’بلوچستان مسلم لیگ‘ کے قیام کی گونج
میر جان محمد جمالی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی تیاری
RATODERO:
بلوچستان کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت جعفرآباد، نصیرآباد، جھل مگسی اور بولان کے اضلاع پر مشتمل نصیرآباد ڈویژن سے ہمیشہ وفاق پرست سیاست داں ہی منتخب ہوتے رہے ہیں۔
ماضی میں ایوان زیریں کے ساتھ ساتھ ایوان بالا میں بھی نصیرآباد ڈویژن کی نمائندگی رہی ہے، لیکن سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں نصیرآباد ڈویژن اس اعزاز سے محروم رہا۔ حالاں کہ یہاں سے منتخب اراکین بلوچستان اسمبلی کی اکثریت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتی ہے۔ بلوچستان کے حقوق اور مسائل کے حل کے حوالے سے موجودہ حکومت کے تمام تر دعووں اور وعدوں کے برعکس صوبے سے متعلق تمام تر اہم فیصلے اسلام آباد میں کرنے کی وجہ سے اہل بلوچستان میں پائی جانے والی اس سوچ کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ مرکز نے بلوچستان کو ہمیشہ ایک اہم اکائی کے بجائے اپنی کالونی سمجھا ہے اور حکم راں سابق ہوں یا موجودہ، دونوں کا طرز عمل اسی بات کی غمازی کرتا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بلوچستان کے عوام تو درکنار اپنے اراکین اسمبلی کی آرا اور ان کے مطالبات کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور ان حالات کے تناظر میں سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے نتائج غیر متوقع نہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے جس طرح کا رویہ اپنے اراکین اسمبلی کے ساتھ روا رکھا، اس کا خمیازہ اسے سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں بھگتنا پڑا اور اس کے سردار یعقوب خان ناصر جیسے سینئر راہ نما بھی شکست سے دو چار ہوئے۔
سینیٹ الیکشن میں بھی پارٹی قیادت نے اپنے اراکین اسمبلی سے مشاورت کے بجائے ان پر اپنے فیصلے مسلط کیے، موجودہ مخلوط حکومت کے حوالے سے پارٹی کے اراکین اسمبلی پہلے ہی نالاں تھے، لیکن رہی سہی کسر سینیٹ الیکشن میں امیدواروں کی نام زدگی نے پوری کردی۔ اطلاعات ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں جن ممبران نے پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کی، ان میں سے بعض کا تعلق نصیرآباد ڈویژن سے ہی ہے۔ دوسروں سے قطع نظر اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد خان جمالی نے پارٹی امیدوار کے مقابلے میں اپنی صاحبزادی کو دست بردار نہ کر کے پارٹی قیادت کی طرف سے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے مسلط کردہ فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
سینیٹ الیکشن کے بعد ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی کی باتیں چل رہی ہیں۔ تاہم میر جان محمد خان جمالی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ پارٹی قیادت نے سینیٹ ٹکٹ کے حوالے سے مشاورت کے لیے کوئی اجلاس بلایا اور نہ ہی مجھے اعتماد میں لیا گیا۔ پارٹی قیادت کے غلط فیصلوں ہی کا نتیجہ ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف عدم اعتماد کا شوق بھی پورا کر لیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت جلد صوبے میں اہم تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ صوبے کی بعض اہم شخصیات بلوچستان مسلم لیگ بنانے کی خواہش مند ہیں اور اس سلسلے میں ایک غیر رسمی اجلاس بھی ہو چکا ہے۔ بلاشبہہ میر جان محمد خان جمالی کا شمار بلوچستان کے منجھے ہوئے سیاست دانوں میں ہوتا ہے، ان کے علاوہ ان کی ہمشیرہ محترمہ راحت فائق جمالی بھی رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی جانب سے نصیرآباد ڈویژن کو الگ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آچکا ہے اور یہ معاملہ موضوع بحث تھا کہ سینیٹ الیکشن کا نیا تنازع سامنے آگیا۔ خیال یہی ہے کہ میر جان محمد جمالی جو کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے کسی بھی بحران سے نمٹنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر میر محمد صادق عمرانی بھی ان دنوں خاصے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ جاموٹ قومی موومنٹ کے سابق چئیرمین و مسلم لیگ ن کے موجودہ رکن بلوچستان اسمبلی میر ماجد خان ابڑو جیسے نوآموز سیاست داں کے ہاتھوں شکست کے بعد ان کے رویے میں بھی نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے اور انہوں نے اپنی عوامی سرگرمیوں میں بھی اضافہ کرلیا ہے جب کہ میر ماجد ابڑو کے ساتھ وابستہ عوام کی توقعات دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ میر محمد صادق عمرانی پارٹی کو فعال بنانے میں مصروف عمل ہیں۔
پچھلے ہفتے جمہوری وطن پارٹی (میر عالی)کے مرکزی نائب صدر سید خادم حسین شاہ اور ان کے بھائی عمران حسین شاہ کی اپنے حامیوں، برادری اور مریدین کے ساتھ پیپلز پارٹی میں شمولیت پارٹی کے صوبائی صدر میر محمد صادق عمرانی کی ایک اہم سیاسی کام یابی تصور کی جارہی ہے۔ سید خادم حسین شاہ نصیرآباد خصوصاً تحصیل چھتر کی ایک اہم شخصیت سید عبد اللہ شاہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت اور حکمت عملی اپنے بڑے بھائی سید عبداللہ شاہ ہی کی مرہونِ منت ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان اپنے گاؤں میں پارٹی کے مرکزی راہ نما اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی موجودگی میں کیا۔ اس موقع پر منعقدہ جلسۂ عام سے سید خورشید شاہ، میر محمد صادق عمرانی، سید عبداللہ شاہ، سید خادم حسین شاہ و دیگر نے خطاب کیا۔
بعد ازاں سید خورشید شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کی پسماندگی کے اصل ذمہ دار فوجی آمر ہیں، ظلم وانا انصافی اور آمرانہ طرز حکومت کی بدولت بلوچستان میں علیحدگی پسند قوتوں کو پنپنے کا موقع ملا، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آمریت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ دریں اثناء سید عبداللہ شاہ کے قریبی عزیز اور سابق چیئرمین ضلع کونسل نصیرآباد سید مہتاب حسین شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں سید خادم حسین شاہ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر وضاحت دی کہ ان کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ان کی سیاسی وابستگی شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی کے خاندان کے ساتھ ہے۔
واضح رہے کہ سید مہتاب حسین شاہ کے ایک فرزند مرحوم سید ممتاز حسین شاہ جمہوری وطن پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے اور دوسرے فرزند سید منصور شاہ تحصیل ناظم رہ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے خلاف جوائنٹ سیکٹر انچارج آدم خان ابڑو کی قیادت میں کارکنا ن نے ڈسٹرکٹ پریس کلب جعفرآباد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ کارکنان نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔ اس موقع پر آدم خان ابڑو،کامریڈ عبدالمجید بنگلزئی و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، لیکن قائد تحریک الطاف حسین کی قیادت میں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔
بلوچستان کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت جعفرآباد، نصیرآباد، جھل مگسی اور بولان کے اضلاع پر مشتمل نصیرآباد ڈویژن سے ہمیشہ وفاق پرست سیاست داں ہی منتخب ہوتے رہے ہیں۔
ماضی میں ایوان زیریں کے ساتھ ساتھ ایوان بالا میں بھی نصیرآباد ڈویژن کی نمائندگی رہی ہے، لیکن سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں نصیرآباد ڈویژن اس اعزاز سے محروم رہا۔ حالاں کہ یہاں سے منتخب اراکین بلوچستان اسمبلی کی اکثریت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتی ہے۔ بلوچستان کے حقوق اور مسائل کے حل کے حوالے سے موجودہ حکومت کے تمام تر دعووں اور وعدوں کے برعکس صوبے سے متعلق تمام تر اہم فیصلے اسلام آباد میں کرنے کی وجہ سے اہل بلوچستان میں پائی جانے والی اس سوچ کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ مرکز نے بلوچستان کو ہمیشہ ایک اہم اکائی کے بجائے اپنی کالونی سمجھا ہے اور حکم راں سابق ہوں یا موجودہ، دونوں کا طرز عمل اسی بات کی غمازی کرتا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بلوچستان کے عوام تو درکنار اپنے اراکین اسمبلی کی آرا اور ان کے مطالبات کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور ان حالات کے تناظر میں سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے نتائج غیر متوقع نہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے جس طرح کا رویہ اپنے اراکین اسمبلی کے ساتھ روا رکھا، اس کا خمیازہ اسے سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں بھگتنا پڑا اور اس کے سردار یعقوب خان ناصر جیسے سینئر راہ نما بھی شکست سے دو چار ہوئے۔
سینیٹ الیکشن میں بھی پارٹی قیادت نے اپنے اراکین اسمبلی سے مشاورت کے بجائے ان پر اپنے فیصلے مسلط کیے، موجودہ مخلوط حکومت کے حوالے سے پارٹی کے اراکین اسمبلی پہلے ہی نالاں تھے، لیکن رہی سہی کسر سینیٹ الیکشن میں امیدواروں کی نام زدگی نے پوری کردی۔ اطلاعات ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں جن ممبران نے پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کی، ان میں سے بعض کا تعلق نصیرآباد ڈویژن سے ہی ہے۔ دوسروں سے قطع نظر اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد خان جمالی نے پارٹی امیدوار کے مقابلے میں اپنی صاحبزادی کو دست بردار نہ کر کے پارٹی قیادت کی طرف سے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے مسلط کردہ فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
