جائے اور اگر مٹی نم ہو بھی جائے تو اسے باہرملک کے کسی ''ساقی'' کیلئے چھوڑ دیا جائے۔
پاکستان کی مٹی کے زرخیز ہونے میں کوئی شبہ ہے ہی نہیں، لیکن ایسی زرخیزی کا کیا فائدہ جب اس زرخیزی سے ہم کوئی نفع حاصل نہ کرسکیں؟ ہم زمین ہموار کرتے ہیں، بیج بوتے ہیں، گوڈی کرتے ہیں، ہل چلاتے ہیں، پانی دیتے ہیں لیکن کبھی کوئی ''امریکن سنڈی'' ہماری محنت برباد کر دیتی ہے تو کبھی سفید پوشی کا لبادہ اوڑھے کوئی ''سفید مکھی'' ہماری محنت لے اڑتی ہے، کیونکہ ہم سب کچھ کرتے ہیں لیکن کیڑے مار سپرے کرنا بھول جاتے ہیں۔
پاکستان نے آج تک بہت سے آئن سٹائن، شیکسپیئر، ڈی ویلیئرز اور ٹام کروز پیدا کئے لیکن وہ بے چارے یا تو گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں یا اگر وہ سامنے آبھی گئے تو صرف سوشل میڈیا ان کی آواز کسی حد تک بلند کر پاتا ہے اور اگر ملکی میڈیا انہیں کچھ کوریج دے بھی دے تو ایک ہفتے بعد سب اسے بھول کر دوسرے 'اہم' کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور نتیجہ وہی 'ڈھاک کے تین پات' والا نکلتا ہے اور دوسری طرف ''ایوانِ اقتدار میں بیٹھے وہ تمام 'اپاہج لوگ' جن کو یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر پال رہی ہے'' خوابِ غفلت کے مزے لے رہے ہیں۔ ان کی اپنی نالائق، نکمی اور نکھٹو اولادیں یا تو ہمارے سروں پر سوار ہیں یا بیرونِ ملک عیاشیوں میں مصروف ہیں اور قوم کے اصل سپوت کہیں ہل چلا کر، کہیں ڈگریاں تھامے بسوں میں دکھے کھاکر، کہیں جوتے پالش کرکے اور کہیں کاغذ اور لئی سے لفافے بنا کر اپنا اصل ٹیلینٹ ضائع کرنے پر مجبور ہیں۔ اور جو لوگ بیرون ملک جاسکتے ہیں وہ اپنا ٹیلینٹ دوسروں کو بیچنے پر مجبور ہیں کیونکہ اپنے ملک میں ان بیچاروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
وہ لوگ جنہیں سر پر بٹھانا چاہیئے انہیں ایک انٹرویو لے کر، ایک خبر چلا کر یا ایک سرخی چھاپ کر ہمیشہ کیلئے ''فارغ'' کردیا جاتا ہے۔ ارفع کریم رندھاوا، علی معین نوازش، عبدالستار ایدھی، نوید بٹ، نسیم حمید اور دیگر کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اَن گنت عظیم نام ہم نے بھلا دئیے، ایسے لوگوں کے نام ہمیں انٹرنیٹ پر 'سرچ' کرنے پڑتے ہیں کیونکہ ہم انہیں جانتے ہی نہیں اور یہ ہمارا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ لیکن اکثر اوقات ہم نام بھلانے کی بجائے نام ''دبا'' بھی دیتے ہیں جیسا کہ پی سی بی کی جانب سے 'سرفراز' کا نام دبانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ''جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے''۔
