مووی ریویو ’’جلیبی‘‘

’’جلیبی‘‘ میں ان تمام پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے،جو ایک کامیاب فلم کے لئے درکار ہیں۔

’’جلیبی‘‘ میں ان تمام پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے،جو ایک کامیاب فلم کے لئے درکار ہیں۔ فوٹو وکی پیڈیا

کہتے ہیں کہ ایک تصویر 1000 الفاظ کے برابر ہوتی ہے، لیکن اگر فلم کی بات کی جائے تو اس کا ٹریلر پوری فلم کا نچوڑ ہوتا ہے، ٹریلر سے ہی لوگ اندازہ لگالیتے ہیں کہ یہ فلم دیکھنے کے لائق ہے کہ نہیں؟

فلم ''جلیبی'' کے ٹریلر نے نوجوان نسل میں تو تہلکہ مچایا ہوا ہے، کیونکہ اس میں ان تمام پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے جو ایک کامیاب فلم کے لئے درکار ہیں۔ لیکن ان تمام عناصر کے باوجود فلمی حلقے اور میڈیا نے فلم کی ناکامی کے حوالے سے پہلے ہی چہ مگوئیاں شروع کردی تھیں اور سب کو انتظار تھا تو فلم کا۔ تاکہ یہ دیکھا جائے کہ سب کے اندازے کس حد تک درست یا غلط ثابت ہوتے ہیں۔

گذشتہ روز کراچی میں فلم ''جلیبی'' کے پریمیئرکا اہتمام کیا گیا جس میں فیشن، شوبز، فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے نامور فن کاروں نے شرکت کی۔ یاسر جسوال کی ایکشن تھرلر فلم ''جلیبی'' جس کا شائقین فلم کو طویل عرصے سے انتظار تھا، وہ انتظار اب اختتام پذیر ہوا کیونکہ یہ فلم 20 مارچ کو بیک وقت پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکا اور برطانیہ کے سینما گھروں کی زینت بنے گی اور فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی باکس آفس پر چرچوں میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ایڈوانس بکنگ کروالی ہیں۔




فلم کی تحریر اور ہدایت کاری کے فرائض یاسر جسوال نے انجام دئیے۔ فلم کی کاسٹ میں ٹی وی انڈسٹری کے تمام جانے پہچانے چہرے شامل ہیں۔ جن میں علی سفینہ، دانش تیمور، وقارعلی خان، ژالے سرحدی، سبیکا امام، ساجد حسن، عدنان جعفر، عزیر جسوال نمایاں نظر آئے۔ اب چلتے ہیں فلم کے پوسٹ مارٹم کی جانب۔

اسٹوری لائن۔

فلم کی کہانی تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے، جس میں فلم کی کہانی شروع میں دو دوست بلو (دانش تیمور) اور بگا (علی سفینہ) کے گرد گھومتی ہے جو شارٹ کٹ کے چکر میں مافیا کے عہدیداردار (عدنان جعفر) کے قرض میں پھنس جاتے ہیں اور پھر اس دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف علی (وقار علی خان) اور اس کے بھائی جیمی (عزیر جسوال) کی کہانی ہے کہ کس طرح اُن کا ہنستا بستا گھر مافیا ''کنگ'' اجاڑ دیتا ہے، ان کے باپ کو ماردیا ہے۔ علی کی ماں وعدہ لیتی ہے کہ وہ اپنے باپ کی موت کا بدلہ لے گا۔



تیسری کہانی جو ان دونوں کہانی کو جوڑے رکھتی ہے وہ سیاست دان اور مافیا کنگ اکبر اور اس کی بیٹی ایمان (سبیکا امام) کے گرد گھومتی ہے۔ اصل میں فلم ''جلیبی'' کے نام کی طرح پوری فلم کی کہانی جلیبی کی طرح گول گول گھومی ہوئی ہے، جسے جاننے کے لئے صبروتحمل کے ساتھ فلم کے اختتام تک دیکھنا ضروری ہے کیونکہ انٹرمیشن تک فلم کی کہانی بکھری ہوئی ہے جو انٹرول کے بعد سمٹنا شروع ہوتی ہے۔ اگر فلم کی کہانی کو ستارے دینے کی بات ہے تو2/5 ستارے کافی ہیں۔

ڈائیلاگ/ مکالمے بازی۔

فلم میں مکالمے کی ادائیگی پر زیادہ توجہ نظر نہیں آئی اور نہ ہی کوئی خاص مضبوط مکالموں کا استعمال نظر آیا۔ بلکہ مکالموں کا استعمال بہت سی جگہوں پر کم نظر آیا۔ لیکن اگر کسی نے مکالمے بازی کی لاج رکھی تو وہ علی سفینہ، دانش تیموراور ساجد حسن ہیں۔ فلم میں کوئی ایسی مکالمے بازی نظر نہیں آئی جسے ہم پنچ لائن کہتے ہیں۔ لیکن اگر ادائیگی اور لفظوں کی مضبوطی پر بات کریں توعلی سفینہ کا ڈائیلاگ؛
''زندگی سے ایک ہی چیز سیکھی کہ اس میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے کچھ زیادہ مل بھی جائے تو سالی قسمت کتے کی طرح پیچھے کاٹنے کو آتی ہے''