سینیٹ الیکشن کے بعد ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی کی باتیں چل رہی ہیں۔ تاہم میر جان محمد خان جمالی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ پارٹی قیادت نے سینیٹ ٹکٹ کے حوالے سے مشاورت کے لیے کوئی اجلاس بلایا اور نہ ہی مجھے اعتماد میں لیا گیا۔ پارٹی قیادت کے غلط فیصلوں ہی کا نتیجہ ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف عدم اعتماد کا شوق بھی پورا کر لیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت جلد صوبے میں اہم تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ صوبے کی بعض اہم شخصیات بلوچستان مسلم لیگ بنانے کی خواہش مند ہیں اور اس سلسلے میں ایک غیر رسمی اجلاس بھی ہو چکا ہے۔ بلاشبہہ میر جان محمد خان جمالی کا شمار بلوچستان کے منجھے ہوئے سیاست دانوں میں ہوتا ہے، ان کے علاوہ ان کی ہمشیرہ محترمہ راحت فائق جمالی بھی رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی جانب سے نصیرآباد ڈویژن کو الگ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آچکا ہے اور یہ معاملہ موضوع بحث تھا کہ سینیٹ الیکشن کا نیا تنازع سامنے آگیا۔ خیال یہی ہے کہ میر جان محمد جمالی جو کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے کسی بھی بحران سے نمٹنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر میر محمد صادق عمرانی بھی ان دنوں خاصے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ جاموٹ قومی موومنٹ کے سابق چئیرمین و مسلم لیگ ن کے موجودہ رکن بلوچستان اسمبلی میر ماجد خان ابڑو جیسے نوآموز سیاست داں کے ہاتھوں شکست کے بعد ان کے رویے میں بھی نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے اور انہوں نے اپنی عوامی سرگرمیوں میں بھی اضافہ کرلیا ہے جب کہ میر ماجد ابڑو کے ساتھ وابستہ عوام کی توقعات دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ میر محمد صادق عمرانی پارٹی کو فعال بنانے میں مصروف عمل ہیں۔
پچھلے ہفتے جمہوری وطن پارٹی (میر عالی)کے مرکزی نائب صدر سید خادم حسین شاہ اور ان کے بھائی عمران حسین شاہ کی اپنے حامیوں، برادری اور مریدین کے ساتھ پیپلز پارٹی میں شمولیت پارٹی کے صوبائی صدر میر محمد صادق عمرانی کی ایک اہم سیاسی کام یابی تصور کی جارہی ہے۔ سید خادم حسین شاہ نصیرآباد خصوصاً تحصیل چھتر کی ایک اہم شخصیت سید عبد اللہ شاہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت اور حکمت عملی اپنے بڑے بھائی سید عبداللہ شاہ ہی کی مرہونِ منت ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان اپنے گاؤں میں پارٹی کے مرکزی راہ نما اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی موجودگی میں کیا۔ اس موقع پر منعقدہ جلسۂ عام سے سید خورشید شاہ، میر محمد صادق عمرانی، سید عبداللہ شاہ، سید خادم حسین شاہ و دیگر نے خطاب کیا۔
بعد ازاں سید خورشید شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کی پسماندگی کے اصل ذمہ دار فوجی آمر ہیں، ظلم وانا انصافی اور آمرانہ طرز حکومت کی بدولت بلوچستان میں علیحدگی پسند قوتوں کو پنپنے کا موقع ملا، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آمریت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ دریں اثناء سید عبداللہ شاہ کے قریبی عزیز اور سابق چیئرمین ضلع کونسل نصیرآباد سید مہتاب حسین شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں سید خادم حسین شاہ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر وضاحت دی کہ ان کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ان کی سیاسی وابستگی شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی کے خاندان کے ساتھ ہے۔
واضح رہے کہ سید مہتاب حسین شاہ کے ایک فرزند مرحوم سید ممتاز حسین شاہ جمہوری وطن پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے اور دوسرے فرزند سید منصور شاہ تحصیل ناظم رہ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے خلاف جوائنٹ سیکٹر انچارج آدم خان ابڑو کی قیادت میں کارکنا ن نے ڈسٹرکٹ پریس کلب جعفرآباد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ کارکنان نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔ اس موقع پر آدم خان ابڑو،کامریڈ عبدالمجید بنگلزئی و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، لیکن قائد تحریک الطاف حسین کی قیادت میں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