کل ایک اور پاکستانی جَوان نے اپنا ٹیلینٹ دکھا کر دنیا میں ملک کا نام اونچا کیا، پاکستان کے مایہ ناز تَن ساز اور 2005 میں مسٹر پاکستان کا اعزاز پانے والے عاطف انور نے آسٹریلیا میں 100 کلو گرام سے زائد کے مقابلے میں آرنلڈ کلاسک ایوارڈ جیت لیا۔ سات مرتبہ مسٹر اولمپیئن رہنے والے آرنلڈ شوارزنیگرجو کہ ہالی وڈ کے مشہور فلم اسٹار بھی ہیں، انہوں نے خود قومی جوان کو اِس اعزاز سے نوازا۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کا اس کامیابی میں کوئی کردار تھا یا وہ اپنے بل بوتے پر اس مقام پر پہنچا؟ بیرونِ ملک کسی پاکستانی کی اس طرح کی کسی کامیابی کے بعد فوراً ہم سرگرم ہوجاتے ہیں اور ہر جگہ شور مچاتے ہیں کہ ''پاکستانی نژاد'' فلاں نے فلاں کام کیا، فلاں ریکارڈ توڑدیا، گویا ہم اس کا نام کیش کرواتے ہیں لیکن اس کے اس مقام تک پہنچنے میں ہمارا ایک دھیلے کا بھی عمل دخل نہیں ہوتا ۔
لوگ کہتے ہیں کہ آپ سیاستدانوں پر تنقید تو کرلیتے ہیں لیکن مسائل کا کوئی حل نہیں بتاتے، تو ایسے قارئین سے گزارش ہے کہ مسئلے کی نشاندہی کردینا بھی مسئلے کے حل کی طرف ایک پیش قدمی ہوتی ہے، میں کہوں گا کہ بہتری کی اُمید رکھیں، اپنے اپنے شعبے میں ایمانداری سے کام کریں، ملکی مسائل کو اجاگر کریں، خاموش نہ رہیں، بولیں، قلم اٹھائیں، لکھیں، اپنے حکمرانوں کوغیرت دلاتے رہیں، اللہ ہمیں اس''قحط الرجال'' سے جلد نکالے گا کیونکہ ؎ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اقبالؔ نے کہا تھا ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!''۔ میری نظر سے جب جب یہ مصرعہ گزرا میرے ذہن میں ہر دفعہ اسی خیال نے دستک دی کہ اقبالؔ کو ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ آج تک نہ کسی نے پڑھا اورنہ ہی سمجھا۔
آپ حیران ہورہے ہوں گے نا، کہ میں کیسی بات کررہا ہوں؟ تو جناب! جس طرح ہم بند یوٹیوب کو'پراکسی' کے ذریعے کھول لیتے ہیں، کینڈی کرش گیم کی ڈیٹ آگے بڑھا کر بونس حاصل کرلیتے ہیں، بیرون ملک فون بوتھ میں دھاگے سے بندھا ہوا سکہ ڈال کر بات کرکے پھر سکہ باہر کھینچ لیتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمارے ''ذہین و فتین'' سیاستدان بھی اقبالؔ کی ادق شاعری میں سے اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے مندرجہ بالا مصرعے میں سے نکالی ہے، اور وہ یہ ہے کہ مٹی کو نم ہونے ہی نہ دیا جائے اور اگر مٹی نم ہو بھی جائے تو اسے باہرملک کے کسی ''ساقی'' کیلئے چھوڑ دیا جائے۔
پاکستان کی مٹی کے زرخیز ہونے میں کوئی شبہ ہے ہی نہیں، لیکن ایسی زرخیزی کا کیا فائدہ جب اس زرخیزی سے ہم کوئی نفع حاصل نہ کرسکیں؟ ہم زمین ہموار کرتے ہیں، بیج بوتے ہیں، گوڈی کرتے ہیں، ہل چلاتے ہیں، پانی دیتے ہیں لیکن کبھی کوئی ''امریکن سنڈی'' ہماری محنت برباد کر دیتی ہے تو کبھی سفید پوشی کا لبادہ اوڑھے کوئی ''سفید مکھی'' ہماری محنت لے اڑتی ہے، کیونکہ ہم سب کچھ کرتے ہیں لیکن کیڑے مار سپرے کرنا بھول جاتے ہیں۔
پاکستان نے آج تک بہت سے آئن سٹائن، شیکسپیئر، ڈی ویلیئرز اور ٹام کروز پیدا کئے لیکن وہ بے چارے یا تو گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں یا اگر وہ سامنے آبھی گئے تو صرف سوشل میڈیا ان کی آواز کسی حد تک بلند کر پاتا ہے اور اگر ملکی میڈیا انہیں کچھ کوریج دے بھی دے تو ایک ہفتے بعد سب اسے بھول کر دوسرے 'اہم' کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور نتیجہ وہی 'ڈھاک کے تین پات' والا نکلتا ہے اور دوسری طرف ''ایوانِ اقتدار میں بیٹھے وہ تمام 'اپاہج لوگ' جن کو یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر پال رہی ہے'' خوابِ غفلت کے مزے لے رہے ہیں۔ ان کی اپنی نالائق، نکمی اور نکھٹو اولادیں یا تو ہمارے سروں پر سوار ہیں یا بیرونِ ملک عیاشیوں میں مصروف ہیں اور قوم کے اصل سپوت کہیں ہل چلا کر، کہیں ڈگریاں تھامے بسوں میں دکھے کھاکر، کہیں جوتے پالش کرکے اور کہیں کاغذ اور لئی سے لفافے بنا کر اپنا اصل ٹیلینٹ ضائع کرنے پر مجبور ہیں۔ اور جو لوگ بیرون ملک جاسکتے ہیں وہ اپنا ٹیلینٹ دوسروں کو بیچنے پر مجبور ہیں کیونکہ اپنے ملک میں ان بیچاروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
وہ لوگ جنہیں سر پر بٹھانا چاہیئے انہیں ایک انٹرویو لے کر، ایک خبر چلا کر یا ایک سرخی چھاپ کر ہمیشہ کیلئے ''فارغ'' کردیا جاتا ہے۔ ارفع کریم رندھاوا، علی معین نوازش، عبدالستار ایدھی، نوید بٹ، نسیم حمید اور دیگر کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اَن گنت عظیم نام ہم نے بھلا دئیے، ایسے لوگوں کے نام ہمیں انٹرنیٹ پر 'سرچ' کرنے پڑتے ہیں کیونکہ ہم انہیں جانتے ہی نہیں اور یہ ہمارا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ لیکن اکثر اوقات ہم نام بھلانے کی بجائے نام ''دبا'' بھی دیتے ہیں جیسا کہ پی سی بی کی جانب سے 'سرفراز' کا نام دبانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ''جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے''۔
کل ایک اور پاکستانی جَوان نے اپنا ٹیلینٹ دکھا کر دنیا میں ملک کا نام اونچا کیا، پاکستان کے مایہ ناز تَن ساز اور 2005 میں مسٹر پاکستان کا اعزاز پانے والے عاطف انور نے آسٹریلیا میں 100 کلو گرام سے زائد کے مقابلے میں آرنلڈ کلاسک ایوارڈ جیت لیا۔ سات مرتبہ مسٹر اولمپیئن رہنے والے آرنلڈ شوارزنیگرجو کہ ہالی وڈ کے مشہور فلم اسٹار بھی ہیں، انہوں نے خود قومی جوان کو اِس اعزاز سے نوازا۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کا اس کامیابی میں کوئی کردار تھا یا وہ اپنے بل بوتے پر اس مقام پر پہنچا؟ بیرونِ ملک کسی پاکستانی کی اس طرح کی کسی کامیابی کے بعد فوراً ہم سرگرم ہوجاتے ہیں اور ہر جگہ شور مچاتے ہیں کہ ''پاکستانی نژاد'' فلاں نے فلاں کام کیا، فلاں ریکارڈ توڑدیا، گویا ہم اس کا نام کیش کرواتے ہیں لیکن اس کے اس مقام تک پہنچنے میں ہمارا ایک دھیلے کا بھی عمل دخل نہیں ہوتا ۔
لوگ کہتے ہیں کہ آپ سیاستدانوں پر تنقید تو کرلیتے ہیں لیکن مسائل کا کوئی حل نہیں بتاتے، تو ایسے قارئین سے گزارش ہے کہ مسئلے کی نشاندہی کردینا بھی مسئلے کے حل کی طرف ایک پیش قدمی ہوتی ہے، میں کہوں گا کہ بہتری کی اُمید رکھیں، اپنے اپنے شعبے میں ایمانداری سے کام کریں، ملکی مسائل کو اجاگر کریں، خاموش نہ رہیں، بولیں، قلم اٹھائیں، لکھیں، اپنے حکمرانوں کوغیرت دلاتے رہیں، اللہ ہمیں اس''قحط الرجال'' سے جلد نکالے گا کیونکہ ؎ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