اور دانش تیمور کا ڈائیلاگ؛
''بھونکنے میں اور کاٹنے میں بہت فرق ہوتا ہے''



وہ ڈائیلاگ ہیں جنہوں نے فوراً ذہن میں چھاپ چھوڑدی۔ ڈائیلاگ کے لئے بھی 2/5 ستارے ضرورت سے زیادہ ہیں۔


موسیقی،آئٹم نمبر۔

کسی بھی فلم کی شہرت میں اس کے گانوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور فلم جلیبی میں ساونڈ ٹریک بہت معنی خیز انداز میں استعمال کئے گئے۔ ایکشن تھرلر اور سنسنی سے بھرپور اس فلم میں لوگوں کے دل لبھانے کے لئے آئٹم سونگ ''جوانی'' کا تڑکا بھی موجود تھا۔ لیکن ژالے سرحدی کے لٹکے جھٹکے اور نازانداز بھی لوگوں کو خاص محظوظ نہ کرسکے۔




فلم میں بے تحاشہ اور بے جا بیک گراونڈ میوزک کا استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مقامات پر بیک گراونڈ میوزک مکالموں پر حاوی ہوگئے۔ گانوں کو اگر ستارے دینے کی بات ہے تو3/5 ستارے دیں گے۔

سینمیٹوگرافی۔

پوری فلم میں اگر کوئی پہلو سب سے زیادہ قابل تعریف تھا وہ کیمرے کا استعمال تھا۔ اس بات پر یہ کہنا لازم ہے کہ کیمرہ ٹیکنیک کے حوالے سے جن چیزوں کا دعوہ کیا گیا تھا وہ تمام سو فیصد درست تھے۔ فلم میں ہالی ووڈ کی ٹاپ فلموں میں استعمال ہونے والے کیمرے ایری ایلکزا کو استعمال کیا گیا ہے اور اس میں وہی جدید ٹیکنیکس استعمال کی گئی ہیں جو ہالی ووڈ فلم گریویٹی، اسکائی فال اور آئرن مین 3 کی عکسبندی کے دوران استعمال کی گئی تھیں۔



گرافکس کا بہت عمدہ استعمال کیا گیا ہے جو فلم کی خوبصورتی میں اہم کردار ادا کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ فلم میں کیمرہ اور گرافکس کو 5/5 ستارے دینا ہی اس فلم کے سینمیٹوگرافر کے ساتھ انصاف ہوگا۔

فلم کے مقامات کی خوبصورتی اور بے ترتیبی۔

فلم کی عکسبندی پاکستان کے تین شہروں کراچی،ل اہوراور اسلام آباد میں کی گئی ہے۔ فلم میں شہروں کی خوبصورتی اور دلکش مناظرکو بہت ہی خوبصورت انداز میں دکھایا گیا ہے کہ دل کرتا ہے کہ ان مناظر کو دیکھتے ہی رہیں لیکن ایک چیز جس پر کام نہیں کیا گیا وہ مقامات کی ترتیب پر ہے۔ کہیں کہانی کا ایک سرا کراچی میں دکھایا گیا ہے تو وہیں دوسرا حصہ اسلام آباد میں عکسبند ہوا ہے۔



بین الاقومی سطح پر تو یہ چل سکتا ہے لیکن پاکستانی عوام ان پہلوئوں کو ہضم نہیں کرسکیں گے۔ مقامات کی خوبصورتی کے لئے 5/5 لیکن بے ترتیبی کے لئے 2/5 ستارے دئیے جاسکتے ہیں۔

تجاویز۔

فلم ''جلیبی'' پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نیا ذائقہ متعارف کروانے کی کوشش ہے۔ کم از کم ایک بار تو سب کو ضرور دیکھنی چاہییے کیونکہ کچھ بھی ہو انٹرٹینمنٹ اور سنسنی خیز فلم ہے، لیکن فلم دیکھنے کے لئے صبروتحمل کا دامن ہاتھ سے جانے مت دیجئیے گا کیونکہ اصل کہانی ہی انٹرویل کے بعد شروع ہے اور پاکستان کے خوبصورت اور دلکش مناظر حقیقت میں بہت کم لوگوں کو دیکھنے کو ملتے ہیں تو عوام اس سے خوب لطف اندوز ہوگی۔ اگر مناظر دیکھنے میں دلچسپی نہ ہو تو فلم میں استعمال کی گئی گاڑی ''فورڈ مستنگ'' 1973 کے ماڈل سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر فلم کو3/5 ستاروں سے نوازیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story