مسیحیوں کا دشمن ہمارا دشمن
پاکستان میں عبادت گاہیں، مزارات، چرچ اور مذہبی شخصیات ایک عرصہ سے تخریبی کارروائیوں اور حملوں کی زد میں ہیں۔
پاکستان میں عبادت گاہیں، مزارات، چرچ اور مذہبی شخصیات ایک عرصہ سے تخریبی کارروائیوں اور حملوں کی زد میں ہیں۔ انسانیت کے دشمنوں نے اس مرتبہ اپنی خونی پیاس لاہور کے گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف مسیحی برادری کا لہو پی کر بجھائی۔ سانحہ لاہور پاکستان سے نفرت اور اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے سب کچھ کرنے کی انتہا ہے، یا خود کو خود ہی حق بجانب سمجھ کر کسی نے کسی کا انتقام عبادت کے لیے گرجے آنے والے معصوم مسیحیوں سے لیا؟
لاہور کے گرجا گھروں میں ہونے والے خود کش حملوں کو مذہبی یا فرقہ ورانہ واردات کہہ کر دہشت گردی کی دوسری وارداتوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ان دہشت گردوں کے شر سے کوئی محفوظ نہیں، ان لوگوں نے ہمارے فوجی جوان شہید کیے، ہمارے جرنیلوں کو نشانہ بنایا، ہماری پولیس اور رینجرز ان کی بربریت کا نشانہ بنی، یہ جی ایچ کیو پر حملہ آور ہوئے، ہمارے نیوی ہیڈ کوارٹر کو انھوں نے نشانہ بنایا، ان بدبختوں نے زیارت میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی رہائش گاہ تباہ کردی، سری لنکا کی ٹیم پر حملہ، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے دفاتر کو تباہ کیا، نانگا پربت کے سیاحوں کو ہلاک کیا، دوست ملکوں سے آئے ہوئے ہمارے مہمانوں کو بھی نہیں بخشا اور اس کے علاوہ بھی ہر وہ کام کیا جس سے دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوسکتی تھی اور پاکستان کمزور ہوسکتا تھا۔
یہ مسیحیوں کو مارتے ہیں،مسجدوں کو بموں سے اڑاتے ہیں،بزرگان دین کے مزاروں پر حملہ آور ہوتے ہیں، شیعوں اور سنیوں کو شہید کرتے ہیں، مارکیٹوں میں خریداری کرنے والوں کو بلاتمیز رنگ و نسل، مذہب و ملت ہلاک کرتے ہیں، جید علمائے کرام کی جان کے درپے ہوتے ہیں، ان کے نزدیک کسی کا مذہب، کسی کا مسلک، کسی کا عقیدہ کوئی معنی نہیں رکھتا، ان کا مشن صرف پاکستانیوں کو مارنا اور پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا ہے۔
ان کا جو گروہ سنیوں کو مارتا ہے وہی گروہ شیعوں کو مارتا ہے، ان کا جو گروہ گرجا گھروں کو تباہ کرتا ہے وہی گروہ مسجدوں کو بموں سے اڑاتا ہے۔ دہشت گردوں کا اصل مقصد صرف اور صرف پاکستان کے خلاف جنگ ہے، جنونیوں کا یہ گروہ آج تک مختلف مذاہب و مسالک سے تعلق رکھنے والے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ہلاک کرچکا ہے جن میں 90فیصد سے بھی زیادہ مسلمان تھے۔
اسلام نہ صرف اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے بلکہ ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمے داری بھی لیتا ہے، حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمارے لیے اسوہ حسنہ اور رول ماڈل ہے، آپ ﷺ نے میثاق مدینہ کے تحت مذہبی اقلیتوں کو برابرکے حقوق دیے۔ مسلمان فاتح فوجوں کو غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے تقدس کی ہمیشہ ہدایت دی جاتی تھی۔ فتح یروشلم کے بعد شہر کی چابیاں لینے کے باوجود حضرت عمر ؓ نے بیت المقدس کے کلیسائے قمامہ میں نماز ادا کرنے سے انکار کردیا تھا تاکہ مسلمان فاتحین اسے مثال بناکرگرجوں کو مساجد میں تبدیل نہ کریں۔
