کیا پاکستان میں اقلیت غیر محفوظ ہیں
جی ہاں مسلمانوں نے صبر سے کام لیا اور دنیا کو بتایا کہ لوگ پاکستان کے بارے میں جھوٹ بولتے تھے۔
KARACHI:
وہ بے گناہ تھا اور وہاں کسی گھر میں شیشہ فٹ کرنے آیا تھا کہ اچانک دھماکہ ہوتا ہے۔ وہ 25 سال کا عام سا نوجوان اِس صورت حال پر گبھرا جاتا ہے اور بھاگنے لگتا ہے لیکن وہاں موجود جتھہ اُسے گھیر لیتا ہے، پولیس اسے بچانے کی کوشش کرتی ہے لیکن بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے اسکی ایک نہیں چلتی اور اسے گھسیٹ کر پولیس کی گاڑی سے نیچے اتارلیا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ایک اور بھی نوجوان تھا ان دونوں کو بے رحمانہ انداز میں پیٹا جاتا ہے اور پھر فیزوزپور روڈ لاہور میں ان پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔
ذرا تصور کیجئے امریکہ یا یورپ کے کسی بھی حصہ میں کسی مسجد پر انتہاپسند حملہ کرتے اور مسلمان مشتعل ہوکر دو انسانوں کو زندہ جلا دیتے تب کیا ہوتا؟ اگر ایسا ہوتا تو شاید اب تک دنیا ہل چکی ہوتی انٹرنیشنل میڈیا پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو درندہ اور حیوان اور نجانے کیا کیا ثابت کیا جاچکا ہوتا۔
میں ان دانشوروں کے سامنے بھی یہ ساری صورتحال رکھنا چاہوں گا جو دن رات یہ گیت گاتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کو آزادی نہیں ہے۔ اس سے زیادہ آزادی دنیا کے کسی ملک میں ہے تو بتائیں۔ پچھلے 10 سالوں سے پاکستان میں دھماکے ہورہے ہیں۔ دہشتگردوں نے نہ تو امام بارگاہ چھوڑا اور نہ کوئی مسجد۔ لیکن کبھی احتجاج کی عار میں کسی زندہ انسان کو نہیں جلایا گیا ۔۔۔۔۔ لیکن یہ وہی پاکستان ہے جہاں دھماکے کے بعد زندہ انسانوں کو جلایا گیا لیکن پھر بھی ریاست مذاکرات کی بات کررہی ہے۔
جی ہاں مسلمانوں نے صبر سے کام لیا اور دنیا کو بتایا کہ لوگ پاکستان کے بارے میں جھوٹ بولتے تھے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں مسلم اور غیر مسلم دونوں کو برابرحقوق حاصل ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس کے باشندے اُس نبی رحمتﷺ کو مانتے تھے جن کا فرمان ہے کہ (مفہوم) ''خبردار کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا تو قیامت کے دن میں اسکی طرف سے جھگڑا کروں گا '' اور میں شاباش دوں گا پاکستان کو کہ آپ نے اپنے جذبات پر قابو رکھ کر قومی اور بین الااقوامی سطح پر پاکستان کے بارے اقلیتوں کے حوالے سے جھوٹے پراپیگنڈے کرنے والوں کو موثر جواب دیا۔
لیکن یہاں پر میرے کچھ سوالات بھی ہیں۔ پہلا سوال میڈیا سے خاص طور پر ''بی بی سی'' اور کچھ ہمارے ملکی چینلز پر بھی یہ خبر چلی کہ ''مشتعل ہجوم نے دو مشتبہ شدت پسند کو زندہ جلا ڈالا''۔ اب جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ جلنے والے لڑکے بے گناہ تھے توسوال یہ ہے کہ بی بی سی انتظامیہ معافی مانگے گی؟ جو لوگ ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں اقلیت غیر محفوظ ہیں اُن کو ذرا ایک نظر ہمارے ہمسایے ملک پر ڈالنی چاہیے جہاں انسان کی جان لیں تو دو سال قید اور گائے ذبح کرنے پر دس سال قید کی سزا ہوتی ہے۔ جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو بننے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ جہاں حکمران جماعت کے رہنما سبرامنیم سوامی کہتے ہیں مساجد کو کسی بھی وقت عمارتیں قرار دے کر مسمار کیا جاسکتا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود بھی اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں تو ایسے شخص سے پھر اسکی سوچ پر اظہار افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں جب بھارت میں ایک 70 سالہ عیسائی نن کا ریپ ہوتا ہے اور پوری دنیا کی انگلیاں بھارت کی طرف اٹھ رہی ہوتی ہیں کہ اچانک پاکستان میں چرچ میں دھماکہ ہوتا ہے اور سارا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ ویسے بھی انٹرنیٹ پر نریندر مودی کے سکیورٹی ایڈاوائزر اجیت ڈول کی ویڈیو موجود ہے جس میں وہ برملا کہتے ہیں ''جی ہاں اب ہم بھی پراکسی جنگ لڑتے ہیں اسکا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دہشتگردوں کو فنڈنگ دو اور دنیا کے سامنے انکار کرتے رہو''۔
یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں دھماکوں کا کس پڑوسی ملک کو فائدہ ہوتا ہے اور ان دھماکہ کرنے والوں کو فنڈنگ کون کرتا ہے؟ ان تمام حالات کی روشنی میں حکومت عوام اور میڈیا سے یہی درخواست ہے کہ دشمن کی کسی چال کو کامیاب نہ ہونے دیں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اپنی صفوں میں اتحاد و یکانگت کو برقرار رکھیں اور حکوت سے اپیل ہے کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کو فوری طور پر گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وہ بے گناہ تھا اور وہاں کسی گھر میں شیشہ فٹ کرنے آیا تھا کہ اچانک دھماکہ ہوتا ہے۔ وہ 25 سال کا عام سا نوجوان اِس صورت حال پر گبھرا جاتا ہے اور بھاگنے لگتا ہے لیکن وہاں موجود جتھہ اُسے گھیر لیتا ہے، پولیس اسے بچانے کی کوشش کرتی ہے لیکن بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے اسکی ایک نہیں چلتی اور اسے گھسیٹ کر پولیس کی گاڑی سے نیچے اتارلیا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ایک اور بھی نوجوان تھا ان دونوں کو بے رحمانہ انداز میں پیٹا جاتا ہے اور پھر فیزوزپور روڈ لاہور میں ان پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔
ذرا تصور کیجئے امریکہ یا یورپ کے کسی بھی حصہ میں کسی مسجد پر انتہاپسند حملہ کرتے اور مسلمان مشتعل ہوکر دو انسانوں کو زندہ جلا دیتے تب کیا ہوتا؟ اگر ایسا ہوتا تو شاید اب تک دنیا ہل چکی ہوتی انٹرنیشنل میڈیا پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو درندہ اور حیوان اور نجانے کیا کیا ثابت کیا جاچکا ہوتا۔
میں ان دانشوروں کے سامنے بھی یہ ساری صورتحال رکھنا چاہوں گا جو دن رات یہ گیت گاتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کو آزادی نہیں ہے۔ اس سے زیادہ آزادی دنیا کے کسی ملک میں ہے تو بتائیں۔ پچھلے 10 سالوں سے پاکستان میں دھماکے ہورہے ہیں۔ دہشتگردوں نے نہ تو امام بارگاہ چھوڑا اور نہ کوئی مسجد۔ لیکن کبھی احتجاج کی عار میں کسی زندہ انسان کو نہیں جلایا گیا ۔۔۔۔۔ لیکن یہ وہی پاکستان ہے جہاں دھماکے کے بعد زندہ انسانوں کو جلایا گیا لیکن پھر بھی ریاست مذاکرات کی بات کررہی ہے۔
جی ہاں مسلمانوں نے صبر سے کام لیا اور دنیا کو بتایا کہ لوگ پاکستان کے بارے میں جھوٹ بولتے تھے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں مسلم اور غیر مسلم دونوں کو برابرحقوق حاصل ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس کے باشندے اُس نبی رحمتﷺ کو مانتے تھے جن کا فرمان ہے کہ (مفہوم) ''خبردار کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا تو قیامت کے دن میں اسکی طرف سے جھگڑا کروں گا '' اور میں شاباش دوں گا پاکستان کو کہ آپ نے اپنے جذبات پر قابو رکھ کر قومی اور بین الااقوامی سطح پر پاکستان کے بارے اقلیتوں کے حوالے سے جھوٹے پراپیگنڈے کرنے والوں کو موثر جواب دیا۔
لیکن یہاں پر میرے کچھ سوالات بھی ہیں۔ پہلا سوال میڈیا سے خاص طور پر ''بی بی سی'' اور کچھ ہمارے ملکی چینلز پر بھی یہ خبر چلی کہ ''مشتعل ہجوم نے دو مشتبہ شدت پسند کو زندہ جلا ڈالا''۔ اب جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ جلنے والے لڑکے بے گناہ تھے توسوال یہ ہے کہ بی بی سی انتظامیہ معافی مانگے گی؟ جو لوگ ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں اقلیت غیر محفوظ ہیں اُن کو ذرا ایک نظر ہمارے ہمسایے ملک پر ڈالنی چاہیے جہاں انسان کی جان لیں تو دو سال قید اور گائے ذبح کرنے پر دس سال قید کی سزا ہوتی ہے۔ جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو بننے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ جہاں حکمران جماعت کے رہنما سبرامنیم سوامی کہتے ہیں مساجد کو کسی بھی وقت عمارتیں قرار دے کر مسمار کیا جاسکتا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود بھی اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں تو ایسے شخص سے پھر اسکی سوچ پر اظہار افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں جب بھارت میں ایک 70 سالہ عیسائی نن کا ریپ ہوتا ہے اور پوری دنیا کی انگلیاں بھارت کی طرف اٹھ رہی ہوتی ہیں کہ اچانک پاکستان میں چرچ میں دھماکہ ہوتا ہے اور سارا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ ویسے بھی انٹرنیٹ پر نریندر مودی کے سکیورٹی ایڈاوائزر اجیت ڈول کی ویڈیو موجود ہے جس میں وہ برملا کہتے ہیں ''جی ہاں اب ہم بھی پراکسی جنگ لڑتے ہیں اسکا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دہشتگردوں کو فنڈنگ دو اور دنیا کے سامنے انکار کرتے رہو''۔
یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں دھماکوں کا کس پڑوسی ملک کو فائدہ ہوتا ہے اور ان دھماکہ کرنے والوں کو فنڈنگ کون کرتا ہے؟ ان تمام حالات کی روشنی میں حکومت عوام اور میڈیا سے یہی درخواست ہے کہ دشمن کی کسی چال کو کامیاب نہ ہونے دیں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اپنی صفوں میں اتحاد و یکانگت کو برقرار رکھیں اور حکوت سے اپیل ہے کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کو فوری طور پر گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