فوج کی نگرانی میں آیندہ سال مردم شماری کرانے کا فیصلہ

ملک میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی جس کے بعد اب تقریباً 18 سال بعد مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔


Editorial March 20, 2015
حیرت انگیز امر ہے کہ صوبوں کے درمیان ابھی تک پانی کے مسائل حل نہیں ہوئے اور ان کے درمیان اختلافات بدستور چلے آ رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

مشترکہ مفادات کونسل نے مارچ 2016 میں پاک فوج کی زیر نگرانی ملک میں مردم اور خانہ شماری کرانے کا فیصلہ کیا۔ کونسل کا اجلاس بدھ کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں ہوا جس میں پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرائے خزانہ اور دیگر حکام نے شرکت کی،بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بیرون ملک دورے کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ مردم شماری اور خانہ شماری کے اخراجات صوبے قابل تقسیم پول سے مل کر اٹھائیں گے۔اجلاس میں بلوچستان کی طرف سے صوبے میں امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر مردم شماری ملتوی کرنے کی تجویز دی گئی جس سے وفاق اور دیگر صوبوں نے اتفاق نہیں کیا۔

ملک میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی جس کے بعد اب تقریباً 18 سال بعد مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان میں سب سے پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی، پھر اس کے بعد 1961، 1972،1981 اور پھر 1998 میں ہوئی۔ شیڈول کے مطابق 1998 کے بعد 2008 ء میں مردم شماری ہونا چاہیے تھی مگر بعض وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔ مردم شماری کا مقصد ملک کی کل آبادی اور اس میں سالانہ اضافے کی شرح کا تعین کرنا ہوتا ہے تاکہ ملکی وسائل آبادی کی بنیاد پر درست طور پر تقسیم کیے جاسکیں۔ مردم شماری کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھنا لازم ہے کہ معلومات کا درست اندراج کیا جائے کیونکہ گزشتہ ہونے والی مردم شماری میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ شکایات بھی سامنے آ چکی ہیں کہ خاص منصوبہ بندی کے تحت ان کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا جب کہ حقیقتاً ان کی آبادی ظاہر کیے گئے اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔

مبصرین کے مطابق بعض طاقتور کمیونٹیز زیادہ سے زیادہ ملکی وسائل حاصل کرنے کے لیے اپنی آبادی کے اعدادوشمار کئی گنا زیادہ ظاہر کرتی ہیں، ان کے اس فعل سے دوسری کمزور کمیونٹیز کی حق تلفی ہوتی ہے اور ان کے حصے میں مطلوبہ ملکی وسائل نہیں آتے۔ اس لیے اس بار حکومت کو مردم شماری کرتے ہوئے ان امور کا خاص خیال رکھنا ہو گا تاکہ بعدازاں کسی کو اعدادوشمار کے حوالے سے اعتراضات اٹھانے کی ضرورت نہ ہو۔ مردم شماری کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر آباد غیر ملکی افراد پر بھی کڑی نظر رکھی جانی چاہیے کیونکہ ایسی خبریں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں کہ غیر ملکی افراد نے جعلی شناختی کارڈ اور جعلی پاسپورٹ بنا کر پاکستانی شہریت حاصل کر رکھی ہے۔

اس مسئلے کا بھی سدباب ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی غیر ملکی غیر قانونی طور پر پاکستانی شناخت حاصل نہ کر سکے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شرکاء کو بتایا کہ سرکاری قرضہ 2 سال کے عرصہ میں 64 فیصد سے کم کر کے 62 فیصد تک لایا گیا ہے، جون 2016ء تک اس کو 60 فیصد تک لایا جائے گا۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ بہتر حکومتی پالیسیوں کے باعث سرکاری قرضے میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ سرکاری قرضہ جتنا زیادہ ہو حکومت کو ملکی ترقی کے منصوبے تشکیل دینے میں اتنے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کونسل نے پاکستان حلال اتھارٹی کے قیام کے لیے مسودہ بل کی منظوری دی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ اس کے تحت حلال بزنس کی بین الاقوامی منڈی میں موجود کھربوں ڈالر کی بڑی صلاحیت سے پاکستان کو فائدہ ہو گا جس میں سے زیادہ تر حصہ غیر مسلم ممالک لے جاتے ہیں۔ حلال شعبہ میں مختلف خوردنی اشیا شامل ہیں جن میں خوراک، فارماسیوٹیکلز، ہیلتھ اینڈ فوڈ سپلیمنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ قومی سطح پر حلال شعبہ سے متعلق مسلمہ اور قانونی اتھارٹی کی عدم دستیابی کے باعث پاکستان کو اس وقت اس بھاری برآمدی صلاحیت کا برائے نام حصہ مل رہا ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ عالمی سطح پر حلال اشیا کے کاروبار میں غیر مسلم ممالک کا حصہ مسلم ممالک کے مقابل کئی گنا زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی پالیسیاں قومی اور تجارتی مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دیتے ہیں جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج ان ممالک میں خوشحالی اور دولت کی ریل پیل ہے۔

پاکستان کو بھی اپنی پالیسیاں قومی اور تجارتی مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دینی چاہئیں۔ اگر پاکستان عالمی منڈی میں حلال خوراک کی برآمد کی جانب توجہ دے تو کھربوں ڈالر کے اس کاروبار میں اس کے حصے میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ملکی سطح پر بیروز گاری پر قابو پانے میں بھی خاصی مدد ملے گی۔ حیرت انگیز امر ہے کہ صوبوں کے درمیان ابھی تک پانی کے مسائل حل نہیں ہوئے اور ان کے درمیان اختلافات بدستور چلے آ رہے ہیں۔ جس کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے دریائے سندھ سے کم پانی فراہمی کی شکایت کی جس پر وزیراعظم نے ارسا کے حکام کو ہدایت کی کہ تمام صوبوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم کیا جائے۔ جب سرکاری سطح پر ادارے موجود ہیں تو ایسی صورت میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے شکایات کا پیدا ہونا حیرت انگیز امر ہے۔ اس حوالے سے واضح پالیسی اپنائی جائے تاکہ آیندہ کسی صوبے کو کم پانی فراہمی کی شکایت پیدا نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں