اب جنوبی افریقہ سے خطرناک کوئی ٹیم نہیں
جنوبی افریقہ پر تاریخ کاکتنا بڑا بوجھ اور دباؤ تھا،اس کا اندازہ پچھلےعالمی کپ ٹورنامنٹس پرنظریں دوڑا کرکیا جاسکتاہے۔
23 سال پہلے، مارچ 1992ء میں سڈنی کا میدان تھا اور عالمی کپ کا سیمی فائنل، جہاں جنوبی افریقہ کو 13 گیندوں پر 22 رنز کی ضرورت تھی، جب بارش شروع ہو گئی۔ کچھ دیر بعد جب مقابلہ دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت کے قانون کے مطابق گیندیں گھٹا دی گئی اور جنوبی افریقہ کو صرف ایک گیند پر 22 رنز کا ناقابل عبور ہدف دیا گیا۔
دل شکستہ جنوبی افریقہ عالمی کپ سے باہر ہو گیا اور اس کے ساتھ ایک ایسی بدشگونی اس کے ساتھ چپک گئی کہ پھر جب کبھی وہ عالمی کپ کے ناک-آؤٹ مرحلے میں آیا، پہلے ہی مقابلے میں شکست کھائی۔ لیکن اب وہی مارچ کا مہینہ، وہی سڈنی کا میدان اور وہی عالمی کپ کا پہلا ناک-آؤٹ مقابلہ، جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو باآسانی 9 وکٹوں سے ہرا دیا اور یوں انگریزی مقولے کے مطابق اس بندر کو کاندھے سے اتار پھینکا ہے، جو عرصہ دراز سے اس سے چمٹا ہوا تھا۔
جنوبی افریقہ پر تاریخ کا کتنا بڑا بوجھ اور دباؤ تھا، اس کا اندازہ پچھلے عالمی کپ ٹورنامنٹس پر نظریں دوڑا کر کیا جا سکتا ہے۔ 1992ء میں بدقسمتی سے باہر ہو جانے کے بعد 1996ء میں کوارٹر فائنل، 1999ء اور 2007ء میں سیمی فائنل اور 2011ء میں ایک مرتبہ پھر کوارٹر فائنل میں شکست نے جنوبی افریقہ کو ''چوکرز'' کا لقب دیا کہ یہ وہ ٹیم ہے جو بڑے مقابلوں کا دباؤ برداشت نہیں کر پاتی۔
حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ ان میں سے دو مقابلے تو انھوں نے ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ جیسے کہیں کمزور حریفوں کے مقابلے میں ہارے۔ پھر جاری عالمی کپ کے گروپ مرحلے میں بھی جنوبی افریقہ کی کارکردگی مثالی نہیں تھی۔
اسے بھارت اور پاکستان کے ہاتھوں بْری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کوارٹر فائنل میں اس کا مقابلہ برصغیر کی تیسری بڑی کرکٹ قوت کے ساتھ تھا۔ جہاں جنوبی افریقہ نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً لنکا ڈھا دی۔ سری لنکا جیسی بہترین بیٹنگ لائن کو صرف 133 رنز پر ڈھیر کرنا جنوبی افریقہ کی باؤلنگ لائن کی کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیل اسٹین، مورنے مورکل اور کائل ایبٹ کی تیز باؤلنگ مثلث ایک طرف اسپنر عمران طاہر اور جے پی دومنی نے جس طرح مڈل آرڈر پر قہر برسایا، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ٹورنامنٹ کی مکمل ترین باؤلنگ لائن جنوبی افریقہ کے پاس ہے۔
پھر 134 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کے وہ بلے باز بھی چلے، جو پورے عالمی کپ میں ناکام ہوئے تھے۔ کوئنٹن ڈی کوک، جن کی فارم جنوبی افریقہ کے لیے کافی پریشانی کا باعث تھی، اہم ترین مقابلے میں 78 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے اور اگر ہدف مزید دور ہوتا تو شاید سنچری بھی بنا جاتے۔
یوں سری لنکا نے جاتے جاتے جنوبی افریقہ کے ایک اور سوتے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے۔ صرف 18 اوورز میں محض ایک وکٹ کے نقصان پر جنوبی افریقہ نے ہدف حاصل کر لیا اور یوں سری لنکا کو عالمی کپ کی دوڑ سے باہر کر دیا۔
سری لنکا مسلسل دو عالمی کپ فائنل کھیل چکا ہے۔ 2007ء میں اسے آسٹریلیا اور 2011ء میں بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی اور کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے تیسری اور آخری بار اس خواب کو حقیقت کا روپ دینا چاہتے تھے لیکن کہانی کوارٹر فائنل میں ہی ختم ہو گئی۔ یوں دو عظیم کھلاڑیوں کا ایک روزہ کیریئر مایوس کن انداز میں اختتام کو پہنچا۔
