جیب کتروں سے ہوشیار رہیں…

جیب کتروں نے تحریک انصاف اور عمران خان کے امن مارچ کو ’’ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ‘‘ سمجھ کر کھیلا


Tahir Sarwar Mir October 08, 2012
[email protected]

جیب کترے بھی عجیب مخلوق ہوتے ہیں، بڑے سے بڑے لیڈر کی مقبولیت اور گلیمر سے بھی متاثر نہیں ہوتے۔

وطن عزیز میں جہاں کہیں تاریخی قسم کے جلسے، دھرنے، ریلیاں اور امن مارچ ہوتے ہیں یہ ''اقلیت'' اکثریت کو لوٹنے میں مصروف عمل ہو جاتی ہے۔ قومی اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں میں بیان کیا گیا ہے کہ جیب کتروں نے تحریک انصاف اور عمران خان کے امن مارچ کو ''ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ'' سمجھ کر کھیلا اور درجنوں افراد کی جیبیں کاٹ لیں۔

امن مارچ میں شریک افراد کو جیب کتروں سے خبردار کرنے کے لیے مائیکرو فون پر بھی اعلان کیا جاتا رہا کہ... امن مارچ میں جیب کتروں سے ہوشیار رہیں... بیان کیا جا رہا تھا کہ امن مارچ میں درجنوں جیب کترے متحرک ہو چکے ہیں لہذا ان سے اپنے آپ کو محفوظ کرتے ہوئے اپنی منزل (کوٹ کئی) کی جانب بڑھتے جائیں۔ امن مارچ کے حوالے سے خطرہ کے گھنٹیاں بھی بج رہی تھیں کہ خدا نخواستہ اس پر کوئی حملہ نہ ہو جائے۔

اس ضمن میں عمران خان نے تو ایڈوانس کے طور پر ایف آئی آر صدر زرداری اور مولانا فضل الرحمن پر یوں درج بھی کرا د ی ہے کہ... خطرہ طالبان سے نہیں زرداری اور فضل الرحمٰن سے ہے... عمران خان نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ کچھ بھی ہوا تو اس کی ذمے دار ی، صدر زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن پر ہو گی۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ مدعی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ چکانے کی غرض سے ''مبینہ ملزمان'' کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے ہوئے وقوعہ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے ساتھ، ساتھ نقد رقم، سونے کے زیورات، پرائز بانڈ اور دوسری قیمتی اشیاء بھی لکھوا دیتے ہیں تا کہ مال مسروقہ بھاری مقدار میں برآمد کیا جا سکے۔ اگر عمران خان بھی اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ ایسے ''باونسروں'' پر اتر آئے ہیں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ان کا کوئی ایسا بیان بھی سامنے آئے کہ... خطرہ طالبان سے نہیں، جیب کتروں سے ہے...

میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کے آغاز میں جیب کتروں کی زندگی پر کئی ایک فیچرز کیے تھے۔ اس ضمن میں پنجاب کے مختلف شہروں میں قائم ''جامعات'' سے فارغ التحصیل جیب کتروں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ صوبہ بھر کے شہروں سے تعلق رکھنے والے جیب تراشوں سے میری ملاقاتیں کوٹ لکھپت جیل اور کیمپ جیل میں ہوئیں جہاں یہ جیب تراشی کرنے کے جرم میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر قید تھے۔ مذکورہ جیلوں میں قید ان جیب تراشوں نے مجھے بتایا کہ گجرانوالہ، لاہور، راولپنڈی، پشاور، حیدر آباد، حافظ آباد، سیالکوٹ، میرپور، مظفر آباد، جھنگ، سرگودھا، فیصل آبا د سمیت دوسرے شہروں میں جیب تراشی کے ٹریننگ کیمپ موجود ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ جیب تراشی کی ''اعلیٰ تعلیم'' کراچی میں دی جاتی ہے۔ اس وقت میرے لیے یہ انکشاف بڑا دلچسپ تھا، جیب تراشوں نے بتایا کہ ہم میں سے جو جیب تراش ''اعلیٰ کارکردگی'' کا مظاہرہ کرتا ہے استاد اسے جیب تراشی کی مزید تربیت کے لیے کراچی بھیجتا ہے۔ جہاں سے ٹریننگ کے بعد جیب تراش ہماری برادری میں ''ایگزیکٹیو'' سمجھا جانے لگتا ہے۔ جیب تراشوں نے بتایا تھا کہ سیاسی جلسے جلسوں کے علاوہ مذہبی اجتماعات ان کے لیے عیدین بن کر آتے ہیں۔ ماضی میں جیب ترا شی کے سنہری مواقع بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے جلسوں کے علاوہ میاں نواز شریف کے جلسے جلوسوں میں میسر آتے تھے ۔

بھٹو صاحب کے جلسوں میں ہزاروں لوگ انھیں بڑے انہماک سے سن رہے ہوتے تھے اور اسی دوران جیب تراشوں کی ''مشینیں'' اپنا کام دکھا دیتیں۔ جیب تراشی کی دنیا میں جیب تراش کے لیے ''مشین'' کی اصطلاح کوڈ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ پانچ سے دس افراد پر مشتمل ایک گروہ کی صورت میں وارداتوں کی غرض سے نکلتے ہیں۔ 5 سے 10 افراد پر مشتمل گروہ میں 5 سے6 جیب تراش ہوتے ہیں جب کہ ان کے ساتھ 3 محافظ اور ایک چیف محافظ ہوتا ہے جسے ''تھاموں'' کہا جاتا ہے۔ چیف یا تھاموں ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لیے گروہ کی نگرانی کرتا ہے۔