بازنطینی سلطنت روم کی فتح مسلمانوں کا خواب تھا، جب سلطان محمد فاتح نے استنبول (قسطنطنیہ) فتح کیا تو عیسائیوں کے گرجوں کو انھی کی ملکیت میں رہنے دیا۔ آج بھی مساجد، شہداء اور صحابہ کرام کے شہر استنبول میں شاندار چرچ بھی ملتے ہیں، جنھیں بادشاہ روم نے تعمیر کروایا تھا۔ مذہبی رواداری، احترام انسانیت، نیکی کی راہ پر چلنا اور برائی، گناہ، ظلم اور جرم سے بچنا دین اسلام کی روح ہے، باقی فرائض اس روح کا عملی اظہار ہیں، اپنے عقیدے پر نہ صرف قائم رہنا بلکہ اس پر عمل کرنا اور دوسروں کے مذاہب میں دخل نہ دینا عین اسلام ہے۔
پوری قوم کو اس وقت مسیحی برادری کے غم میں شریک ہونا ہوگا، ان کا درد بانٹنا ہوگا، اور اس عہد کو نبھانا ہوگا جو کہ میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے یہ فرماکر کیا تھا کہ ''ہماری پناہ میں جو مسیحی ہیں، ان کا دشمن ہمارا دشمن ہوگا'' یسوع مسیح کے ماننے والوں پر حیوانی جبلت کی تراشیدہ قیامت توڑی گئی ہے، ان کے لاشے بکھرے ہوئے ہیں جنھیں ہم سب نے ملکر یکجہتی کے ہاتھوں سے سمیٹنا ہے۔
ہاں یہ بھی درست ہے کسی مسیحی یا مسیحیت کے خلاف جنگ نہیں بلکہ یہ تو ایک عام انسان سے اُس کی سانسیں چھین لینے کا وہ غلیظ اور منحوس عمل ہے جو مساجد، مدارس، امام بارگاہوں، میلاد کے جلوسوں، محرم کی مجالس اور جنازے کی نمازوں کے دوران خاموشی اور سہمی نظریں چپ چاپ دیکھتی ہیں، ان درندوں سے مساجد محفوظ ہیں نہ مندر اور نہ ہی گرجا گھروں کا تقدس سلامت ہے۔ یہ مذاہب اور نظریات کے نہیں بلکہ بنیادی طور پر جیتے جاگتے انسان سے بیزار ہیں، جانور جب جنگل چھوڑکر شہر میں آبستے ہیں تو ان کی بقا اسی میں ہوتی ہے کہ شہر جنگلوں میں تبدیل ہوجائے، تہذیب کا نام و نشان مٹ جائے اور طاقت کے بل پر جینے اور مرنے کے فیصلے کیے جائیں۔
وقت آگیا ہے کہ اب ہم یہ رونا دھونا ختم کریں کہ اسلام کی غلط تصویر پیش کی جارہی ہے اور یہ کافر مغربی میڈیا اور غیر مسلم ہی کررہے ہیں۔ ان کے شیطان شیطانیت کرتے رہیں گے، ہم اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھیں کہ ہمارے مسلم اکثریتی معاشرے میں مسلمانوں کا ایک قلیل طبقہ خو دہی پورے خلوص اور محنت سے اسلام کی غلط تصویر پیش نہیں کررہا؟ جو مغرب کو اس کار بد میں اضافے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ہمیں دین کامل کے طور پر اسلام کو انسانیت کے ارتقاء سے جوڑنا ہے اور اسی تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے، پھر اسلام کی صحیح تشریح اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں عملی اختیاریت سے اسلام کے فروغ اور دنیا میں اس کی قبولیت کا ذریعہ بننا ہے۔ یہ انداز غیر مسلموں پر ثابت کرے گا کہ اسلام دین کامل اور دین انسانیت ہے۔
پاکستانی مسلمانوں نے لاہور کے گرجا گھروں میں دہشت گردی سے زندگیوں سے محروم ہونے والوں سے فقط تعزیت ہی نہیں کرنی، انھیں حوصلہ ہی نہیں دینا اور ان سے محض شرمندہ ہی نہیں ہونا بلکہ ان پر عملاً ثابت کرنا ہے کہ ہم اسی پاکستانی معاشرے میں ایک سماج کے پرامن یکساں حقوق کے مالک اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے والے لوگ ہیں۔