کون کس کو کھا جائے گا
یہاں سب لوگ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرنے کے لیے موجود ہیں۔
یہاں سب لوگ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرنے کے لیے موجود ہیں۔ جو کام برا ہو جائے اُسے دوسرے کے منہ پر مارنے اور جو کام غلطی سے اچھا ہو جائے اُس کا سہرا پہننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔
جس کام میں اپنی دُم پر پاؤں آ جائے اُسے ایک ڈراؤنا خواب بنا دیتے ہیں اور جس چادر سے دوسرے ننگے دکھائی دیتے ہوں اُس کو اشتہار کے طور پر لگا کر خود کو بہت بڑا فاتح سمجھا جاتا ہے۔ جہاں اپنے مفاد کی دکان چلانی ہو وہاں ہر ستم پر آنکھیں بند ہوتی ہیں اور جب خون کے دریا میں ہاتھ دھونے ہوں تو کون صاف پانی ڈھونڈھنے جاتا ہے۔ کیوں ایک طرف اگر بندوق آگ اُگل رہی ہو تو ہم پھولوں کے تحفے پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف جب کوئی اپنے شیشہ کا گھر لے کر آئے تو ہم پتھروں کی بارش کر دیتے ہیں۔
جس جگہ ہمیں اپنے جھنڈے لگانے کا موقعہ نہ ملے وہاں دوسرے کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلائی جاتی ہے اور جس سے ہمارے سینے پر تمغے سج رہے ہوں وہاں ہماری آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ آخر ہم آج تک اپنی ہار اور اپنی جیت کا کوئی ذمے دار کیوں طے نہیں کر سکے۔
اور ہر واقعے اور سانحے کے ہمارے ہیرو کیوں ہر وقت بدلتے رہتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق دیکھیں ایک وقت میں ہم نے اس ملک کے کمیونسٹوں کو فتویٰ دے کر قتل کرایا اور پھر انھیں وزیر بھی بنایا۔ یہاں پشتون، بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کو ملک بدر کیا، پھانسیاں دلانے کے لیے دن رات ایک کیا، غدار کے خطاب دیے، جیلوں میں بند کیا اور پھر اُن کو حکومتیں بھی دیں۔ مذہب کا بھرپور استعمال کیا، کبھی کمیونسٹوں کے خلاف، کہیں قوم پرستوں کے خلاف، انھیں اعلیٰ مرتبے دیے، انھیں ایک انٹرنیشنل ہیرو بنایا اور پھر ہم نے کیا کیا ۔۔؟ MQM کو وزارتیں ملیں، پھر غدار کا خطاب، دہشت گرد اور پھر حکومت ملی۔
مجھے تو بس یہ جاننا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر وہ وقت کب دیکھنا ہے جب کچھ لوگوں کے موڈ تبدیل ہوں گے اور وہ پھر سے MQM کو ایک انقلابی جماعت مانیں گے۔
یہاں کا مسئلہ کیا ہے۔؟ ہم کیا طے نہیں کر پا رہے یا پھر ہم کیا طے نہیں کرنا چاہتے۔ یہ کہ آخر اس ملک میں حب الوطنی کا خطاب ہم کسے دینگے۔؟ آخر اس ملک میں یہ کون طے کرتا ہے کہ کب کس نظریہ کے حامل لوگوں کو استعمال کرنا ہے اور کب انھیں ردی کے ٹوکرے میں ڈال دینا ہے۔ کب انھیں انقلابی ثابت کرنا ہے اور پوری دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ اب ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی اور کون یہ طے کرتا ہے کہ آخر اس اسلامی جمہوری پاکستان میں غداری کی تعریف کیا ہو گی۔ اور اس دھرتی پر کون سے نظریات کے ماننے والوں کو کتنے دن کا بادشاہ بنایا جائیگا۔
اس عجیب کھیل میں ہمیشہ یہ الجھن رہتی ہے کہ آخر اس کھیل کا اصل کھلاڑی کون ہے ۔ بظاہر نظر یہ آتا ہے ہماری جمہوری حکومت کے پاس آئینی تمام اختیارات موجود ہیں لیکن یہاں سب زبانیں ایک ہی بات پر متفق ہیں کہ کیا پاکستان کے دفاعی، خارجہ اور اہم فیصلے واقعی یہ حکومت کر رہی ہے۔؟
ایک بہت بڑا طبقہ یہ خیال رکھتا ہے کہ یہ فیصلے حکومت نہیں کرتی تو اب اگلا سوال یہ اٹھتا ہے تو پھر حکومت میڈیا کے سامنے آ کر کن کن معاملات کی ذمے داریاں قبول کرتی ہے اور کس کے کہنے پر کرتی ہیَ ؟ اور کیا اُن فیصلوں پر پوری حکومت ساتھ ہے یا پھر یہ کسی ایک خاص ''لابی'' کے حق میں جاتی ہے۔ آخر اس سارے معاملہ کو سمجھنے کی ضرور ت ہے۔ یا پھر ہم سب جیسا ہے ویسا ہی چلنے دے؟
