ایم کیو ایم کا اکتیسواں یوم تاسیس سفرِوفا

خاص طور پر جب 60ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کا وجود نہ تھا تو کراچی میں اُردو زبان سے نفرت کا اظہار کیا گیا

PESHAWAR:
19 مارچ 1984ء کی صبح قومی اخبارات کے اندرونی صفحات پر ایک کالمی خبر اور ایک مدھم سی تصویر شایع ہوئی۔ خبر تھی کہ کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے قائد الطاف حسین ہیں اور ان کی عمر صرف 30 برس ہے۔ کون جانتا تھا کہ یہ چھوٹا سا کارواں وہ کارنامے سرانجام دے گا کہ پاکستان کی سیاست میں سڑسٹھ سال سے جینے والے سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، کلی اختیار حاصل کرنے کے باوجود نہ دکھا سکے۔

بنیادی طور پر تبدیلی یا انقلاب پاکستان کے لیے اب تک شجر ممنوعہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ایم کیوایم کے سفر کو روکنے کی مختلف سطحوں پر کوششیں ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ جو نظام انقلاب ایم کیو ایم نے متعارف کروایا تھا، وہ پاکستان کی قسمت تبدیل نہ کرتا۔ بدقسمتی سے اس تحریک کا راستہ ان عناصر نے روکا جو اقتدار کے ایوانوں پر چمگادڑ کی مانند چپکے ہوئے ہیں اور ملک کو ایک ایسی صورتحال سے دوچار کر دیا کہ ایک بار پھر ملک کی سا لمیت کو خطرات لاحق ہیں۔

مشرقی اور مغربی سرحد غیر محفوظ اور داخلی صورتحال، دہشت گردی، انتہا پسندی اور مختلف عنوانات سے ہونے والی پر تشدد کارروائیوں سے عبارت ہے۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ آخر تمام سیاسی قوتیں بشمول ماضی کے طالع آزما ایم کیو ایم کے خلاف اگر سازشیں کرتے رہے تو کیوں کرتے رہے اور اس قسم کی صورتحال کا سامنا کسی اور جماعت کو کیوں درپیش نہیں؟ اس کا جواب ہے کہ ایم کیو ایم اپنے نظم و ضبط اور قیادت کے عزم کی وجہ سے اتنی مستحکم اور مضبوط قوت کے طور پر آگے بڑھ رہی ہے کہ بارہا اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں نے اسے توڑنے کی کوشش کی۔ کبھی کسی گروپ کو سامنے لا کھڑا کیا تو کبھی جرم سے جوڑ کر اس کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔ کبھی ہارے ہوئے سیاسی گروہوں کو مختلف اتحادوں کی شکل میں سامنے کھڑا کیا گیا۔

ان تمام کوششوں کو ایم کیو ایم نے قائد الطاف حسین کی زیر قیادت عوام کی حمایت سے ناکام بنایا۔ مذہبی سیاسی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی آنکھوں میں ایم کیو ایم اس لیے کھٹکتی ہے کہ الطاف حسین نے سندھ کے شہری علاقوں سے ان کی سیاسی دکانوں کا بوریا بستر لپٹوا دیا تھا۔ مگر اس میں ان سیاسی جماعتوں کی کوتاہیاں بھی شامل ہیں کہ جو ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر ڈرائنگ رومز میں جا بیٹھے تھے اور عوام کی محرومیوں کو آواز دینے والا کوئی نہ تھا۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایم کیو ایم کے خلاف مختلف جہتوں میں سازشیں کی جا رہی ہیں۔ حد یہ ہے کہ ایسے ادارے بھی سیاسی بیانات دینے سے گریز نہیں کرتے جن کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ خالصتاً پیشہ ور ادارے ہیں۔

ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ داخلی سلامتی کے لیے ہر قدم اٹھاتے ہیں لیکن کسی سیاسی محاذ پر نہیں الجھتے، نہ ہی اپنے آپ کو کسی کے خلاف یا حق میں صف آرا کرتے ہیں۔ اس کا سامنا ایم کیو ایم نے 1992ء میں بھی کیا اور آج بھی کر رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی طرح سے الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے الگ کر دیا جائے یا قائد تحریک کا رابطہ عوام سے منقطع کیا جائے لیکن 31 سال کے اس سفرِ وفا میں ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں تو دینا گوارا کیا لیکن ان سازشوں کو ناکام بنا کر رہے یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ سیاسی کارکنان کے خلاف منفی مہم چلائی گئی۔

ان کی جھوٹی عرفیت بنا کر ان کی ایسی کردار کشی کی گئی لیکن جب انھیں دیکھا تو یکسر مختلف پایا۔ قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی، لیکن وطن عزیز کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کے عوام کو میڈیا ٹرائل کے ذریعے ایم کیو ایم سے بد ظن رکھا گیا تا کہ یہ سوچ اور نظریہ جس نے ایک ایسے نظام انقلاب کو جنم دیا تھا جو غریب اور متوسط طبقے کے اندر سے پیدا ہوا اور ان مسائل کا حل لیے ہوئے تھا ۔


