اب پھر ایک سوال ۔۔۔۔۔ تُو کون اور میں کون

کسی مسلم کے خون کا رنگ کسی غیر مسلم کے خون کے رنگ سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔

کسی مسلم کے خون کا رنگ کسی غیر مسلم کے خون کے رنگ سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔ فوٹو اے ایف پی

یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر سچائی یہی ہے کہ ہمیں متحد ہونے کے لئے سانحات کی ضرورت ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پشاور جیسے دل فگار سانحہ کے بعد دیکھی گئی کہ کس طرح اس نے منتشر و منقسم قوم کو یکجان کردیا تھا۔ اس سانحہ نے ملک میں سیاست سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی کا دھارا ہی موڑ دیا، جو سیاستدان ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہ تھے وہ ایک ہی میز پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ گئے۔

سیاسی بے یقینی اور دھرنا سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ عسکری ادارے اور حکومت جن کے بارے میں یہ یقین دہانی کرانی پڑتی تھی کہ دونوں ایک ہی پیج پر ہیں، وہ حقیقتاً ایک ہی صفحے حتیٰ کہ ایک ہی لائن پر آگئے۔ مجرموں کو نڈر و بے خوف اور تمام مصلحتوں سے بالا تر ہو کر کیفر کردار تک پہنچایا جانے لگا، ایسے میں دہشت گردوں کے خلاف قومی اتفاق رائے اور 20 نکاتی قومی ایکشن پلان سونے پر سہاگا ثابت ہوا۔ ملٹری کورٹس کے فیصلے کو اگرچہ کڑوا گھونٹ کہا گیا مگر یہ بھی ساتھ ساتھ تسلیم کیا گیا کہ اب اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ ملکی معاملات میں بھی یکا یک درستی ہونے لگی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان سب چیزوں پر اوس پڑگئی، اور سینیٹ الیکشن نے ایک بار پھر سب کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا۔

امن و امان کی صورتحال پر طرح طرح سوال اٹھنے لگے، اتفاق رائے کی وہ فضا جو سانحۂ پشاور کے بعد سے مسلسل نظر آ رہی تھی یکایک تحلیل ہونے لگی۔ پہلے شکارپور کو خون سے نہلا کر مذموم مقاصد کی راہ ہموار کرکے پاکستانی قوم کو اہل سنت اور اہل تشیع میں تقسیم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، مگر جب دیکھا گیا کہ یہاں پر دال نہیں گل رہی تو پھر اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ ابھی تو زخمیوں کی تعداد بھی درست معلوم نہیں ہوئی تھی کہ میڈیا و سوشل میڈیا پر ''اقلیت پر حملہ'' کہہ کر شور مچا دیا گیا اوریکجان پاکستانی قوم کو یکدم اکثریت اور اقلیت کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ پھر وہی ہوا جو جلتی پر تیل چھڑکنے کے بعد ہوتا ہے۔ افتراق کی آگ اس طرح بڑھکی کے ملک دشمن عناصر کے سوا کسی نے بھی اس کے نتیجے پر غور نہیں کیا ہو گا۔

یوں محسوس ہوا کہ ہمارا ''بے چہرہ دشمن'' ایک بار پھر اپنے مقاصد کے حصول کے قریب پہنچ گیا ہے کہ پاکستان کو کسی طرح دوبارہ 1980 اور1990کی اس دہائی میں دھکیل دیا جائے، جب فرقہ واریت اور مذہبی عصبیت کا ناسور جسدِ وطن کیلئے ایک روگِ مسلسل بنا ہوا تھا۔ اگرچہ ابھی بھی ہم عصبیت کے خارزاروں سے مکمل آزاد نہیں ہوئے، مگر اس گھپ اندھیرے میں روشنی کی کچھ کرنیں ضرور نظر آنا شروع ہوگئی تھیں اور قوم نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ یہ عصبیت اور یہ فرقہ واریت درحقیقت اغیار کا تیار کیا گیا ایک الاؤ ہے جس میں ایندھن ہم فراہم کررہے ہیں، اور جیسے جیسے یہ سوچ پروان چڑھتی گئی ویسے ویسے یہ آگ بھی ماند پڑتی گئی۔ مگرعیسائیوں کے روزوں کے دوران، اتوار کے مذہبی دن عبادت گاہوں پر ہونے والے خود کش حملوں نے کسی اقلیت کو نہیں بلکہ قوم کے اتحاد کو نشانہ بنایا۔


اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ ہمارا دشمن جب مساجد، امام بارگاہوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بناتا ہے تو اس کے نزدیک سامنے والا شیعہ، سنی یا عیسائی نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اور صرف پاکستان پر حملہ کرتا ہے۔ ہم خواہ خود کو شیعہ، سُنی، سندھی، بلوچ، پنجابی، پٹھان و مہاجر، مسلمان، عیسائی، ہندو، سکھ سمیت کتنے ہی جھمیلوں میں الجھالیں، اپنے مشترکہ دشمنوں کے نزدیک ہم صرف ایک پاکستانی کی حیثیت ہی رکھیں گے، کسی مسلم کے خون کا رنگ کسی غیر مسلم کے خون کے رنگ سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔

خود کش حملہ آور پنجابی، سندھی، مہاجر یا پٹھان اور بلوچ میں کوئی تخصیص نہیں کرتا، بندوق سے نکلی گولی بھی سامنے والے سے اس کا مذہب و عقیدہ نہیں پوچھتی۔ ساخت، وضع قطع میں ایک انسان دوسرے سے مختلف نہیں ہے اگر کہیں پر کوئی اختلاف ہے تو وہ اس ''من و تُو'' سوچ کا ہے، جس کی ہم جانے انجانے میں آبیاری کر رہے ہیں۔ فرازؔ نے ایسے موقع کے لئے کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ؛
پھر وہی آگ در آئی ہے میری گلیوں میں
پھر میرے شہر میں بارود کی بُو پھیلی ہے
پھر سے تُو کون ہے، میں کون ہوں، آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story