جب کبھی کوئی جیب تراش موقعہ واردات پر رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے تو لوگ ''رواج کے مطابق'' اس کی پٹائی کرنے لگتے ہیں۔ جیب تراش کے گروہ کے اراکین بھی لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے ساتھی کی پٹائی کرتے ہیں، پھر تھاموں آگے بڑھ کر زخمی جیب تراش کو چھڑاتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ... وہ ابھی اس حرام خور کو پولیس کے حوالے کرتا ہے... اس کے بعد تھاموں اپنے ''معزز رکن'' کو موقع واردات سے لے کر رفو چکر ہو جاتا ہے... قارئین! آپ سوچ رہے ہوںگے کہ میرا آج کا کالم عمران خان کے امن مارچ سے متعلق ہے یا جیب تراشوں کی ُپر خطر زندگی کے بارے میں...؟

میں امن مارچ کی طرف ہی آ رہا ہوں لیکن اس قبل جیب تراشی کے دھندے کے حوالے سے آخری بات یہ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ بھیڑ اور عوامی اجتماع ان کے لیے کھیل کا میدان اور اسٹیج جیسی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جہاں یہ اپنے فن کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ جیب تراش کسی امن مارچ کے لیے کتنے افراد پر مشتمل ''وفد'' تشکیل دیتے ہیں، یہ میں اس لیے نہیں جان سکا کہ مجھے ان سے رابطہ منقطع کیے ہوئے لگ بھگ 23 سال ہو گئے ہیں۔

گذشتہ 15 سالوں میں قدرے سست قدم مگر پچھلے دو سے ڈھائی سال میں عمران خان کی سیاست تیز گام ہو گئی ہے۔ عمران خان سے پہلے بھٹو صاحب، محترمہ شہید اور میاں نواز شریف کے جلسوں کو جیب تراش ''احترام کی نگاہ'' سے دیکھتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جیب تراشوں نے اس ضمن میں کوئی سروے کرایا ہے یا نہیں کہ کونسے لیڈر کا جلسہ، جلوس، دھرنا، ریلی اور امن مارچ ان کی نظر میں ''ہیوی مینڈیٹ'' ہوتا ہے۔

مراد یہ ہے کہ صدر زرداری جب اپنا سالانہ خطاب جو وہ عموماً نو ڈیرو میں کرتے ہیں تو جیب تراشوں کی زیادہ سے زیادہ کتنی چاندی ہوتی ہے؟ یا دوسرے الفاظ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے جیب تراش صدر زرداری کے نوڈیرو میں خطاب سے کتنا ''زر مبادلہ'' کما کر صوبہ میں واپس لوٹتے ہیں؟ انھی ''زریں اصولوں'' کے تحت عوامی نیشنل پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی مقبولیت بھی جانچی جا سکتی ہے۔ یہ بھی سراغ لگایا جانا چاہیے کہ چوہدریوں کی پیپلز پارٹی سے ''جادو کی جھپی'' کے بعد قاف لیگ کی ریٹنگ جیب تراشوں میں کس قدر بڑھی ہے؟

تازہ ترین سروے کے مطابق نون لیگ اور میاں نواز شریف کی اصولی سیاست کا گراف بلند ہوا ہے جب کہ ایم کیو ایم حسب روایت اور حسب معمول اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاست کمال کی ہے اس کا ہر فیصلہ اسے میڈیا، عوام اور اس کے ووٹروں میں مقبول بنا دیتا ہے جب کہ اس کی حلیف پیپلز پارٹی سندھ جو اس کا گھر اور گڑھ سمجھا جاتا ہے اسے وہاں سے کثرت سے گالیاں ملتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دور اندیشی اور ''قدم بڑھاو، گالی کھاو'' جیسی پالیسیوں کی نذر منیرؔ نیازی کا ایک شعر

اسے زہریلی خوشبووں کے رنگیں ہار دیتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوںُ اُسی کو مار دیتا ہوں

عمران خان کے امن مارچ کے حوالے سے دو بڑی آراء ہیں: اول یہ کہ عمران خان کا فیصلہ بہادری کی روشن مثال ہے ان کے اس عمل سے عالمی سطح پر ڈرون حملوں کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو سکے گی۔ دوسری رائے چوہدری نثار علی خان کے اس بیان سے اخذ کی جا سکتی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ... تیزی سے گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو امن مارچ کے ڈراموں سے بحال کرنے کی کوشش ناکام رہے گی۔ چوہدری نثار اور عمران خان ایک دوسرے کا ''سیاسی شریکا '' ہیں، اس لیے اس بیان کو ''سروے'' قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عالمی حقیقت یہ بھی ہے کہ ناگاساکی اور ہیروشیما پر (فیٹ مین) اور (اسمال بوائے) نامی ایٹم بم مارنے والے سنگدل امن مارچ سے نہیں گھبراتے، اس طرح کے میگا ایونٹس سے زیادہ سے زیادہ جیب تراشوں کی چاندی ہی ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں