شہنشاہ جذبات ’’محمد علی‘‘
محمد علی کا مشہور مکالمہ ’’دنیا والوں‘‘ آج بھی مداحوں کے دل پر نقش ہے۔
سادات خاندان کے آباؤ اجداد نے حضرت مجدد الف سانی کے حکم سے غزنی (افغانستان) سے بھارتی شہر رام پور ہجرت کی۔ مولانا سید مرشد علی نے اپنے بزرگوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے دینی تعلیم کو اپنا مقصد بنایا۔ 19 اپریل 1931ء کو اُن کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی، جسے اس کے سرخ و سفید رنگ اور گہری آنکھوں کی وجہ سے سب گھر والے پیار سے'' منا'' کہہ کر مخاطب کرتے تھے جبکہ اس کا حقیقی نام سید محمد علی تھا۔
جی ہاں یہ وہی محمد علی ہیں جن کے ذکر کے بغیر ہماری فلمی صنعت کی تاریخ ادھوری ہے۔ ابتدائی تعلیم اردو، عربی اور فارسی میں حاصل کی۔ رام پور سے روہتک اور پھر آزادی پاکستان کے بعد حیدر آباد اور پھر ملتان آگئے، جہاں ملت ہائی اسکول اور گورنمنٹ ایمرسن کالج سے تعلیم حاصل کی۔ پھر حیدرآباد رخت سفر باندھا اور سٹی کالج حیدرآباد سے گریجوایشن کی۔
اب اگلہ مرحلہ تھا روزگار کی تلاش کا۔ ان کے بڑے بھائی سید ارشاد علی جو اُس وقت ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں ملازم تھے، وہاں اُنہیں بھی بطور صدا کار فی ڈرامہ 10 روپے کی ملازمت مل گئی، پھر ریڈیو پاکستان بہاولپور چلے گئے اور وہاں سے ریڈیو پاکستان کراچی آگئے۔
کراچی میں ڈائریکٹر جنرل ریڈیو جناب ذوالفقارعلی بخاری (زیڈ۔اے ۔بخاری) اُن کے اندر کے فنکار کو بھانپ گئے اور شاعر پروڈیوسر فضل کریم فضلی سے ملاقات کرائی جو اُس وقت فلم ''چراغ جلتا رہا'' بنارہے تھے۔ محمد علی نے فلم کے مرکزی کردار کے بجائے ولن کا کردار کرنا پسندکیا۔ اُس فلم میں زیبا، دیبا اور اکمل ایرانی ان کے مدمقابل تھے۔ یہ محمد علی اور زیبا کی پہلی ملاقات تھی، ایک ہی نظر میں میں دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے اور شادی کے خوب صورت بندھن میں آخری سانس تک بندھے رہے۔
چند فلموں میں بطور ولن کردار ادا کرنے کے بعد 1963ء میں محمد علی نے بطور ہیرو پہلی فلم ''شرارت'' کی۔ اُن کی ہر فلم ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑتی رہی۔ اپنی 27 سالہ فلمی زندگی میں انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، جن میں بوبی، کلرک، نصیب، جنرل بخت خان، جوش، چوری چوری، آواز، مارگریٹ، خدا اور محبت، امبر، اک گناہ اور سہی، دامن اور چنگاری، جاگ اٹھا انسان، تم سلامت رہو، شمع، حاتم طائی، آگ کا دریا، ٹیپو سلطان، حیدر علی، انصاف اور قانون، انسان اور آدمی، کنیز، میرا گھر میری جنت، افسانہ زندگی کا، آئینہ اور صورت، پھول میرے گلشن کا، دوریاں، سلاخیں، آگ، جیسے جانتے نہیں اور بہت سی مشہور اور بامقصد فلمیں شامل ہیں۔ اُنہوں نےنہ صرف اُردو زبان بلکہ پنجابی، پشتواور ایک عدد بنگالی فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
محمد علی کے بولنے کے مخصوص انداز، منفرد شخصیت اور چال ڈھال کو مدنظر رکھ کر فلمیں لکھی جاتی تھی اور ہر فلم ہی کامیاب ہوجاتی۔ وہ فن کے ساتویں آسمان پر تھے جہاں پر ہر کردار میں روح پھونک دیتے تھے۔ اُنہوں نے جوانی میں جب بوڑھے کا کردار کیا تو نہ صرف چال ڈھال بلکہ آواز کے اندر بھی ایک بوڑھے لاچار کی بے بسی جھلکتی تھی۔ کردار چاہے کالج کے شرارتی اور منہ زور طالبعلم کا ہو، عشق میں ڈوبے ہوئے فرہاد کا، قانون کے محافظ کا یا پھر استحصال زدہ مجبور انسان کا ہو، محمد علی جب بھی کسی کردار کے روپ میں پردہ اسکرین پر نمودار ہوئے تو پھر وہ فلم صرف فلم نہیں رہی، بلکہ اس نے شائقین کو بھی اپنے شکنجے میں قابو کرکے ایک ایسا سحرطاری کردیا کہ فلم دیکھنے والے کو حقیقی زندگی میں نہ صرف وہ کردار اپنے ارد گرد محسوس ہونے لگتا بلکہ وہ اس کردار سے محو کلام بھی ہوجاتا تھا۔ جذباتی منظر نگاری ایسی کہ دیکھنے والے کی آنکھوں میں بھی قدرتی آنسو آجاتے۔ اُن کا مشہور مکالمہ ''دنیا والوں'' آج بھی مداحوں کے دل پر نقش ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد علی واقعی میں ''شہنشاہ جذبات'' تھے۔
حب الوطنی کی بات ہو تو جب انٹرنیشنل فلم فیسٹول ماسکو میں شرکت کی تو جنگی قیدیوں کے حق میں بطور احتجاج سیاہ لباس پہن کر شرکت کی۔ اسلامی کانفرنس کے دوران سعودی حکمراں شاہ فیصل بھی ان کے گھر بھی تشریف لائے۔ محمد علی ایک بین الاقوامی شخصیت تھے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی بھارتی اداکاروں سے دوستی گہرا تعلق رکھتی تھی۔ دلیپ کمار اور سائرہ بانو تو اُن کے گرویدہ تھے جبکہ راج کپور فیملی ہو یا منوج کمار سب ان کی صلاحیت و قابلیت کے قائل تھے۔
محمد علی اور زیبا جب بھارت کے دورے پرگئے تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اُنہیں وزیراعظم ہاوس مدعو کیا۔ وہ پاکستان کے واحد فلمی اداکار ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے تمغۂ امتیاز سے نوازا، جبکہ انہیں 1984 میں تمغۂ حسن کارکردگی کا اعزاز بھی دیا گیا۔ اُنہوں نے 10 نگار ایوارڈز بھی جیتے، بھارت کی جانب سے انہیں نوشاد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جبکہ مسلم سربراہی کانفرنس 1974ء کے دوران ہی مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انہیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی اور ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا۔
محمد علی کسی بھی انسان کو دُکھ میں نہیں دیکھ سکتے تھے اور اِسی لئے انہوں نے''علی زیب فائونڈیشن'' کی بنیاد رکھی جو آج بھی نادار اور مستحق لوگوں میں زندگی کی کرنیں پھیلا رہی ہے۔ ساتھ ہی وہ مشیر ثقافت کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔
محمد علی نے فلم اور اداکار کی عزت اور وقار بنانے کے لئے جو کردار ادا کیا وہ آج تک کسی اور نے نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج 9 سال بعد بھی اُن کی مخصوص آواز کی گونج ہر سو سنائی دیتی ہے۔ محمد علی 19مارچ 2006ء کو عارضہ قلب کی وجہ سے اپنے مداحوں سے جدا ہو گئے جبکہ انہیں آخری آرام گاہ بھی حضرت میاں میر کے مزار کے پہلو میں نصیب ہوئی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جی ہاں یہ وہی محمد علی ہیں جن کے ذکر کے بغیر ہماری فلمی صنعت کی تاریخ ادھوری ہے۔ ابتدائی تعلیم اردو، عربی اور فارسی میں حاصل کی۔ رام پور سے روہتک اور پھر آزادی پاکستان کے بعد حیدر آباد اور پھر ملتان آگئے، جہاں ملت ہائی اسکول اور گورنمنٹ ایمرسن کالج سے تعلیم حاصل کی۔ پھر حیدرآباد رخت سفر باندھا اور سٹی کالج حیدرآباد سے گریجوایشن کی۔
اب اگلہ مرحلہ تھا روزگار کی تلاش کا۔ ان کے بڑے بھائی سید ارشاد علی جو اُس وقت ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں ملازم تھے، وہاں اُنہیں بھی بطور صدا کار فی ڈرامہ 10 روپے کی ملازمت مل گئی، پھر ریڈیو پاکستان بہاولپور چلے گئے اور وہاں سے ریڈیو پاکستان کراچی آگئے۔
کراچی میں ڈائریکٹر جنرل ریڈیو جناب ذوالفقارعلی بخاری (زیڈ۔اے ۔بخاری) اُن کے اندر کے فنکار کو بھانپ گئے اور شاعر پروڈیوسر فضل کریم فضلی سے ملاقات کرائی جو اُس وقت فلم ''چراغ جلتا رہا'' بنارہے تھے۔ محمد علی نے فلم کے مرکزی کردار کے بجائے ولن کا کردار کرنا پسندکیا۔ اُس فلم میں زیبا، دیبا اور اکمل ایرانی ان کے مدمقابل تھے۔ یہ محمد علی اور زیبا کی پہلی ملاقات تھی، ایک ہی نظر میں میں دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے اور شادی کے خوب صورت بندھن میں آخری سانس تک بندھے رہے۔
