اقلیتوں کے تحفظ کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کب کی جائیگی

لاہور کی دہشت گردی کے بعد مسیحیوں نے جو ردعمل ظاہر کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔

لاہور کی دہشت گردی کے بعد مسیحیوں نے جو ردعمل ظاہر کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور کی مسیحی بستی یوحنا آباد میں دہشت گردی کا جو واقعہ ہوا اس میں 21 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 7 مسلمان بھی ہیں یہ مسیحیوں کے خلاف پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی گرجا گھروں میں دہشت گردی ہو چکی ہے۔

پشاور چرچ دہشت گردی میں 100سے زائد افراد مارے گئے تھے لیکن لاہور کی دہشت گردی کے بعد مسیحیوں نے جو ردعمل ظاہر کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ مسیحیوں نے اس سے پہلے اس قدر شدید ردعمل ظاہر نہیں کیا حالانکہ اس سے پہلے سانحہ گوجرہ میں مسیحیوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی جس میں دس افراد مارے گئے۔ شانتی نگر میں بھی مسیحیوں کے گھر جلائے گئے ۔ لاہور میں بادامی باغ جوزف کالونی نذر آتش کی گئی ۔ سانگلہ میں دو چرچ اور دو سکول جلائے گئے۔ سابق وفاقی وزیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی شہباز بھٹی کو قتل کیا گیا۔ مسیحیوں کی بزرگ نسل تو یہ ظلم برداشت کرتی آرہی ہے لیکن ان کی نوجوان نسل اندر ہی اندر سلگ رہی تھی جس کا اظہار یوحنا آباد کے سانحہ کے بعد دیکھنے میں آیا۔

پاکستان میں مسیحی برادری کمزور ترین اقلیت ہے اور اس کو ٹارگٹ کرنا بھی سب سے آسان ہے ۔ پنجاب میں مسیحیوں کو بڑے منصوبے کے تحت مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن حکومتی سطح پر پنجاب میں مسیحیوں کی بستیوں اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کیلئے وہ سنجیدگی نظر نہیں آئی جس کا حالات تقاضا کرتے ہیں۔ یوحنا آباد کی بستی بھی غریب بستی ہے سرمایہ داروں کی نہیں ہے شانتی نگر اور جوزف کالونی میں بھی غریب ہی تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ان کی حفاظت کیلئے جامع منصوبہ بندی نہیں کی۔

سپریم کورٹ نے بھی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے اقدامات اور خصوصی ٹاسک فورس بنانے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود ان کی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے گئے۔ شہباز بھٹی کو بطور وفاقی وزیر دھمکیاں مل رہی تھیں جس پر انہوں نے مزید سکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ بھی کر رکھا تھا مگر انہیں بلٹ پروف گاڑی نہ دی گئی ابھی تک ان کے قاتلوں کے خلاف بھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس کیس میں گواہان کو پیش نہیں ہونے دیا گیا اور ان کے بھائی ڈاکٹر پال بھٹی کو بھی دھمکیاں دی گئیں جس پر وہ زیادہ وقت بیرون ممالک رہنے پر مجبور ہیں۔

ڈاکٹر پال بھٹی نے اپنی ذاتی بلٹ پروف گاڑی خریدنے کیلئے وفاقی حکومت کو دو سال سے درخواست دے رکھی ہے مگر وزارت داخلہ نے ابھی تک انہیں لا ئسنس جاری نہیں کیا۔ وزیراعظم کے حکم کے باوجود وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ سینٹر کامران مائیکل کو بھی بلٹ پروف گاڑی نہیں مل سکی، سابق دور میں بطور صوبائی وزیر خزانہ انہیں بلٹ پروف گاڑی دی گئی تھی۔ اس طرح صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلتی امور خلیل طاہر سندھو کئی بار اپنی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں لیکن انہیں بھی بلٹ پروف گاڑی نہیں دی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء کو تو بلٹ پروف سکیورٹی فراہم کرنی چاہیے۔


یوحنا آباد میں جو دہشت گردی ہوئی اس کا امکان تھا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ تھی کہ پنجاب میں دہشت گرد داخل ہوئے ہیں ۔ گرجا گھروں کی حفاظت کیلئے پولیس نے کچھ سکیورٹی دے بھی رکھی تھی لیکن یہ سب کچھ روائتی انداز میں کیا گیا ۔ جو دہشت گرد یوحنا آباد تک پہنچے وہ یقنی طور پر لاہور میں ہی کہیں رہے ہوں گے۔ ان کے سہولت کاروں نے ہی کسی مقام پر انہیں خود کش جیکٹ پہنائی ہوگی ۔ یہ لوگ کون ہیں لاہور میں موجود انٹیلی جنس کے اہلکاروں کو اس کا جواب دینا چاہیئے، قوم اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں تنخواہیں ادا کر رہی ہے۔ اگر یہ دہشت گرد واردات سے پہلے پکڑے جاتے تو یہ المناک سانحہ رونما نہ ہوتا اور نہ ہی عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوتی۔