اب جنوبی افریقہ سیمی فائنل کے لیے تیار ہے، اسے ویلنگٹن کی پرواز لینا ہو گی جہاں وہ چوتھے کوارٹر فائنل کے فاتح کا مقابلہ کرے گا یعنی نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے مقابلے کے فاتح سے۔ لیکن جیسی کارکردگی جنوبی افریقہ نے کوارٹر فائنل میں دکھائی ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب کوئی پروٹیز کو نہیں روک پائے گا۔
دل شکستہ جنوبی افریقہ عالمی کپ سے باہر ہو گیا اور اس کے ساتھ ایک ایسی بدشگونی اس کے ساتھ چپک گئی کہ پھر جب کبھی وہ عالمی کپ کے ناک-آؤٹ مرحلے میں آیا، پہلے ہی مقابلے میں شکست کھائی۔ لیکن اب وہی مارچ کا مہینہ، وہی سڈنی کا میدان اور وہی عالمی کپ کا پہلا ناک-آؤٹ مقابلہ، جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو باآسانی 9 وکٹوں سے ہرا دیا اور یوں انگریزی مقولے کے مطابق اس بندر کو کاندھے سے اتار پھینکا ہے، جو عرصہ دراز سے اس سے چمٹا ہوا تھا۔
جنوبی افریقہ پر تاریخ کا کتنا بڑا بوجھ اور دباؤ تھا، اس کا اندازہ پچھلے عالمی کپ ٹورنامنٹس پر نظریں دوڑا کر کیا جا سکتا ہے۔ 1992ء میں بدقسمتی سے باہر ہو جانے کے بعد 1996ء میں کوارٹر فائنل، 1999ء اور 2007ء میں سیمی فائنل اور 2011ء میں ایک مرتبہ پھر کوارٹر فائنل میں شکست نے جنوبی افریقہ کو ''چوکرز'' کا لقب دیا کہ یہ وہ ٹیم ہے جو بڑے مقابلوں کا دباؤ برداشت نہیں کر پاتی۔
حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ ان میں سے دو مقابلے تو انھوں نے ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ جیسے کہیں کمزور حریفوں کے مقابلے میں ہارے۔ پھر جاری عالمی کپ کے گروپ مرحلے میں بھی جنوبی افریقہ کی کارکردگی مثالی نہیں تھی۔
اسے بھارت اور پاکستان کے ہاتھوں بْری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کوارٹر فائنل میں اس کا مقابلہ برصغیر کی تیسری بڑی کرکٹ قوت کے ساتھ تھا۔ جہاں جنوبی افریقہ نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً لنکا ڈھا دی۔ سری لنکا جیسی بہترین بیٹنگ لائن کو صرف 133 رنز پر ڈھیر کرنا جنوبی افریقہ کی باؤلنگ لائن کی کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیل اسٹین، مورنے مورکل اور کائل ایبٹ کی تیز باؤلنگ مثلث ایک طرف اسپنر عمران طاہر اور جے پی دومنی نے جس طرح مڈل آرڈر پر قہر برسایا، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ٹورنامنٹ کی مکمل ترین باؤلنگ لائن جنوبی افریقہ کے پاس ہے۔
پھر 134 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کے وہ بلے باز بھی چلے، جو پورے عالمی کپ میں ناکام ہوئے تھے۔ کوئنٹن ڈی کوک، جن کی فارم جنوبی افریقہ کے لیے کافی پریشانی کا باعث تھی، اہم ترین مقابلے میں 78 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے اور اگر ہدف مزید دور ہوتا تو شاید سنچری بھی بنا جاتے۔
یوں سری لنکا نے جاتے جاتے جنوبی افریقہ کے ایک اور سوتے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے۔ صرف 18 اوورز میں محض ایک وکٹ کے نقصان پر جنوبی افریقہ نے ہدف حاصل کر لیا اور یوں سری لنکا کو عالمی کپ کی دوڑ سے باہر کر دیا۔
سری لنکا مسلسل دو عالمی کپ فائنل کھیل چکا ہے۔ 2007ء میں اسے آسٹریلیا اور 2011ء میں بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی اور کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے تیسری اور آخری بار اس خواب کو حقیقت کا روپ دینا چاہتے تھے لیکن کہانی کوارٹر فائنل میں ہی ختم ہو گئی۔ یوں دو عظیم کھلاڑیوں کا ایک روزہ کیریئر مایوس کن انداز میں اختتام کو پہنچا۔
اب جنوبی افریقہ سیمی فائنل کے لیے تیار ہے، اسے ویلنگٹن کی پرواز لینا ہو گی جہاں وہ چوتھے کوارٹر فائنل کے فاتح کا مقابلہ کرے گا یعنی نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے مقابلے کے فاتح سے۔ لیکن جیسی کارکردگی جنوبی افریقہ نے کوارٹر فائنل میں دکھائی ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب کوئی پروٹیز کو نہیں روک پائے گا۔