چند فلموں میں بطور ولن کردار ادا کرنے کے بعد 1963ء میں محمد علی نے بطور ہیرو پہلی فلم ''شرارت'' کی۔ اُن کی ہر فلم ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑتی رہی۔ اپنی 27 سالہ فلمی زندگی میں انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، جن میں بوبی، کلرک، نصیب، جنرل بخت خان، جوش، چوری چوری، آواز، مارگریٹ، خدا اور محبت، امبر، اک گناہ اور سہی، دامن اور چنگاری، جاگ اٹھا انسان، تم سلامت رہو، شمع، حاتم طائی، آگ کا دریا، ٹیپو سلطان، حیدر علی، انصاف اور قانون، انسان اور آدمی، کنیز، میرا گھر میری جنت، افسانہ زندگی کا، آئینہ اور صورت، پھول میرے گلشن کا، دوریاں، سلاخیں، آگ، جیسے جانتے نہیں اور بہت سی مشہور اور بامقصد فلمیں شامل ہیں۔ اُنہوں نےنہ صرف اُردو زبان بلکہ پنجابی، پشتواور ایک عدد بنگالی فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
محمد علی کے بولنے کے مخصوص انداز، منفرد شخصیت اور چال ڈھال کو مدنظر رکھ کر فلمیں لکھی جاتی تھی اور ہر فلم ہی کامیاب ہوجاتی۔ وہ فن کے ساتویں آسمان پر تھے جہاں پر ہر کردار میں روح پھونک دیتے تھے۔ اُنہوں نے جوانی میں جب بوڑھے کا کردار کیا تو نہ صرف چال ڈھال بلکہ آواز کے اندر بھی ایک بوڑھے لاچار کی بے بسی جھلکتی تھی۔ کردار چاہے کالج کے شرارتی اور منہ زور طالبعلم کا ہو، عشق میں ڈوبے ہوئے فرہاد کا، قانون کے محافظ کا یا پھر استحصال زدہ مجبور انسان کا ہو، محمد علی جب بھی کسی کردار کے روپ میں پردہ اسکرین پر نمودار ہوئے تو پھر وہ فلم صرف فلم نہیں رہی، بلکہ اس نے شائقین کو بھی اپنے شکنجے میں قابو کرکے ایک ایسا سحرطاری کردیا کہ فلم دیکھنے والے کو حقیقی زندگی میں نہ صرف وہ کردار اپنے ارد گرد محسوس ہونے لگتا بلکہ وہ اس کردار سے محو کلام بھی ہوجاتا تھا۔ جذباتی منظر نگاری ایسی کہ دیکھنے والے کی آنکھوں میں بھی قدرتی آنسو آجاتے۔ اُن کا مشہور مکالمہ ''دنیا والوں'' آج بھی مداحوں کے دل پر نقش ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد علی واقعی میں ''شہنشاہ جذبات'' تھے۔
حب الوطنی کی بات ہو تو جب انٹرنیشنل فلم فیسٹول ماسکو میں شرکت کی تو جنگی قیدیوں کے حق میں بطور احتجاج سیاہ لباس پہن کر شرکت کی۔ اسلامی کانفرنس کے دوران سعودی حکمراں شاہ فیصل بھی ان کے گھر بھی تشریف لائے۔ محمد علی ایک بین الاقوامی شخصیت تھے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی بھارتی اداکاروں سے دوستی گہرا تعلق رکھتی تھی۔ دلیپ کمار اور سائرہ بانو تو اُن کے گرویدہ تھے جبکہ راج کپور فیملی ہو یا منوج کمار سب ان کی صلاحیت و قابلیت کے قائل تھے۔
محمد علی اور زیبا جب بھارت کے دورے پرگئے تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اُنہیں وزیراعظم ہاوس مدعو کیا۔ وہ پاکستان کے واحد فلمی اداکار ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے تمغۂ امتیاز سے نوازا، جبکہ انہیں 1984 میں تمغۂ حسن کارکردگی کا اعزاز بھی دیا گیا۔ اُنہوں نے 10 نگار ایوارڈز بھی جیتے، بھارت کی جانب سے انہیں نوشاد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جبکہ مسلم سربراہی کانفرنس 1974ء کے دوران ہی مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انہیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی اور ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا۔
محمد علی کسی بھی انسان کو دُکھ میں نہیں دیکھ سکتے تھے اور اِسی لئے انہوں نے''علی زیب فائونڈیشن'' کی بنیاد رکھی جو آج بھی نادار اور مستحق لوگوں میں زندگی کی کرنیں پھیلا رہی ہے۔ ساتھ ہی وہ مشیر ثقافت کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔
محمد علی نے فلم اور اداکار کی عزت اور وقار بنانے کے لئے جو کردار ادا کیا وہ آج تک کسی اور نے نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج 9 سال بعد بھی اُن کی مخصوص آواز کی گونج ہر سو سنائی دیتی ہے۔ محمد علی 19مارچ 2006ء کو عارضہ قلب کی وجہ سے اپنے مداحوں سے جدا ہو گئے جبکہ انہیں آخری آرام گاہ بھی حضرت میاں میر کے مزار کے پہلو میں نصیب ہوئی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