لاہور میں مسیحی برادری نے جو شدید ردعمل ظاہر کیا اس میں ناخوشگوار اور افسوسناک واقعات بھی ہوئے مظاہرین نے توڑ پھوڑ بھی کی، سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچایا خصوصاً میٹرو بس اسٹیشن، نجی گاڑیوں کو نقصان بھی پہنچایا گیا، خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہاں تک کہ دو افراد کو شبے میں پکڑ کر زندہ جلا دیا گیا۔ یہ سب کچھ افسوسناک ہے سوچنا یہ ہے کہ کیا اس کے ذمہ دار حکمران نہیں ہیں۔ ایک سانحہ ہوتا ہے تو وہ صرف مذمتی بیان جاری کرکے خاموش ہو جاتے ہیں ان کی اس خاموشی کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں نے قانون ہاتھ میں لینا شروع کردیا اگر مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ اور صوبائی وزیر انسانی حقوق خلیل طاہر سندھو کردار ادا نہ کرتے تو لاہور میں معاملات مزید بگڑسکتے تھے۔ خلیل طاہر سندھو نے یوحنا آباد مسیحی لیڈر شپ کو مذاکرات پر آمادہ کیا۔

رانا ثناء اﷲ نے بڑی ہمت دکھائی اور وہاں پہنچ کر کامیاب مذاکرات کئے۔ وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو مظاہرین نے یو حنا آباد میں داخل ہونے سے روک دیاتھا۔ دوسری طرف اگر پولیس یا رینجرز حالات کوکنٹرول کرنے کیلئے کوئی ایکشن کرتی تو اس میں ہلاکتوں کاامکان بھی تھا اگر ایسا ہوتا تو پاکستان عالمی سطح پر مزید بدنام ہو جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رانا ثناء اللہ اور خلیل طاہر سندھو نے پنجاب حکومت کو اس بحران سے نکالا ہے۔ وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے متاثرہ خاندانوں کے لوگوں کو ٹیلیفون بھی کئے ۔ یوحنا آباد وزیراعلیٰ شہباز شریف کا انتخابی حلقہ ہے۔ دو اراکین صوبائی اسمبلی شکیل آئیون اور شازیہ طارق بھی اس حلقے میں رہتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ سینٹر کامران مائیکل سانحہ یوحنا آباد کے فوری بعد موقع پر پہنچ گئے اور جنرل ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ کامران مائیکل نے لاہور کی مسیحی لیڈر شپ کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس بھی کی اور مسیحی برادری کو یقین دھانی کروائی کہ اس سانحہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان طالبان یا کسی انتہا پسند نظریات کی حامل سیاسی جماعت کے فلسفے اور جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں مسلمانوں کے بعد اگر کسی دوسری کمیونٹی کا کردار ہے تو وہ اس خطے کے مسیحی ہیں۔ مسیحیوں نے پاکستانی ہونا اس لئے قبول کیا کہ انہیں قائداعظم کے نظریات اور یقین دہانیوں پر پورا یقین تھا۔

یہ یقین دہانی اور نظریات کیا تھے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو قائداعظم کی 11اگست 1947ء میں قانون ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔آئین اور قانون پر عمل در آمد کے دوران بانی پاکستان کی اس تقریر کی روح کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں مسلمان مسجد ، ہندو مندر ، مسیحی گرجا گھر اور سکھ اپنے گردوارے جانے میں آزاد ہوں گے اور ریاست کا مذہب کے معاملے میں کوئی دخل نہیں ہوگا۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو میں ایک بار پھر یاد دلاتا ہوں کہ پنجاب اسمبلی کے مسیحی سپیکر ایس پی سنگھا نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کن ووٹ استعمال کیا۔

ونگ کمانڈر سیسل چوہدری نے بھارت کے خلاف جنگ میں حصہ لیا ، جسٹس کارنیلس آج بھی اصول پسندی اور ایمانداری کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں ۔ پاکستان کا وجود مسیحیوں پر ظلم کرکے قائم رکھنا مشکل ہوگا۔ آج کی دنیا 1947ء کی دنیا سے مختلف ہے۔ پاکستان میں مسیحیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے امریکہ اوریورپ میں اسے محسوس کیا جارہا ہے۔ فیصلہ سازوں کے پاس ابھی وقت ہے وہ اس ملک کو یمن ، شام اور عراق بننے سے بچاسکتے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں قائداعظم کی 11اگست کی تقریر کو مشعل راہ بنانا ہوگا۔
Load Next Story