جس سے عوام دوچار تھے اور آج بھی پاکستان کے اقتدار پر قابض مافیا یہ چاہتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو جو گزشتہ 28 برسوں سے سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ حاصل کیے ہوئے ہے اسے کمزور کیا جائے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ الطاف حسین کی قیادت اور کارکنان کی وفا ہمیشہ ان سازشوں کے آڑے آئے اور انھوں نے عوام کے حقوق کا تحفظ کیا۔

حال ہی میں پاکستان کے ایوانِ بالا کے انتخابات کے دوران جو طوفانِ بدتمیزی دیکھنے کو ملا وہ پاکستان کے اقتدار پر قابض قوتوں کی کمزور ذہنیت کا عکاس تھا۔ سب نے کروڑوں روپے خرچ کیے لیکن ایم کیو ایم کے امیدواران نے کاغذاتِ نامزدگی کی فیس بھی اپنی جیب سے ادا نہ کی۔ اگر میں یہ کہوں کہ انھوں نے اپنے انتخابات کے دوران جو ٹیلی فون کالز کیں، اس کا خرچ بھی ایم کیو ایم نے اٹھایا۔ بصورتِ دیگر جو لوگ کروڑوں خرچ کر کے ایوان میں آئے، ان کے سامنے ایسے ممبران بھی ہیں جنہوں نے ایک روپیہ بھی اپنی جیب سے خرچ نہیں کیا۔

ہماری سڑسٹھ سالہ تاریخ گواہ کے شہر کراچی میں مختلف جرائم پیشہ مافیا کو ہمیشہ زندہ رکھا گیا تا کہ کراچی کے باشعور عوام الجھے رہیں اور وہ قومی سیاست میں اپنا وہ کردار ادا نہ کر سکیں جسکا کہ وہ حق رکھتے تھے اور اقتدار پر قابض حکمراں وسائل لوٹتے رہیں اور عوام کا معیار زندگی بہتر نہ ہو سکا۔

آج یہ سفرِ وفا اکتیس برس مکمل کر رہا ہے اور پاکستان میں سیاسی استقامت اور عوام کی حمایت کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ اگر سازشی عناصر اپنی سازشوں کے تانے بانے بننے سے گریز کریں اور سیاسی جماعتیں ماضی کی شکست کو تسلیم کریں تو ایک اچھا سیاسی اور جمہوری ماحول پنپ سکتا ہے۔ کراچی میں امن کے وقفے تو آئے لیکن بدقسمتی سے آج تک یہاں پائیدار امن نصیب نہ ہو سکا۔ بعض عناصر یہ کہتے ہیں کہ یہ بدامنی ایم کیو ایم کے قیام کے ساتھ کراچی کا مقدر بنی تو آج میں ا س موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے ملک کے نوجوان طبقے بالخصوص طلبا و طالبات کو یہ دعوتِ فکر دیتا ہوں کہ وہ تاریخ کا مشاہدہ کریں۔

خاص طور پر جب 60ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کا وجود نہ تھا تو کراچی میں اُردو زبان سے نفرت کا اظہار کیا گیا ۔ 1988ء میں جب بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں نے ایک بار پھر ہجرت کی اور وہ اندرونِ سندھ سے سندھ کے شہری علاقوں میں آنے پر مجبور کیے گئے۔ ان کی املاک جو متروکہ املاک ہونے کی بناء پر ان کے حصے میں آئیں، یا تو چھین لی گئیں یا پھر دھوکہ دہی کے ذریعے خورد برد کر لیا گیا۔

یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں محرومیوں کو جنم دیا اور ایک خوف کا ماحول پیدا کیا۔ یہ بات کس طرح کہی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی ایم کیو ایم کے قیام کے بعد شروع ہوئی؟ نسل اور زبان کے نام پر سابق فوجی حکمران کے صاحبزادے نے کراچی میں خون کی ہولی کھیلی اور یہ واقعہ 60ء کی دہائی میں رونما ہوا۔

گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں جو کچھ ایم کیو ایم نے جھیلا ہے وہ اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی سیاسی دکانیں کراچی میں بند کروا دیں اور آج بھی یہ عمل جاری ہے لیکن کارکنانِ ایم کیو ایم وفا اختیار کرتے ہوئے ہر سازش کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور انھوں نے ہر عہد کے آمر اور غاصب کو اپنے اتحاد سے شکست دی ہے۔ تحریک کا یہ سفرِ وفا اپنی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ گو کہ اس کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور ان کو عبور کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ فتح حق کی ہو گی۔

جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
Load Next Story