مثال لیجیے کے آخر کراچی کا آپریشن کون کر رہا ہے اور اس کا سربراہ کون ہے؟ یہاں سے آپ کو پورے ملک کی انتظامی صورتحال سمجھ آ جائے گی۔ پہلا خیال آپ کے ذہن میں وہ ہی آئیگا جو ہمیں رٹایا گیا ہے۔ کہ کراچی آپریشن کا سربراہ وزیر اعلیٰ ہے۔ تو کیا وزیر اعلیٰ کے احکامات پر اس وقت لیاری میں آپریشن ہو رہا ہے۔ اُن کی مرضی سے کالعدم جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہو رہا ہے۔
لیاری جسے پیپلز پارٹی ہمیشہ اپنا قلعہ کہتی آئی ہے اور اُس کا ہمیشہ یہ کہنا رہا کہ اُس کا کبھی کوئی مسلح گروپ نہیں رہا۔ ایسا کیا تھا کہ جب پیپلز پارٹی کی صوبائی اور وفاقی حکومت تھی اُس وقت پیپلز پارٹی اپنی خواہش کے باوجود اپنی جماعت کا اثر وہاں کھوتی گئی اور گینگ مضبوط ہو گئے۔
جو لوگ زمینی حقائق سے واقف ہیں انھیں معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی کیوں بے بس تھی اُس وقت آپریشن کرنے میں۔ جب یہ ہی پولیس تھی یہ ہی رینجرز تھی تو پھر جو کام وہ اپنی وفاقی اور مضبوط صوبائی حکومت کے دوران نہیں کر سکی۔ وہ کیا اب اتنی طاقت رکھتی ہے کہ لیاری میں گینگز کی چھٹی کرا دے؟ پیپلز پارٹی، کراچی کے جن علاقوں سے ووٹ حاصل کرتی ہے وہاں مزارات کو بند کر دیا گیا وہاں دہشت گردوں نے لوگوں کو اجتماعی طور پر قتل کر دیا لیکن پیپلز پارٹی وہاں اُن کے خلاف آپریشن نہیں کر سکی۔ اور خاص طور پر جب اس طرح کی دہشت گردی کی ڈوریں پورے ملک اور بین الاقوامی طور پر ایک ساتھ ہلائی جاتی تھیں یا ہلائی جا رہی ہیں تو کیا ایسے لوگوں پر آپریشن کی سربراہی وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کر رہے ہونگے ۔۔؟ یا پھر کوئی اور ۔۔؟ ایک دن پہلے پیپلز پارٹی اور MQM کے درمیان ایک مضبوط رابطے کے تحت رضا ربانی کو اسپیکر بنایا جاتا ہے۔
اور پھر اگلے دن 90 پر مبینہ آپریشن ہو تا ہے اور زرداری صاحب اس کی مخالفت کرتے ہیں تو کیا خیال ہے آپ کا اُس کی سربراہی قائم علی شاہ کر رہے ہونگے۔۔؟ خیر آپریشن کوئی بھی کر رہا ہو کہنا صاف سیدھا یہ ہے کہ کراچی میں خون خرابہ روکنا چاہیے اورکسی کو بھی کسی کے پیچھے چھپنا نہیں چاہیے۔ ایک دوسرے کے کاندھوں پر رکھ کر میٹھا میٹھا مت کھائیں۔ غیر معمولی حالات میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کس کے پاس فیصلہ کا اختیار ہے، جب چہرے کسی اور کے ہوں اور طاقت کسی اور کے پاس تو پھر زیادہ امکان یہ ہوتا ہے کہ کشتی ڈوبے گی۔ ایک یادگار مثال سے بات آسان ہو جائے گی ۔
پہلی جنگ عظیم میں برطانوی حکومت سیاسی دباؤ کا شکار تھی۔ وزیر اعظم ہر برٹ ایسکوئتھ جنگی معاملات میں کافی پریشان تھے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی اور اختلافات کو دور کرنے میں مصروف رہتے تھے ایسے میں سیکریٹر ی اسٹیٹ ڈیوڈ لائیڈ کے اختیارات کم ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک تحریک اندرونی طور پر شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ ایک چھوٹی تین رکنی کمیٹی بنائی جائے جس کا سربراہ سیکریٹری آف اسٹیٹ ہونا چاہیے اور جب وزیر اعظم اس کے سربراہ بننا چاہیں وہ بن سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے سیاسی معاملات کو سلجھانے کے لیے اس کی حمایت کر دی مگر اس وقت کے ٹائمز میں ایک مضمون شایع ہوا جس کے بعد اُن کا موڈ تبدیل ہو گیا۔
کہ آخر فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہو گا۔ سیکریٹری کے پاس، کیمٹی کے پاس یا پھر وزیر اعظم کے پاس، سیاسی سازشیں اتنی بڑھ گئی کہ وزیراعظم کو استعفی دینا پڑ گیا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ وزیر اعظم کا دوست کون ہے۔ مگر بعد میں بات سمجھنا بہت آسان تھی کیوں کہ اُن کے دور کا سیکریٹری آف اسٹیٹ ہی وزیر اعظم بن گیا۔ میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ موجودہ حکومت میں چند وزیروں اور سیکریٹریوں کو ڈھونڈھیں اور اندازہ لگائیں کہ کس کو فیصلے کا اختیار چاہیے۔ انھیں تو نہیں معلوم یہ سمجھنا بھی ہے کہ نہیں لیکن ہمیں سمجھ آ گیا ہے کہ دوستی دور کی ہی اچھی ہونی چاہیے۔